برانڈ پرانا، انداز نیا
کمپنی اپنی بقا کے لئے Rebranding کا سہارا لیتی ہے۔ کیا حالیہ سیاسی منظرنامہ بھی نظام کی Rebranding تو نہیں؟
برانڈ پرانا، انداز نیا
سعد میر۔ راولپنڈی
سال 2012 ءمیں dominos پیزا کی ڈیمانڈ بالکل ختم ہوچکی تھی۔ تجربہ کار انتظامیہ کے ہر قسم کے روایتی اقدامات کے باوجود اس کی ڈیمانڈ کم ہوتی جا رہی تھی، سرمایہ دار اپنا سرمایہ کھینچ رہے تھے، جس کی وَجہ سے حصص کی قیمت دس ڈالر سے اوپر نہیں جا رہی تھی۔ پھر نیا CEO آتا ہے اور اپنی ٹیم کے ساتھ کچھ نیا کرنے کا سوچتا ہے اور مکمل rebranding کرتا ہے، جس میں کمپنی خود ہی اشتہارات کے ذریعے اپنے بارے میں negative reviews چلاتی ہے اور اس کے بعد CEO اشتہارات میں آکر کمپنی کی تمام غلطیوں کا اعتراف کرتا ہے۔ اور ساتھ ہی اپنی نئی حکمت عملی کو'ماضی کے تجربات کی روشنی میں' پیش کرتا ہے۔
کمپنی نے نئی نسل تک پہنچنے کے لیے ٹیکنا لوجی کا استعمال، پرانے صارفین کے لیے نئی مارکیٹنگ اسٹریٹیجی کی بنیاد پر نئی شناخت بنائی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر سال کمپنی کے حصص کی قیمت میں اضافہ ہوتا گیا اور 2021ء تک اس کی قیمت بلند ترین سطح 530 ڈالر فی حصص تک پہنچ گئی۔
اس طرح کی کئی مثالیں آپ کو ملیں گی، جہاں کوئی کمپنی sale بڑھانے یا اپنی شناخت سے جڑی بُری ساکھ دور کرنے کے لیے نئے انداز میں مارکیٹ میں آتی ہے اور اپنا کھویا ہوا یا طے کیا ہوا مقام حاصل کر لیتی ہے۔ زیادہ تر تو یہ ہوتا ہے کہ صرف ایک product کی rebranding کر کے ہی کمپنی اپنے اہداف حاصل کر لیتی ہے اور کمپنی اپنی پرانی شناخت برقرار رکھتی ہے۔
رواں سال پاکستانی سیاست میں کئی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، جس نے بڑے سے بڑے تجزیہ کاروں کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ لیکن اگر آپ اس ملک کے سرمایہ دارانہ نظام کو ایک کمپنی مان لیں اور مختلف جماعتوں کو اس کمپنی کی مختلف productsتصور کرلیں تو صورت حال سمجھنےد میں آسانی ہوگی۔
نظر تو یہ آرہا ہے کہ کمپنی نے اپنی بقاکے لیے گزشتہ سالوں میں نئی شناخت کے ساتھ نئی مصنوعات متعارف کروائیں تھیں، جس کی وَجہ سے اس کی پرانی مصنوعات کی فروخت بالکل کم ہوگئی۔ اور جو نئی مصنوعات بک بھی گئی ، اس سے جتنی توقعات عوام کو وابستہ تھیں وہ پوری نہیں ہو سکیں۔
اس لیے اس سال کمپنی نے فیصلہ کیا ہے کہ "تمام انڈے ایک ٹوکری" میں نہ ڈالے جائیں۔ اور نئی حکمت عملی کے تحت نسبتاً نئی پراڈکٹ میں موجود کوتاہیوں کو تسلیم کرکے نئے پیکج کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔ اور پرانی مصنوعات کو بھی ، حالیہ پیش رفت کے ذریعے، مارکیٹنگ کے لیے نیا بیانیہ دیا جارہا ہے۔ تاکہ اس کا مارکیٹ شیئر دوبارہ حاصل کیا جائے اور کسی نئی مقابل کمپنی کو کسی بھی طرح کی مارکیٹ میں جگہ نہ دی جائے۔
عوام اَب جس بھی پراڈکٹ کا انتخاب کریں، تقویت اس کمپنی کو ہی ملے گی۔ اگر لوگ اس کمپنی اور اس کے حربوں کو سمجھ کر تجزیہ کریں گے تو یقیناً اس کے بچھائے ہوئے جال میں نہیں پھنسیں گے اور ایسی کمپنی کو لانے کی کوشش کریں گے جو عوام کی ڈیمانڈ کے مطابق پراڈکٹس پیش کرے، نہ کہ پراڈکٹس پیش کرکے ڈیمانڈ پیدا کرے۔