سرمایہ دارانہ جمہوریت کی منفیتیں - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سرمایہ دارانہ جمہوریت کی منفیتیں

    یہ جمہوریت نہیں سرمایہ دارانہ جمہوریت ہے۔سرمایہ دارانہ جمہوریت میں غریب خاندانوں کی محنت پر ڈاکہ ڈالنے کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔

    By یاسر عرفات Published on Aug 15, 2022 Views 1310
    سرمایہ دارانہ جمہوریت کی منفیتیں
    یاسرعرفات۔ ملتان 

    پاکستان میں جمہوریت نہیں سرمایہ دارانہ جمہوریت ہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت ایسی جمہوریت کو کہتے ہیں، جس میں جمہور کی رائے سرمائے کے مالک کی طاقت کے ماتحت ہوتی ہے۔ سرمایہ داروں کی فنڈنگ سے جمہوری پارٹیاں اپنے اخراجات پورے کرتی ہیں۔ مثلاً اشتہارات، جلسے جلوس، جھنڈے اور پاکستانی سیاست میں اراکین کی خریدوفروخت وغیرہ اور پھر ان پارٹیوں کے حکومت میں آنے کے بعد سرمایہ دار ان سے اپنے کاروباری مفاد کے لیے پالیسیاں اور قوانین بنواتے ہیں۔ 
    دوسری طرف سرمایہ ایسی جمع شدہ دولت(Investment) کو کہتے ہیں، جس سے بغیر محنت کیے مزید دولت کمائی جاسکے۔ مثلاً مزارعت پر چلنے والی بڑی بڑی جاگیریں، شاپنگ مالز میں کرائے کی دکانیں، ایئرلائنز، عالی شان اور پوش سوسائٹیز، عوامی تفریح کے لیے بنائے گئے پارکس میں کاٹی گئی کالونیاں، فیکٹریاں اور مِلیں، وغیرہ وغیرہ۔ 
    جب کہ سرمایہ دار ایسے افراد کو کہتے ہیں جو اس جمع شدہ سرمائے کے ذریعے بغیر محنت کے مزید سرمایہ جمع کرتے ہیں اور اپنی ذاتی یا خاندانی ملکیت تک محدود رکھتے ہیں۔ یہ افراد سرمایہ جمع کرنے کے بعد بڑے بڑے کاروبار منظم کرتے ہیں، پروڈکشن پلانٹ اور کمپنیاں بناتے ہیں۔ ان کمپنیوں اور پلانٹس کو دماغی اور ذہنی محنت کرنے والے مزدور اور محنت کش خاندان چلاتے ہیں۔ کروڑوں/ اربوں میں منافع کما کر دیتے ہیں۔ شوگر مل کی ہی مثال لیجیے۔ اس میں ہزاروں کسان اور سینکڑوں ورکرز کے خاندانوں کی محنت سے پیدا ہونے والا اربوں کا منافع صرف ایک خاندان جوکہ اس شوگر مل کی مشینری کا مالک ہے ( جب کہ سچ تو یہ ہے کہ ان ملوں اور فیکٹریوں میں لگا سرمایہ عام آدمی کی بچتوں کے مجموعے یعنی بینکوں کا قرضہ ہوتا ہے) اس کے پاس جمع ہو رہا ہے، ایک ہوائی سفر کی کمپنی میں جسمانی اور ذہنی محنت کرنے والے خاندان جو اربوں کا منافع کما کر دے رہے ہیں، وہ صرف جہاز کی ملکیت رکھنے والے خاندان ( ان کمپنیوں اور کاروبار میں لگا سرمایہ بھی عام آدمی کی بچتوں کے مجموعے یعنی بینکوں کا قرضہ ہوتا ہے) میں جا رہا ہے۔
    سرمایہ دارانہ جمہوریت میں معاشرے کی اکثریت یعنی غریب خاندانوں کی محنت پر ڈاکہ ڈالنے کو قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ سرمایہ دار گروہ اپنے گروہی مقاصد کے لیے (اپنے حمایت یافتہ سیاست دانوں کی مدد سے) قومی اداروں کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر تعلیمی ادارے سرمائے کو فروغ دینے کا علم پہلے درجے پر اور اعلیٰ انسانی اقدار کو فروغ دینے کو دوسرے / تیسرے درجے پر رکھتے ہیں۔ صحت کے شعبہ میں بھی پہلے درجے پر سرمائے کا فروغ اور دوسرے درجے پر انسانی صحت کا تحفظ، عدالت میں بھی سرمائے کو اصل مان کر انسانیت کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے اور فیصلہ ہمیشہ سرمائے کے حق میں ہوتا ہے۔ انتظامی اور سیاسی ادارے بھی سرمائے کے حق میں پالیسیاں بناتے ہیں، انسانیت کے حق میں نہیں۔ اس طرح معاشرے میں سرمایہ بہ مقابلہ انسانیت کی ایک فضا قائم ہو جاتی ہے۔ 
    افراتفری،بے شعوری،کم عقلی،جذباتیت،فرقہ واریت،خرافات اور انفرادیت پسندی جیسی معاشرتی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان بیماریوں کے نتیجے میں محنت کش عوام انسانی درجے سے گِر کر حیوانی درجے پہ پہنچ جاتی ہے۔ ان کی حالت ایسے ہو جاتی ہے،جیسے بھیڑ بکریوں کی ہوتی ہے۔ جنھیں چرواہا جس طرف ہانکتا ہے وہ اس طرف چل دیتی ہیں۔
    اسی طرح ایک بیمار معاشرے میں سرمایہ دارانہ نظام کی جمہوری پارٹیوں کی حکومتوں کا بننا سرمایہ داروں کے فنڈ کا محتاج اور ان کے اشاروں کے تابع عمل رہتا ہے۔ اس عمل میں عام عوام کا ووٹ دینا بھیڑ بکریوں کے دودھ دینے سے مماثلت رکھتا ہے، جس سے سرمایہ دار فائدہ اٹھاتا ہے۔ 
    یہ حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ ایسی قیادت تیار ہو جو عوام کو واپس انسانی درجے پر لائے اور سرمائے کے اس جبر کو توڑے۔ عوام کو عقل، شعور اور ہمت دے۔ تاکہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کے بجائے حقیقی عوامی جمہوریت کا ایک نظام قائم ہو سکے۔
    حقیقی عوامی جمہوریت کے نظام سے مراد یہ ہے کہ سب سے پہلے عوام کی معیشت آزاد ہو، عوام حیوانی درجے سے اوپر اُٹھیں اور انسانی درجے پر آ کر اپنی محنت کا مول طے کریں۔ اس کی رائے آزاد ہو۔ اس کی رائے پر سرمائے کے ہونے یا نا ہونے کا کوئی رعب نا ہو۔ معاشرہ دھوکے سے نکلے کہ ان کی محنت کا مول کسی سرمایہ دار گروہ نے نہیں، بلکہ اس نے خود طے کرنا ہے۔انسانیت اس نظریہ پر اپنا معاشرہ تشکیل دیں کہ سرمایہ اصل نہیں ہے انسانیت اصل ہے، تاکہ سرمایہ بہ مقابلہ انسانیت کی غیرفطری فضا ختم ہو اور معاشرے کی بیماریاں دور ہوں۔ انسانیت کے درجے سے نیچے گرنے کے بجائے معرفتِ الٰہی کا فطری سفر ہو۔ سماج سے سرمائے کی پرستش کا نظام ختم ہو اور لا اِلٰہ اِللّہ کی اساس پر وحدت اور انسان دوستی کا نظام تشکیل پائے۔ یہ ذمہ داری اس قیادت پر عائد ہوتی ہے جو خود سرمایہ دارانہ نظام سے براءت کا اعلان کرے اور انسانیت کو سرمائے کی غلامی سے نکال کر خداتعالیٰ کی غلامی میں لانے کا پختہ عزم رکھتی ہو۔ یہ امر کسی ایسی پارٹی سے متوقع نہیں ہے جو سرمایہ داروں کی فنڈنگ کی محتاج ہو اور اس کے اشاروں پر ناچتی ہو۔ ایسی پارٹیوں کی سیاست سے اُمیدیں لگا کر نوجوانوں کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ معلومات کے ٹائٹل سے مایوسی بیچی جاتی ہے، آزادی کے ٹائٹل سے سرمائے کی غلامی بیچی جاتی ہے، امن کے ٹائٹل سے جنگیں مسلط کی جاتی ہیں، سفارت کاری کےنام پر مصنوعی دشمن پیدا کیے جاتے ہیں،جھوٹی تاریخ لکھوائی جاتی ہے اور شکوک و شبہات پیدا کر کے تاریخ سے کاٹا جاتا ہے، اجتماعیت پسند دین کی تعلیمات سے کاٹ کر فرقہ واریت پروان چڑھائی جاتی ہے اور عام عوام کے ووٹ کو بھیڑ بکریوں کا دودھ سمجھ کر دوہا جاتا ہے۔
    "یہ حقیقی عوامی جمہوریت نہیں سرمایہ دارانہ جمہوریت ہے"
    Share via Whatsapp