سیاسی جماعتیں یا شخصیات کا فین کلب
اس مضمون میں مروجہ سیاست کے نقائص کو واضح کیا گیا ہے تاکہ ہمارے ملک کی نوجوان قیادت صحیح رخ پر مسائل کو سمجھ سکے اور ان کے حل کی طرف متوجہ ہو
سیاسی جماعتیں یا شخصیات کا فین کلب
جنید احمد شاہ (ایڈووکیٹ) ۔راولپنڈی
پاکستان کے سیاسی ماحول میں ملکی مسائل کے حل کے لیےآج تک جماعت کے حقیقی تصور کی بنیاد پر تنظیمی تشکیل اور اس کے کردار پر کبھی گفتگو ہی نہیں ہوئی اور نہ ہی اس کا نوجوانوں کو شعور دیا گیا ہے۔اس لیے کہ یہاں ہر پارٹی کسی نہ کسی شخصیت کا فین کلب ہے۔اسی کی فین فالونگ ہے۔ہر جگہ اسی شخصیت کا نام چلتا ہے اور اس شخصیت کے دنیا سے چلے جانے کے بعد وہ جماعت مختلف گروہوں میں تقسیم ہوکر کمزور ہوجاتی ہے، اپنا وجود کھو بیٹھتی ہے۔ریاست و مملکت اس طرح نہیں چلائی جاتی ۔اقوام کی ترقی کا طویل سفر ایک منظم اور تربیت یافتہ جماعت کے ذریعے ہی طے ہوتا ہے۔ورنہ شخصیت کے دنیا سے چلے جانےکے ساتھ ہی وہ سارا بیانیہ اور جدوجہد ختم ہو جاتی ہے۔
شخصیت کے نفسیاتی اَثرات کا بالکل انکار تو نہیں کیا جا سکتا ۔لیکن انقلابات اور سماجی تبدیلیوں کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ہر لیڈر نے جماعتی طاقت اور اجتماعی جدوجہد کے ذریعے سے اپنی قوم کو زوال سے نکال کر ترقی کے راستے پر گامزن کیا۔
ہمارے ملک کا سیاسی نظام کسی خاص شخصیت کی اِنفرادی خوبیوں کی خوب تشہیر کر کے ہیرو اِزم کا تصور تو پیدا کرتا ہے، لیکن سماجی تبدیلی کی سائنس اور اجتماعی تبدیلی کے درست تصور پر کبھی بات نہیں کرتا۔اس لیے آج ہمارے ہاں مختلف شخصیات کا تو خوب چرچا ہے،لیکن ایک حقیقی جماعت کا تصور ناپید ہے۔ایک حقیقی جماعت میں چند بنیادی خصوصیات کا ہونا ضروری ہے۔
نصب العین؛ یعنی بنیادی نظریہ جس پر جماعت سازی کی جاتی ہے۔
فکری ہم آہنگی؛ جماعت کا تعلیمی و تربیتی نظام۔
عملی ہم آہنگی؛ جماعتی نظم و نسق اور ڈسپلن۔
انقلابات کی تاریخ کے مطالعہ سے منظم جماعت اور اجتماعی جدوجہد کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔اس حوالے سے دورِحاضر میں چین کی مثال ہمارے سامنے ہےکہ چین کے انقلابی لیڈر ماؤزے تنگ نے سوشلسٹ نظریے کی بنیاد پر ایک منظم جماعت تیار کی۔اور اس کی وفات کے بعد اس کی تیار کردہ جماعت آج چین کو سپرپاور بنانے کی پوزیشن میں ہے۔ ماؤزے تنگ نے اپنی شخصیت کا فین کلب تیار نہیں کیا،بلکہ آنے والے دور کی قیادت پیدا کی۔ایرانی انقلاب کے بانی امام خمینی کی جدوجہد کا مطالعہ بھی جماعت سازی کی اہمیت کو واضح کرتا ہےکہ لیڈر کے دنیا سے جانے کے بعد انقلابی جماعت نے استعماری سازشوں کا مقابلہ کیا اور آج ایران پوری اسلامی دنیا کے 57 اسلامی ممالک کی صف میں پوری طاقت و قوت کے ساتھ امریکا کے مقابلے پر کھڑا ہے۔اگر امام خمینی کی شخصیت کا صرف فین کلب ہوتا تو استعماری حملوں کے پہلے جھٹکے میں ہی ملکی نظام زمین بوس ہوجاتا۔
اسی طرح ہمارے ہاں سیرت النبیﷺ پر شخصی بحث تو بہت کی جاتی ہے،لیکن ریاستِ مدینہ کے قیام کے حوالے سے اجتماعی اقدامات اور تصورات پر بہت کم بحث کی جاتی ہے۔
ہمارے ملک کے نظام کا یہ طے شدہ فیصلہ ہے کہ ملک میں موروثی اور خاندانی گروہ اور کسی نہ کسی شخصیت کا فین کلب تیار کرنا ہے۔لیکن قومی قیادت اور باشعور منظم جماعت پیدا نہیں ہونے دینی ہے۔
ملک کی دیگر جماعتوں کی طرح تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کے حوالےسے ایک فین کلب تو موجود ہے۔لیکن ایک منظم نظریاتی جماعت نہیں ہے۔اگرچہ تحریک انصاف نے دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں مروجہ نظام کی خامیوں کے بارے میں نوجوانوں میں آگہی پیدا کی اور نوجوانوں کو اس سیاسی نظام میں دلچسپی لینے کے لیے تیار کیاہے۔جو نوجوان قوت طویل عرصہ سے اس سیاسی کھیل سے کنارہ کر چکی تھی۔
بعدازاں جماعت کو وزارتِ عظمیٰ کا منصب ملنےکےبعد مختلف مواقع پر مرکزی رہنما اپنی بے بسی کا اِظہار کرتے ہوئے کہتےہیں کہ "یہاں کی بیوروکریسی چلنے نہیں دے رہی"۔ "بغیر تیاری کے اقتدار میں کبھی نہیں آنا چاہیے"۔" ہمیں تو ڈیڑھ سال تک معیشت کی سمجھ ہی نہیں آئی"۔ وغیرہ وغیرہ۔
گویا اس سسٹم میں کوئی لیڈر چاہے وہ کتنا ہی بہادر اور باصلاحیت کیوں نہ ہو بغیر منظم جماعت کے معمول کی تبدیلیاں لانے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔جب کہ ہمارے ملک کا مسئلہ رائج سرمایہ داری نظام ہےجو استحصال پر مبنی ہے۔اور اس نظام کو چلانے والا طبقہ استعماری طاقتوں کا آلہ کار ہے۔اور اس سیاسی کھیل کے ذریعے سے صرف آلہ کار بدلتے ہیں۔جب کہ ضرورت اس نظام کو بدلنے کی ہے۔اس کے لیے نوجوانوں کو سیاسی و تاریخی شعور بیدار کرنے اور ایک منظم جماعت تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔تاکہ قوم کے دکھوں کا مداوا ہوسکے۔