اسلام پر فکری حملوں کی تاریخ اور ان کاتدارک
یو ٹیوب سکالرز جو علماء اولیاء اور فقہا پر تعن کرتے ہیں دراصل دشمن کا کام آسان کر رہے ہیں اولیاء اللہ سے نوجوان کو کاٹنا اسے نابینا بنانے کے مترادف
اسلام پر فکری حملوں کی تاریخ اور ان کاتدارک
محمد بشیر عارفی ۔عارف والا
آج ہمارا نوجوان فکری انتشار کا شکار ہے، فکری ہم آہنگی کیوں معدوم ہوچکی ہے؟ کل انسانیت کی بھلائی کا نظریہ رکھنے والا دین، کیسے آج اس نوبت کو پہنچا؟ اس کو سمجھنے کے لیے دین دشمن حملوں کی تاریخ اوران کے تدارک کی تفصیلات کو سمجھنا ضروری ہے۔تاکہ اس پر غوروفکر کر کے آج کا جدید تعلیم یافتہ نوجوان اپنےسماجی کردار کا تعین کرسکے۔دشمن کا آلہ کار بننے سے بچ سکے۔ خداپرستی اور انسانی دوستی کاعملی نمونہ بن سکے۔
تاریخ کا جائزہ لیں تو سب سے پہلے بڑا فتنہ جھوٹی نبوت کے دعوے داروں کا نظر آتا ہے، جو نبی کریمﷺ کے وصال کے فوراً بعد پیدا ہوا، جسے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے پوری قوت سے کچل دیا اوران کےدور میں یہ فتنہ ختم ہوگیا،مگر جب دین کا نظام عدل ٹوٹا تو اسلام دشمن قوتیں دوبارہ اسی سازش کو سامنے لے آئیں اور جھوٹے نبی پیدا کیے، جنھوں نے اس دور کے سامراج برطانیہ کے مفادات کا تحفظ اس مسئلہ کی آڑ میں کیا اور سلطنت میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی۔
یہ ایسا گروہ تھا جو قرآن کو تو آخری کتاب ماننے کادعوی کرتاتھا ، مگر نبی ﷺ کو آخری نبی نہ مانتاتھا اور قرآن سے دلائل بھی دیتاتھا، جیسے خاتم النبیین کا لفظ قرآن میں استعمال ہوا ہے،وہ اس کی من مانی تعبیر کرتے تھے- لفظ "خاتم" کے عربی میں متعدد معنی ہیں، جیسا کہ ختم کرنے والا، مہر لگانے والا وغیرہ۔ قرآن کے ایسے الفاظ کے معانی کا تعین اور دائرہ احادیث مبارکہ سے متعین ہوتاہے-الفاظ کےمعنی کے تعین میں سیاق و سباق کابھی لحاظ کیاجاتا ہے۔لفظ ختم نبوت کی وضاحت اور دفاع کرنے والا علم دراصل حدیث کا علم تھا اور یہ علم قرآن کی من مانی تشریح کے راستے کی رکاوٹ بن گیا۔
علما نے احادیث مبارکہ کے علم کو مسلمانوں میں عام کیا اور علم حدیث میں شکوک وشبہات پیدا کرکے مسلمانوں میں انتشار ڈالنے کی سازش ناکام بنا دی۔ اسلام اور قرآن کے صحیح معنی مقرر کر کے دفاع کرنے والا علم ماضی میں بھی احادیث مبارکہ کا علم تھا۔اسی طرح اسلام کے ابتدائی ادوار میں جھوٹی نبوت کے دعوے داروں اور موجودہ دور کے کاذبین مرزا قادیانی وغیرہ کامقابلہ بھی علم حدیث سے کیا گیا۔ اَب اسلام دشمن سمجھ گئے کہ جب تک احادیث کا علم راستے سے نہ ہٹا تو وہ اسلام پر حملہ نہ کر سکیں گے۔
پھرسامراج نے اگلی چال چلی کہ احادیث سےمسلمانوں کااعتماد اٹھانے کے لیے احادیث کےقبول اور رد میں اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیاجائے، جس کے نتیجہ میں ایک ایسا گروہ پیدا ہوا ،جس نے حدیث کا ہی انکار کر دیا۔ اس نے کہا کہ احادیث میں اختلاف پایا جاتا ہے، اس لیے اس علم کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس گروہ کی مثال آپ پرویزی فرقہ کی لے سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں! قرآن اور صرف قرآن، احادیث کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ حملہ اسلام کا سسٹم مغلوب ہونے کی وَجہ سے کافی پھیلا، اور مسلم اُمہ میں احادیث کی اہمیت کم ہوتی چلی گئی اور انکار حدیث والا گروہ پیدا ہوگیا، مگر محدثین نے اختلاف بین الاحادیث کی وجوہات اور اختلاف کو رفع کرنے کا علم سامنے رکھ دیا، جس پر صدیوں پہلے کام کیا گیا تھا۔ جس علم کو پروان چڑھانے میں مسلم محقق محدثین نے دن رات ایک کر دیا تھا۔ اس فن حدیث کے ذریعے علم حدیث میں صحیح،حسن، ضعیف وغیرہ کےذریعے احادیث کی درجہ بندی کی گئی تھی،چناں چہ یہ حملہ بھی ناکام ہو گیا، کیوں کہ حدیث کا دفاع محقق محدثین کےمرتب کردہ اصولوں سے کر دیا گیا تھا۔
اس کےبعد ایک اور گروہ تیار ہو گیا جس نے اس علمی کام جو فقہا نے کیا تھا اور احادیث میں بظاہر نظر آنےوالے اختلاف کاحل پیش کیا تھا، اس سے انکار کردیا۔ اور اس علمی کاوش کی اہمیت کو ختم کرنے یا کم کرنے کی کوشش کی-اس علم سے سماجی زندگی کامربوط نظام زندگی مسلمانوں کومیسر آیاتھا - یہ گروہ آج بھی اپنی اس سازش کو جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ اسلام کی عالمگیر،آفاقی عدل وانصاف پر مبنی تعلیمات سے انسانیت کودور رکھاجاسکے۔ ظاہر ہے کہ دین دشمن قوتیں رکنے والی نہیں ہیں۔
عہدنبوی کےبعد دین اسلام کا پریکٹیکل نظام جو خلافت راشدہ کے دور سے قائم تھا تو اگلا حملہ خلافت راشدہ پر اور بعد والی خلافتوں بنوامیہ،بنوعباس،بنو عثمان وغیرہ پر کیا گیا اور ان کو ملوکیت یعنی ظالمانہ بادشاہی نظام بناکر پیش کیا گیا۔ اس کا دفاع کرنے کے لیے تاریخ اسلام کے اجتماعیت پسند ، امن وآشتی، اور انسان دوست کردار کو پیش کیا گیا کہ درحقیقت یہ ہے اسلام کے عملی نظام کی حقیقی روح۔
اسلام دشمن قوت ان اولیا کی زندگی اور افکار و اعمال کو مشکوک بنانے کے لیے سرگرم ہو گئی جنہوں نے انسانیت نوازی کادرس عام کیاتھا۔اولیاء کے علم کو علم تصوف یا طریقت کہا جاتا ہے۔ تو اگلا کام اس کو سرے سے اسلام سے ہی لا تعلق بنانے کاشروع ہوا۔ اس کا دفاع حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے الطاف القدس لکھ کر کر دیا، جس میں فلسفہ نفسیات انسانی اور تصوف کے اصولوں کی تشریح کردی۔ اسی طرح دیگر کتب بھی لکھ دیں، جن میں ان تمام خرافات کو ختم کر دیا جو صوفیا اور اولیا سے منسوب کر دی گئی تھیں یاجو منافی شریعت تھیں ان کو نکال دیا۔ جب یہ معاملہ ہوگیا تو اسلام دشمن قوت سر جوڑ کر بیٹھ گئی کہ اَب کیا کیا جائے تو انھوں نے فقہا اور اولیا کی زندگی میں شکوک وشبہات پیدا کرنے شروع کردیے- علما، فقہا اور اولیا کو غیرمعتبر بنانے کی کوشش شروع کردی جو آج تک جاری ہے۔ یہ ٹولہ اولیاء اللہ کی کتب کا اپنی طرف سے معنی مفہوم گھڑتاہے اور پھر قرآن کی بھی من پسند تعبیر پیش کرکے عوام الناس کو ان کی مخالفت پراکساتا ہے تاکہ دین حق کی درست تعبیر اور عملی مثال سے انہیں دور رکھا جاسکے ۔
یوٹیوب سکالرز شاید دشمن کا کام آسان کر رہے ہیں-یہ لوگ ان اولیاء، علما،اور فقہا پر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ ان کا بے مثال کردار نوجوان کے سامنے مشکوک بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ہم عالم اسلام کو دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ دو ارب مسلمانوں میں سے ایک ارب سے زائد مسلمان وہ ہیں جو ان اولیاء کی محنت سے مسلمان ہوئے۔تقریباً35 کروڑ مسلمان ہندوستان میں ،تقریباً 22 کروڑ پاکستان میں،تقریباً 15 کروڑ بنگلادیش میں،تقریباً 4 کروڑ افغانستان میں رہتے ہیں۔ یہ سب علاقے اولیاء اللہ کی محنت سے مشرف باسلام ہوئے۔ چائنا میں ایک کروڑ پچاس لاکھ مسلمان ہیں۔ اسی طرح برما میں ایک کروڑ مسلمان آباد ہیں ۔ ان تمام ممالک میں انھی اولیاء اللہ کی کاوشوں سے اسلام پھیلا۔ اَب اگر کوئی ان اولیاء اور علماء ربانین پر انگلی اٹھائے تو اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ اس کا مقصد نہ اسلام کی خیرخواہی ہے، اور نہ ہی انسانیت کی خیرخواہی۔ بلکہ وہ انسانیت دشمن،اسلام دشمن کا آلہ کار یا پھر دوٹوک الفاظ میں حزب الشیاطین کا بندہ ہے۔ آج سچے علما کے ساتھ جڑ کر صحیح تاریخ پڑھ کر ہی ان سازشوں کو بے نقاب کیا جا سکتاہے۔اور اسلام پر کیے گئے فکری حملوں سے بچ سکتا ہے۔