سماجی تبدیلی کی حقیقی سائنس اور پاپولزم (Populism) - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سماجی تبدیلی کی حقیقی سائنس اور پاپولزم (Populism)

    سماجی تبیدیلی کی سائنس کے اصولوں پر قومی وحدت کے فکر پر قیادت کی تیاری بقابل پاپلوزم کی سیاست سے عوام میں وقتی جوش وخروش پیدا کرنے کے عمل کو سمجہنا

    By Tayab Memon Published on Jun 07, 2022 Views 1100

    سماجی تبدیلی کی حقیقی سائنس اور پاپولزم (Populism)

    ڈاکٹر طیب دین میمن۔ حیدر آباد سندھ


    انسانی معاشرہ مسلسل تغیر پزیر ہے، اس لیے ہر دور میں ہر سماج میں موجود قیادت کا اصل ہدف دور کے تقاضوں کے اعتبار سے معاشرے میں موجود عوامی مسائل کی تہہ تک پہنچنا اور ان کو حل کرکے عوام کے لیے سہولتوں کا نظام پیدا کرنا ہوتا ہے اور سماج میں موجود ناہمواریوں اور ظلم و فساد کا خاتمہ کرنا ہوتا ہے۔ 

    پاکستانی سماج جو کہ بدترین سماجی و اجتماعی مسائل کی گرداب میں پھنسا ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج یہ بات زبان زدِعام ہے کہ پاکستان میں موجود نظام ناکارہ ہوچکا ہے، یہاں مافیاز کا راج ہے، چوروں کا ٹولا مسلط ہے اور مفادپرست اشرافیہ کی حکمرانی قائم ہے، جسے فوری طور پر تبدیل ہونا چاہیے۔اس کی وجہ بنیادی طور پر یہی ہے کہ موجودہ اشرافیائی سیٹ اپ میں عوام کی رائے کا احترام اور ان کے جائز سیاسی و معاشی حقوق کے حصول و تحفظ کا کوئی جامع پلان موجود نہیں ہے۔

    آج کل پاکستان پر مسلط اس اشرافیائی ٹولے سے نجات دِلانے، قومی وقار کی سربلندی اور عوام کے مسائل حل کرنے کے لیےقیام پاکستان کے  75 سال بعد ایک سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سےمبینہ حقیقی آزادی وخودمختاری کے حصول کے نعرے کےتحت تحریک اپنے زورں پر ہے اور 'آزادی' کے نعرے اندرون و بیرونِ ملک یکساں طورپر گونج رہے ہیں۔ اس تحریک سے بھاری اکثریت بالخصوص پاکستانی نوجوان ملک میں امن، انصاف، معاشی خوش حالی، قرضوں کی معیشت اور پٹوار و پولیس کے بوسیدہ نظام سے چھٹکارا، ہر پاکستانی کے لیے معیاری تعلیم اور صحت کا نظام، اِس دور کے شایانِ شان بنیادی شہری و دیہی انفراسٹرکچرکے قیام، قومی اداروں میں کرپشن سےچھٹکارا، بیرونی قوتوں کی ڈکٹیشن اور آئی ایم ایف کے قرضوں سے نجات اور نہ جانے کیا کیا امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ اور ان خوابوں کو اپنی آنکھوں میں سجائےبہت سے مخلص نوجوان اس جدوجہد کا باقاعدہ حصہ بن چکے ہیں۔

    اس تحریک آزادی سے وابستہ نوجوانوں کی نیک خواہشات اور تمناؤں سے اختلاف کیے بغیر آج کا سب سے بڑامسئلہ اس بات کا تعین کرنا ہے کہ ہم نے اصل آزادی کس سےحاصل کرنی ہے؟ اگر تو یہ آزادی ملک میں رائج اس بوسیدہ 'جاگیردارانہ و سرمایہ دارانہ نظام سے حاصل کرنی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نظام کو تبدیل کرنے کی کوئی جدوجہد سماجی تبدیلی کے سائنسی اصولوں کو اپنائے بغیر ممکن ہے؟ کیوں کہ پاکستان میں سیاسی، اقتصادی، مذہبی، لسانی، اور قومی بنیادوں پر طبقات پائے جاتے ہیں۔اس طبقاتیت کی خلیج وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید گہری ہوتی جارہی ہے۔ 

    درحقیقت حقیقی سماجی تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے قومی وحدت (سیاسی، اقتصادی، مذہبی، لسانی، قومی وغیرہ کے تعصبات اورطبقاتیتوں سے ماورا) اور سماجی تاریخی روایات و اخلاقیات کے مطابق اجتماعی ترقی کے فکر و فلسفہ پر اعلی نظم و ضبط کی حامل ایک مضبوط قیادت تیار کی جائے اور اس کے بعدہی یہ قیادت عوامی بیداری اور اجتماعی قوت کےذریعے سماجی تبدیلی کے لیے ٹھوس عملی اقدامات اٹھانے کے قابل ہوگی اور موجود ناکارہ سسٹم کا خاتمہ کرسکے گی۔

    اس کے بعد اگلا مرحلہ نئے نظام کی تشکیل کا ہوتا ہے، جس میں سب سے پہلےقومی نظریہ اور فکر کی اساس پر قوم میں وحدت اور یگانگت پیدا کرکے سماجی انتشارکا خاتمہ کیا جاتا ہے اور پھر قومی اقدارواخلاق اور جدید سائنسی بنیادوں پر ہر شعبہ زندگی کو ترقی دینے کےاقدامات کیے جاتے ہیں۔ تاکہ مملکت کا نظم ونسق عادلانہ اور پیشہ ورانہ مہارتوں کی بنیاد پر قائم کیا جائےاور چلایا جائے۔اس کے بعد ہی درحقیقت قوم زوال سے نکل کر بتدریج ترقی کی راہوں پر گامزن ہوسکتی ہے۔ حالیہ تاریخ میں چینی معاشرے کی تشکیلِ نو اس طرزِ تبدیلی کی ایک بہترین مثال ہے۔

    اس کے برعکس سماجی تبدیلی کا ایک منفی نقطہ نظر یہ بھی ہے جس کے مطابق ایک زوال پذیر قوم میں کسی جامع نظریے یا پروگرام اور اس پر تیار قیادت کی تیاری کے بجائےسماجی حقوق سے محروم اور سیاسی طور پر بے شعورعوام کو مذہب، زبان، قومیت، لسانیت، آزادی وغیرہ کی جذباتی بنیادوں پر نظام میں موجود اشرافیہ سے آزادی یا ان کی مخالفت (anti-elites) یا اکثریت کی مخالفت (anti-pluralist) کے نعروں سے بہلایا جاتا ہے۔اس طرزِ سیاست کانام 'پاپولزم' یا پاپولسٹ سیاست ہے (1)۔

    پاپولسٹ سیاست میں نفرت، خوف، اور افراتفری اہم عناصر ہوتےہیں-چوں کہ پاپولسٹ سیاست میں کرشماتی قیادت اہم ہوتی ہے اور وہ عوام میں مختلف خوش نما نعروں کی شکل میں موجود خیالات کو اپنی شعلہ بیانی سے کامیابی کے لیے بیانیہ بناتی ہے توعوام کے جمِ غفیر کے لیے اس میں ضرور کشش پائی جاتی ہے۔ جس کاآخری نتیجہ اس کرشماتی قیادت کو سسٹم میں لاکر لامحدود اختیارات سے نوازنا ہوتا ہے۔اسی لیے بسا اوقات پاپولسٹ سیاست اور پاپولسٹ قیادت کے سامنے جمہوریت کمزور پڑ جاتی ہے۔

    سیاسی مؤرخین بتاتے ہیں کہ پاپولسٹ سیاست بیسویں صدی میں اس وقت عروج پر پہنچی، جب جرمنی پہلی عالمی جنگ ہارچکا تھا اور جرمن قوم میں شدید مایوسی پھیلی ہوئی تھی۔ اس کی عظمتِ رفتہ کی بحالی کے لیے ہٹلرنے نسل پرستی کی بنیاد پر اس قوم کوپھر سے دنیا کی بہترین قوم بنانے کے لیے پاپولسٹ طرزِسیاست کو اپنایا (ایضا)اور عوام اس کے سحر میں مبتلا ہوکر اس بیانیے کے لیےہرطرح کی قربانی دینے کو تیار ہوگئی اورنتیجے کے طور پرہٹلر نے اندرون و بیرون ملک افراتفری پھیلادی اور آخرکار دوسری عالمی جنگ میں اپنی قوم اور پوری انسانیت کی تذلیل کروا ڈالی۔ 

    اکیسویں صدی میں بے تحاشا بیرونی جنگوں، قرضوں کی معیشت اور مدبرانہ قومی و بین الاقوامی سوچ سے عاری قیادت کی وجہ سے زوال پذیرامریکی معاشرے میں بھی نسل پرستی کی بنیاد پر ڈونلڈ ٹرمپ پاپولسٹ سیاست کرتے نظر آئے (3) اوراسی طرح ہندوستان میں سیکولر سیاسی جماعتوں کی بے انتہا کرپشن، اخلاقی گراوٹ، مدبرانہ قومی حکمت عملی کے فقدان اور سیاسی ومعاشی حقوق سے محرومی وعوامی بے شعوری کی وجہ سے موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے "ہندوتوا" کی مذہبی طبقاتیت و تنگ نظری کی اساس پر پاپولسٹ سیاست بھی اس کی ایک مثال ہے(4)

    اس بنیاد پر پاکستانی تاریخ کا جائزہ بھی اسی امر کی عکاسی کرتا ہے کہ یہاں بھی نظام کی فرسودگی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عوامی بیزاری اور سسٹم کے خلاف عوامی غیض وغضب کو بھانپتے ہوئےیہاں کی مقتدرہ نے ہردور میں پاپولسٹ طرزِیاست ہی کومختلف خوش نما نعروں سے پروان چڑھایا۔ مثلاً: روٹی، کپڑا اور مکان، جمہوریت کی بحالی یا بچاؤ، نظام مصطفی یا اسلامی نظام کا قیام، نظریاتی سرحدوں کی حفاظت، جاگیرداروں وسرمایہ داروں کے خلاف مہم، کرپشن اور موروثی سیاست کا خاتمہ وغیرہ کی بنیاد پر پاپولسٹ اندازِ سیاست کو خوب فروغ دیا گیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کے غم و غصے کووقتی طور پر ٹھنڈا کیا گیا اور نظامِ ظلم کا شکنجہ پہلے سے زیادہ کس دیا گیا۔

    اسی لیے پاپولسٹ سیاست کی تاریخ کا سبق یہی ہے کہ زوال پذیر معاشرے میں وقتی ابھاروہیجان کی کیفیت پیدا کرکے عوامی جذبات سےکھیلنے سے قومی اجتماعی تعمیر و ترقی کے خواب توپورے نہیں ہوتے۔ البتہ موقع پرست اس سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس طرزِسیاست کی وجہ سے سیاسی، مذہبی، اقتصادی، لسانی اور قومیت وغیرہ کی بنیاد پر بٹی ہوئی زوال پذیر قوم میں ایک نیا سیاسی فرقہ ضرور پیدا ہوجاتا ہے جو پہلے سے موجود سیاسی گروہیتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مزید انتشار و نفرت کا باعث بنتا ہےاوریہ انتشار خانہ جنگی کا پیش خیمہ بھی ہو سکتا ہے۔ جس کے ہمارے جیسے معاشی طور پرکمزورممالک بالکل متحمل نہیں ہوسکتے۔

    حال آں کہ قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ قومی اجتماعی ترقی کے لیے قومی وحدت اور سماجی عدل کے نظریے پر عوام میں سے تربیت یافتہ سچی اور باصلاحیت قیادت کی تیاری ناگزیر ہے، جس کے بعد ہی عملی اقدامات اٹھاکر نتائج کا حصول ممکن ہے۔

    ان ہی  اصولوں پر پاکستان میں جاری حالیہ آزادی کے حصول اور قومی حمیت و وقار کی سربلندی کی تحریک کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس تحریک میں شامل نوجوانوں اور اس سے توقعات وابستہ کرنے والی عوام کو سب سے پہلے تو اس تحریک کی قیادت کی پچھلے تقریباً چار سالہ حکومتی کارکردگی کوبھی سامنے رکھتے ہوئے یہ ضرورسوچنا چاہیے کہ اس دورانئے میں سماجی مسائل کے حل کے لیے اس قیادت کی اپروچ اور عملی استعداد کیا رہی یا یہ قیادت بھی رائج سرمایہ داری نظام اور اس کےروایتی چٹے بٹوں کے تسلط کا تسلسل ہی ثابت ہوئی ؟ نیز حالیہ تحریک کے دوران نئی تبدیلی برپا کرنے کے لیے قیادت سازی کا عمل کب اور کیسے اختیار کیا گیا؟ یا پھر سرے سے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی؟ اسی طرح کیا ان کے پاس کوئی ایسا سائنٹیفک پروگرام بھی موجود ہے کہ جو موجودہ سسٹم سےسرمایہ پرستانہ موروثی سیاسی، معاشی وسماجی ڈھانچہ ختم کرکے قومی وحدتِ فکرکی اساس پر مسائل کو حل کرنے، اس قوم کو اس کے قومی جمہوری حقوق کی فراہمی کی کلیداور ایک نئی صبح کی نوید ثابت ہوسکے؟ 

    بدقسمتی سے ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے،اس لیے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ تاریخِ انسانی کے آزمودہ اصولوں کو سامنے رکھ کر وحدت اور عدل کے آفاقی تصورات پر نظامِ نو کے خدوخال واضح کیے جائیں اور اس پرباقاعدہ ایک باشعور قیادت تیار کی جائے جو دور کے چیلنجز اور مسائل کو حقیقی بنیادوں پر سمجھ کراس کا حل پیش کرسکے، اپنی فکری اور عملی استعداد کو بروئے کار لاکر حقیقی معنوں میں عوام کی رہنما ثابت ہو اور سماج سے اس نظامِ سرمایہ داری کا خاتمہ کرکے صحیح معنوں میں قوم کو آزادی، خودمختاری، امن، عدل وانصاف اور معاشی خوش حالی سے ہمکنار کرے۔

    حوالہ جات

    (1).Arendt, H. (1973). The origins of totalitarianism [1951]. New York.

    (2)IBID

    (3). Lacatus, C. (2021). Populism and President Trump’s approach to foreign policy: An analysis of tweets and rally speeches. Politics, 41(1), 31-47.

    (4). Singh, P. (2021). Populism, nationalism, and nationalist populism. Studies in Comparative International Development, 56(2), 250-269.

    Share via Whatsapp