سماجی ارتقاء میں دینی فکر کی اہمیت
رجعت پسندی ارتقائی عمل کی ضد ہے۔ نا صرف دور کے بدلتے تقاضوں سے صرفِ نظر کرنا بلکہ ان کا قطعی انکار کر دینا رجعت پسند رویے کی علامت ہے
سماجی ارتقاء میں دینی فکر کی اہمیت
محمد عثمان بلند ۔ کہوٹہ
ارتقاء فطرت انسانی کا بنیادی خاصہ ہے اور اس کے محرکات انسان کے نوعی تقاضےہیں۔ تاریخ انسانی کے مطالعے سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ جب کبھی انسانی نوعی تقاضوں کی تکمیل کے راستے میں رکاوٹیں آئیں تو تدبیرالٰہی نے ان کو دور کرنے کے لیے فکری و مادی اسباب مہیا کیے۔ جمود زدہ معاشروں میں ارتقائی عمل کے اجرا کے لیے اللہ تعالی نے انبیاعلیہم السلام مبعوث فرمائے۔ ان مقدس ہستیوں نے احکامات الہی کے مطابق زوال پذیرمعاشروں کو ترقی کی شاہ راہ پر گامزن کیا۔ یہ جامع احکامات ان مقدس نفوس کے قلوب اطہر پر وحی کے ذریعے نازل فرمائےگئے جو انسانی فطری و نوعی تقاضوں کا مکمل حل ہیں جن کی پیروی کی بدولت انسانی معاشرے ہمہ گیر ترقیات سے ہمکنار ہوئے۔
اس ارتقائی سفر میں تغیر و تبدل نے بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ انسانی سماج جب کبھی ارتقا کے ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں داخل ہوا تواس بدلتی ہوئی صورتِ حال کے پیش نظر نئے تقاضوں نے جنم لیا، جن کے حل کے لیے قدرت کی طرف سے اسباب مہیا کیے گئے اور انبیاعلیہم السلام کو نئے احکامات وحی کیے گئے اور بسا اوقات انسانی دل و دماغ میں کشف و الہام کے ذریعے حل ودیعت فرمائے گئے۔ کشف و الہام کے ذریعے جن انسانوں کی رہنمائی کی گئی ان حکما، عقلا اور مجددین نے وحی کے علوم اور سنتِ انبیاعلیہم السلام کی روشنی میں بدلتے دور کے تقاضوں کا حل متعین فرمایا اور مختلف علوم کی بنیاد اپنی ذہنی اخترا ع وتجربات کی بنیاد پر رکھ کےسماج کی رہنمائی کی۔
جہاں تک وحیِ الٰہی اور اس کے ساتھ وابستہ علوم کا تعلق ہے تو اس نے انسانی سماج کی جامع اور ہمہ گیر رہنمائی کی، جس کی بدولت ہر انسانی سماج نے ہمہ جہت ترقی کے مدارج طے کیے۔ چاہے وہ انسانی سماج کا کوئی بھی پہلو (طبعی، عقلی یا روحانی) ہو یا کوئی بھی دائرہ (دنیوی یا اُخروی) ہو یا کوئی بھی مرحلہ (ذاتی، عائلی، ، قومی یا بین الاقوامی) ہو کیوں کہ یہ حل خالقِ کائنات کی طرف سے ودیعت کیا گیا تھا جو انسانی فطرت کا خالق ہے۔ جب کہ مختلف علوم یا تجربات کی بنیاد پر پیش کیے گئے حل کسی ایک یا چند پہلوؤں کا احاطہ تو کر سکے، لیکن جامعیت اور ہمہ گیریت کے فقدان کےسبب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی سماج کوفکری وعملی افتراق و انتشار اور جمود کا شکار کرتے رہے۔
نبیِ آخرالزّماں حضرت محمدﷺ جس دور میں مبعوث ہوئے وہ دعوت انبیاء میں بین الاقوامی دور کا نکتہ عروج ہے۔عالمی سطح پر قیصر و کسرٰی کے نظاموں نے انسانی سماج کو شدید تنزل اور جمود کا شکار کیا ہوا تھا، جس کے سبب دنیا پر رجعت پسندی، انتشار، جہالت، تفریق، بھوک و افلاس اور ظلم کے گہرے بادل منڈلا رہے تھے۔ جب کہ قومی سطح پر ابوجہل کے نظام نے تہذیبی و تمدنی انتشار برپا کیا ہوا تھا۔ آپﷺ نےاحکاماتِ الٰہی کی روشنی میں انسانیت کو اس ظلم سے نجات دلانے کے لیے انقلابی تحریک کا آغاز کیا اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہما کی اعلی نظریے پر تربیت یافتہ ،باشعوراور منظم جماعت تیار فرمائی، جس کی تربیت وحیِ الٰہی کی روشنی میں ہوئی۔ تربیت کا یہ عمل 13 سالہ مکی دور پر محیط ہے۔ اس تربیت یافتہ جماعت کے ساتھ مل کر آپﷺ نے پہلےقومی سطح پرابوجہل کے نظام کا خاتمہ کیا اور بعد ازاں اسی جماعت نے آپﷺ کی بعثت کےمقاصد کے تحت بین الاقوامی سطح پر قیصر و کسرٰی کا نظاموں کا خاتمہ کر کے دنیا کو ظلم و استبداد سے چھٹکارا دلوایا۔
بعد ازاں کم و بیش 1300 سال (622ء تا 1922ء) تک اسلام کے نظامِ عدل نے عصری تقاضوں کے پیشِ نظر مختلف صورتوں میں انسانیت کی ہرگوشے اور ہر دائرے میں خدمت سرانجام دی۔ اس تمام عرصے میں مجددینِ امت، حکما، عقلا نے دور کے تقاضوں کے پیشِ نظر وحیِ الٰہی، سنتِ رسولﷺ اور سنتِ صحابہ کی روشنی میں سماجی ارتقا کو جاری و ساری رکھا۔
رجعت پسندی ارتقائی عمل کی ضد ہے۔ دور کے بدلتے تقاضوں سے صرفِ نظر کرنا، بلکہ ان کا قطعی انکار کر دینا رجعت پسند رویے کی علامت ہے۔ انسانی سماج میں جہاں تجدد وارتقا کے لیے کاوشیں ہوتی رہی ہیں، وہیں رجعت پسندانہ سوچ بھی پائی جاتی ہے۔ رجعت پسندانہ رجحان کے ڈانڈے تخلیقِ آدمؑ کے بعد کے حالات سے جڑتے ہیں۔ جب ابلیس مردود نے آدمؑ کےلیےسجدہ تعظیمی پر نہ صرف اعتراض کیا، بلکہ حکم خداوندی کا انکار بھی کر دیا۔اس انکارکے سبب بارگاہِ الٰہی سے قیامت تک مردود قرار پایا اور نا صرف یہ کہ خود دھتکارہ گیا، بلکہ انتقاماً نسلِ آدمؑ میں سے بھی اپنے پیروکار تیار کرنے کی ضد ٹھان لی۔ اس لحاظ سے انسانی سماج میں عمومی طور پر دو رویوں کے حامل گروہ پائے جاتے ہیں ایک تجدد و ارتقا پسند اور دوسرا رجعت پسند۔ جس سماج کی باگ ڈور ترقی پسند سوچ کے حامل افراد کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ ترقی کی منازل طے کرتا ہے اور جہاں رجعت پسند افراد برسرِ اقتدار آ جائیں وہ سماج لامحالہ طور پر جمود کا شکار ہو جاتا ہے۔
15ویں صدی عیسوی تک کا یورپ رجعت پسندی کا عملی نمونہ تھا۔ آٹھویں صدی عیسوی میں سپین اور وسط 15ویں صدی عیسوی کے وسط میں قسطنطنیہ (ترکی) کی مسلمانوں کے ہاتھوں فتح نے یورپین سماج میں تجدید کے نئے باب کھول دیے۔ سولہویں اور سترہویں صدی عیسوی یورپی سماج میں فرسودہ تہذیب و تمدن کے خلاف تحریکوں کا دور گردانا جاتا ہے اور اٹھارویں صدی عیسوی میں یورپ نے یا تو بادشاہت اور پاپائیت کا مکمل رد کر دیا یا انھیں محدود کر دیا۔ لیکن چوں کہ تجدید کا یہ عمل کسی الہامی فکر و فلسفہ کے بجائے ردِ عمل کی بنیاد پر ذہنی اختراع پر مبنی تھا۔ نتیجتاً علوم و فنون نے تو ترقی کی۔ لیکن انسانیت کی ترقی مفقود ہی رہی، بلکہ اس کے برعکس سائنس اور ٹیکنالوجی پر سرمایہ پرستوں کے تسلط نے دنیا کو ایک نئی مصیبت اور جمود سے دو چار کر دیا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے اس عفریت نے انسانیت کو جنگ، بھوک، خوف اور غلامی کے مزید گہرے شکنجے میں جکڑ دیا اور کچھ ہی عرصے میں دنیا کواس سے نجات کا لائحہ عمل سوچنا پڑا۔ سوشل اِزم کی صورت میں انسانیت کے ہاتھوں میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک ہتھیار تو آگیا اور اس نے انسانیت کو اجتماعیظلم سے کسی حد تک نجات تو دلوائی۔ لیکن ایک مرتبہ پھر الٰہامی فکر و فلسفہ کے انکار کی بدولت انسانیت کو سرمایہ دارانہ تسلط کے شکنجے سے مکمل طور پر نجات دلوانے سے قاصر رہا۔اسی لیے آج مجموعی طور پر انسانیت سسک رہی ہے اور کوئی پرسانِ حال نہیں۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ دور کے تقاضوں کے پیشِ نظر الہٰامی فکرو فلسفہ کی بنیاد پرسماجی مسائل حل کیے جائیں۔اور انسانیت کے فطری تقاضوں کی تکمیل کا جامع نظام ترتیب دیا جائے۔ اس حوالے سے ولی اللہی فکر ہی وہ معقول و مربوط فکر وفلسفہ ہےجو عصری مسائل کا جامع حل پیش کرتا ہے۔انسانیت کو استحصالی نظاموں سے نجات دلانے اور ارتقائے انسانی کے لیے اس فکر کی روشنی میں سماج کی تشکیل عصری تقاضا ہے۔