قومی ترقی اور اس میں حائل رکاوٹیں - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • قومی ترقی اور اس میں حائل رکاوٹیں

    یہ مضمون سیاست، ترقیات اور سماجی رویوں پہ بحث کرتا ہے۔

    By Mumtaz Khan Published on Apr 16, 2022 Views 2348

    قومی ترقی اور اس میں حائل رکاوٹیں 

     ڈاکٹر ممتازخان۔ اسلام آباد 

      آج کل ترقی کا لفظ سنتے ہی ذہن اونچی عمارات، بڑے بڑے پل،موٹر ویز، گاڑیوں کی لمبی لائنوں،چمنیوں سے نکلتے دھوئیں اور ہر لمحے تبدیل ہوتی ہوئی الیکڑانک گیجٹ کی طرف جاتا ہے۔ یقیناً یہ سب آج کے دور میں ایک قوم کے وجود کو برقرار رکھنے اور آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے۔ 

    ترقی ایک مسلسل عمل ہےاور ترقی کا یہ عمل ہر دور میں جاری رہتا ہے۔ ہر نسل اپنے وجود کی بقا کے لیےجدوجہد کرتی ہے اور اس کی ترقی اپنے سے پچھلی نسل سے جڑی ہوتی ہے۔ ایک غلط فیصلہ آپ کی اگلی نسل کو پٹری سے اتار بھی سکتا ہے اور ایک اچھا فیصلہ آپ کو ترقی کی پٹری پہ چڑھا بھی سکتا ہے۔ 

    اگر ترقی جدید مشینوں کے استعمال کا نام ہے تو دنیا کی کون سی ایسی جدید مشین ہے جو پاکستان کے مخصوص طبقات استعمال نہیں کرتے۔ پاکستان میں ہر چیز استعمال ہوتی ہے تو پھر ہم یہ کیوں کہتے ہیں کہ ہم کم ترقی یافتہ ہیں اور کچھ ممالک زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ تو ہم یہ نتیجہ نکالیں گے کہ وہ معاشرے ترقی یافتہ کہلاتے ہیں جو اشیا اپنے ہاں زیادہ پیدا کرتے ہیں اور ان میں ویلیو ایڈیشن کرتے ہیں، بیچتے زیادہ اور خریدتے کم ہیں۔تیسری دنیا کے احساس کمتری میں مبتلا معاشرے اشیا پیدا بھی کرتے ہیں۔ ان میں ویلیو بھی ایڈ کرتے ہیں، لیکن اپنا نام اور لیبل نہیں لگا پاتے۔ پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں شامل ہے۔جو کئی اشیا پیدا کرتا ہے، لیکن برانڈ کسی اور ملک یا کمپنی کا ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے شارٹ ٹرم فائدہ اور منافع خوری کی سوچ ہوتی ہے، جب کہ قوم کے نوجوان کے ذہن میں یہ بات ڈالی جاتی ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد تو بس کچھ کیے بغیر ہی دنیا سے چلے گئے۔

    احساس کمتری ایک ایسا مرض ہے جو قوم کو خوداعتمادی اورخودانحصاری کی طرف جانے ہی نہیں دیتا ۔ جب قوم خود کو دوسری اقوام سے فکری طور پہ کم ترسمجھتی ہے تو اس کا عملی کردار مزید مایوس کن نتائج پیدا کرتا ہے۔ 

    برصغیر کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ برطانوی سامراج نے اپنے دوراقتدار میں معاشرے میں یہ نظریہ پھیلا دیا کہ سفید فارم انگریز ہی سماج کی قیادت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔وہ کاروبار کو سائنسی اصولوں پہ چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کی زبان انگریزی ہی ترقیات کا راستہ کھولتی ہے۔ یہ سارے نظریات قوم کے ہر طبقے میں ایک مخصوص مقاصد کے لیے پھیلائے گئے۔

    جب کہ مشرقی اقوام میں خاص طور پر چائنا نے اپنی زبان، فلسفہ اور جدید حکمت عملی کو بنیاد بنا کر یہ ثابت کردیا ہے کہ کوئی مخصوص زبان، قوم اور رنگ ترقی کی علامت نہیں، بلکہ گرد و پیش کو مدنظر رکھ کر دوسروں سے مرعوب ہوئے بغیر اقوام اپنی خودانحصاری سے ہی ترقی کرتی ہیں۔

    دنیا میں کوئی قوم ترقی دوسری قوم کی جھولی میں نہیں ڈالتی۔بلکہ اس کے لیے خوداعتمادی و جہد مسلسل کی راہ اختیار کرنا پڑتی ہے۔یہ فطرت کا قانون ہے۔آپ ریشم کے کیڑے سے ریشم لے بھی لیں تو اس سے وہ ہنر نہیں لے سکتے، جس سے وہ ریشم بناتا ہے۔ آپ ریشم لینے کے بعد بھی اس کے محتاج ہیں۔ یہ محتاجی ہی آپ کی کمزوری اور اس کی طاقت ہے۔ کیڑے سے ریشم چھیننے، خریدنے یا ادھار لینے سے بہتر ہے آپ اس کا مشاہدہ کریں اور اس سے وہ فن لیں جس سے وہ ریشم بناتا ہے، تو یہ عمل آپ کی محتاجی ہمیشہ کے لیے ختم کردےگا۔ 

    اگر اس مثال کو ہم اچھی طرح سے سمجھ لیں اور بین الاقوامی کمپنیوں کی ٹیکنالوجی اور پیداواری صلاحیتوں کا ادراک کرکے اپنے سماج کی پس ماندگی کو ختم کر سکتے ہیں۔ معاشرتی انتشار وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہی شروع ہوتا ہے۔ خاص طور پر پاکستان جیسے ملک میں جہاں بنیادی طور پر وسائل کی عدم دستیابی اور موجود وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم ہی سماجی انتشار کا بنیادی سبب ہے۔ 

    موجودہ نظام میں قومی وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم تو بلاشبہ ہو رہی ہے اور ہمارے بہت سارے دانش ور اس پر پریشان ہیں اور بحث و مباحثہ بھی چل رہا ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ ہم زمانےکے تقاضوں کے مطابق نئے وسائل کو تلاش بھی نہیں کر رہے ہیں،جس کی وجہ سے موجود وسائل کی ویلیو کم ہوتی جا رہی ہے۔ یہی چیز موجودہ نظام کی بڑی کمزوری ہے۔ مثلا الیکڑونک اور جدید گیجٹس آنے کے بعد بین الاقوامی سطح پر زراعت کے شعبے سے لوگوں کو ہٹانے اور جدید شعبہ جات میں ڈالنے کے لیے زراعت کی پراڈکس کی قیمت کم کر دی جاتی ہے۔اس کا پاکستان جیسے ملک پر بڑا گہرا اثر پڑتا ہے، جہاں پر اکثریت کسانوں کی ہے۔

          ضرورت اس امر کی تھی کہ قومی قیادت ان تبدیلیوں کے رونما ہونے سے پہلے ان کو بھانپتی اور اس کے مطابق اپنا ایکشن پلان بناتی، جس سے جدید پراڈکس بھی ہمارے ملک میں بننا شروع ہو جاتیں اور ہمارے کسان اور کنزیومر بھی متاثر نہ ہوتے۔

    ہمارے حکمرانوں کے اعلانات کے باوجود بین الاقوامی کمپنیاں ملک میں بزنس نہیں کرنا چاہتیں،جس سے جدید پراڈکس لوکل لیول پر بننا شروع ہو جائیں۔ایسا کیوں ہوتا ہےکہ بین الاقوامی کمپنیاں پاکستان میں اپنے پلانٹ نہیں لگاتی ہیں۔ جب کہ امریکا جو کہ چین کا دشمن ہے۔پھر بھی سرمایہ دار اور مغربی ممالک کی کمپنیاں چین میں پلانٹ لگاتی ہیں۔اس کی کچھ وجوہات ہیں۔

     کمپنی کی انویسٹمنٹ کی مثال ایک شخص کی ہجرت جیسی ہے۔ مثلا ایک پڑھا لکھا امن پسند نوجوان ان معاشروں میں جا کر رہنا پسند کرتا ہے، جہاں اس کو امن سے رہنے کی اور تحفظ کا ماحول میسر ہو ۔اسی طرح کمپنیاں بھی اپنا پیسہ اور ٹیکنالوجی وہاں لگاتی ہیں، جہاں ان کو تحفظ ملتا ہے۔ آئی ایم ایف ہی کے ایک سروے کے مطابق پاکستان کا عدالتی نظام کاروبار کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اس سروے میں 38 فی صد کمپنیوں نے یہ رائے دی ہے کہ عدالتی نظام پرانا اور جدید دور کے مطابق معاشی اہداف کے راستے میں ایک رکاوٹ ہے۔

    اگر ریاستی نظام سماج میں امن وامان اور کاروباری آسانیاں پیدا نہیں کرتا تو پھر دوسرے ممالک کی کمپنیاں تو دور کی بات ہے،مقامی صنعت کار ، تاجر حتی کہ یہاں کے پڑھے لکھے نوجوان یہاں سے بھاگنے کے لیے کمر بستہ رہیں گے۔

     ہماری معاشی پس ماندگی کا اصل سبب برطانوی دور کا یہ نظام ہے،جس کا مقصد ہی اس خطے کے عوام کو پس ماندہ رکھ کر بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھنا تھا۔اور انھیں ذہنی غلام بنا کر یہاں کے وسائل کی لوٹ مار تھی اور ہمارے حکمران انھی مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا ذریعہ بنتے رہتے ہیں ۔

    آج کا تقاضا یہ ہے کہ ہم حکومتوں اور سیاسی پارٹیوں کی تبدیلی کے بجائے فرسودہ استعماری نظام کی تبدیلی کے لیے شعوری جدوجہد کا راستہ اختیار کریں۔

    Share via Whatsapp