سماجی نظام اور نظریے کا باہمی تعلق - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سماجی نظام اور نظریے کا باہمی تعلق

    ہر چیز کاایک محور ہوتا ہے جس کے گرد وہ گھومتا ہے ، اسی طرح انسانی زندگی کا بھی ایک محور و مرکز ہوتا ہے جسے فکر و فلسفہ یا علم و دانش کہتے ہیں۔

    By Muhammad Zahid Published on Jun 11, 2022 Views 1035
    سماجی نظام اور نظریے کا باہمی تعلق 
    محمد زاہدمروت۔ اسلام آباد 

    انسان جو بھی اعمال و سرگرمیاں اختیار کرتا ہے۔وہ کسی نہ کسی فکر کی روشنی میں کرتا ہے۔یہ نظریہ اور فکر ایک سوچ کا نام ہے۔آپ جس سماجی ماحول میں رہتے ہیں، اس میں جو نظریہ غالب ہوتا ہے۔ہر انسان اس سے متاثر ہوتا ہے۔چاہے کسی کو اس کا ادراک ہو یا نہ ہو۔ لیکن سب اسی فکر ونظریہ کے مطابق زندگی گزارنے کے پابند ہوتے ہیں۔ 
     اگر کوئی شخص سماجی ماحول اور اس پر غالب نظام سے مطابقت نہیں رکھتا تو اس صورت میں اسے سماجی زندگی سے لاتعلقی اور ترک دنیا کا راستہ اپنانا پڑے گا۔جو اس دور میں انتہائی کٹھن اور صعوبت کا راستہ ہے۔ اگراس نظام کی مخالفت کرتا ہے تو اس کے سامنے دو راستے ہیں۔
    پہلا یہ کہ وہ غالب سماجی نظام کے نظریہ سے بلندتر فکر اور اعلیٰ نصب العین کا حامل ہو اور وہ اپنے جیسے دوسرے نوجوانوں کو اس فکر سے روشناس کرائے اور باشعور اجتماعیت قائم کرے۔یعنی باشعور اجتماعیت کا حصہ بن کر ہی فاسد نظام کے اثرات سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ 
    دوسری صورت میں ایسا شخص فاسد سماجی نظام کے رحم و کرم پر ہوگا جو اسے معاشرے میں مزید ذلت و رسوائی کا نشان بنا دے گا۔ 
    انسانی جسم بھی ایک سماجی نظام کی طرح کام کرتا ہے۔جسم کا ہر عضو اپنا اپنا کام انفرادی دائرے میں کرتا ہے۔لیکن جب نتیجہ نکلتا ہے تو پورا جسم اس سے مستفید ہوتا ہے۔ایسا نہیں ہوتا کہ کھانا ہاتھ نے اٹھایا تو اس کا فائدہ صرف ہاتھ ہی کو ہو یا دانتوں نے چبایا تو فائدہ صرف انھیں ہو،بلکہ وہ سارے مل کر ایک کام سر انجام دیتے ہیں اور پھر ہر ایک کو اس کی ضرورت کے مطابق حصہ مل جاتا ہے۔اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہر عضو صحیح سلامت رہتا ہے۔اور پورا جسم چاق و بند رہتا ہے۔نیز اس میں ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
    یہی مثال ریاستی نظام کی ہے۔ریاست کا ہر ادارہ الگ الگ عضو کی طرح کام کرتا ہے۔ہر ادارے کے ذمہ کوئی نہ کوئی ڈیوٹی ہوتی ہے۔کسی کے ذمے پوری سلطنت کی حفاظت ہوتی ہے اور کسی کے ذمے مالیات کی وصولی اور کسی کے ذمے صحت کی سہولیات اور تعلیم کی فراہمی، اور اسی طرح کسی ادارے کے ذمے قوانین اور پالیسی سازی ہوتی ہے۔مختصراً یہ کہ نظام مملکت کو چلانے کے لیے مختلف ادارے ہوتے ہیں جو الگ الگ اپنے دائروں میں کام کرتے ہیں۔لیکن جب ان کا نتیجہ نکلتا ہے تو وہ اجتماعی طور پر نکلتا ہے۔اور سب اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ 
    اب یہ سارے ادارے جس نظریہ کی روشنی میں کام کرتے ہیں۔اس کے نتائج و ثمرات کا پھیلاؤ اس فلسفہ کی بنیادی ساخت اور خاصیت پر ہوتا ہے۔کہ اگر فلسفہ اجتماعیت پر مبنی ہے تو اس کے نتائج سے پوری قوم مستفید ہو تی ہے۔ملک ترقی کے راستے پہ گامزن ہو کر ترقی یافتہ اقوام کی فہرست میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔
    اور اگر یہ فلسفہ انفرادیت پر مبنی ہے تو اس کے نتائج صرف مخصوص طبقات تک محدود رہتے ہیں۔انفرادیت کی بنیاد پر قائم سماجی نظام میں ہر ادارہ اپنی الگ شناخت کچھ اس طرح سے قائم کرتا ہے کہ وہ اپنے متعلقہ دائرے سے نکل کر دوسروں کے دائرہ کار میں مداخلت کرتا ہے۔اور ایسے ادارے آگے بڑھتے بڑھتے ریاست کے اندر اپنی ایک الگ ریاست قائم کر لیتے ہیں۔نتیجتاً ریاستی اداروں میں جو ایک مضبوط ربط ہوتا ہے وہ کمزور ہوجاتا ہے۔
    یوں جو توانائی متوازن انداز میں ہر ادارے کے پاس پہنچنا ہوتی ہے۔ اس میں کہیں بہت کمی اور کہیں بہت زیادتی شروع ہو جاتی ہے،جس سے کچھ ادارے تو بالکل کمزور ہو کر اپنی ساکھ کھو بیٹھتے ہیں اور کچھ طاقت ور ہو کر دوسروں پر حاوی ہوجاتے ہیں۔ ایسے نظام کے حامل ممالک دنیا میں انتہائی کمزور ہوکر اپنا وجود کھو بیٹھتے یا دوسرے ترقی یافتہ اقوام کے اشاروں پر چلنا ان کا مقدر بن جاتا ہے۔ 
     اس حوالے سے آج دنیا بھر میں دو نظام رائج ہیں۔
    سرمایہ دارانہ نظام: یہ نظام انفرادیت کے فلسفہ پر قائم ہے۔یعنی یہ اجتماعیت کے مفاد کے مقابلے میں فرد کے مفاد کو ترجیح دیتا ہے۔اس فلسفہ کی بنیاد پر قائم سماجی نظام میں اونچ نیچ اور طبقاتیت کا ہونا ضروری ہے۔اور اس نظام کے پیش نظر عوام الناس کے بجائے مخصوص طبقات کی ترقی و خوش حالی ترجیح ہوتی ہے۔اور یہ اشرافیہ کی بالادستی و حکمرانی کا تحفظ کرتا ہے۔امریکا اور مغربی یورپ کے ممالک اس کی مثالیں ہیں۔
    اشتراکیت: یہ نظام اجتماعیت کے فلسفہ کا علمبردار ہے۔عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ اس کی ترجیح ہے۔سماجی مساوات اور محنت کش طبقات (مزدورو کسان) کی حکمرانی اس کی بنیاد ہے۔روس اور چائنا اس نظام کے حامل مرکزی ممالک ہیں۔
    مذکورہ بالا دونوں نظام اپنے مقاصد میں نمایاں فرق کے باوجود انسانی ذہن کی اختراع ہیں اور مادی فکر پہ مبنی ہیں۔اس لیے گزشتہ ایک صدی کے تجربات کے باوجود یہ نظام انسانوں کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہیں۔ 
    آج دنیا میں امن و سلامتی ،عوامی خوش حالی اور انسانی اقدار کا فقدان ہے۔دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے اور انسانیت کی اجتماعی ترقی کے لیے اسلام کے عادلانہ نظام کے قیام کی شعوری جدوجہد وقت کا تقاضا ہے۔کیوں کہ اسلام کے نظام عدل اور اس کے نتیجے میں ترقیات کا مشاہدہ انسانیت کئی صدیوں تک پہلےکرچکی ہے۔
    Share via Whatsapp