انسان کی حقیقت؛ خیالات و افکار اور شعور و لاشعور کی حیثیت واہمیت
اس مضمون کا بنیادی مقصد اور مرکزی خیال انسان کی حقیقیت اور مقام کو واضع کرنا ھے جس میں انسانی عقل و قلب کی صحبت صالحہ میں تربیت کو واضع کیا گیا ھے
انسان کی حقیقت؛ خیالات و افکار اور شعور و لاشعور کی حیثیت واہمیت
تحریر محمد اسد خٹک ، تحصیل نوشہرہ ، گاؤں خاورئی
انسان دو چیزوں کا مجموعہ ہے ایک انسان کی روح ہے اور دوسرا انسان کا جسم۔
جسم طبعی خواص کا مالک ہے اور روح نوعی خواص کی مالک ہے، انسان جب بھی اپنے طبعی یا نوعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کوئی عمل کرتا ہے تو سب سے پہلے اس کو خیال پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد انسان اس طرف توجہ کرکے ارادہ و عمل کرتا ہے، جتنا مضبوط خیال ہوگا اتنا ہی مضبوط ارادہ ہوگا وہ خیال اچھا بھی ہو سکتا ہے اور برا بھی ،انسان جتنا اپنے خیالات پر قابو پائے گا اتنا ہی وہ ارادہ و عمل میں متحرک رہے گا۔
انسان میں خیالات کے کافی منبع ہیں، جس میں کچھ کا ذکر مندرجہ ذیل ہے۔ انسان میں اپنے ماحول سے خیالات پیدا ہوتے ہیں، جس میں انسان کا باقی انسانوں سے معاملات کا لین دین ہوتا ہے یا مشاہدات و تجربات سے خیالات پیدا ہوتے ہیں یا پھر ریاستی نظام کے فیصلوں سے پیدا ہوتے ہیں یا پھر مَلکی یا سِفلی ( شیطانی)خیالات ہیں، لیکن ان سب میں خیال وہی کارگر ہوتا ہے جو انسان اپنے شعوری دماغ یعنی ( conscience mind) سے لاشعور ۔ ( sub conscience mind) تک منتقل کرتا ہےجو مضبوط احساسات پر مبنی ہو ، جو سوچ انسان کے لاشعور میں پختہ ہو جائے وہ آہستہ آہستہ انسان کے باطن پر اثر انداز ہوتی ہے ۔
اب خیال کے بعد یہاں پر شعور اور لاشعور کی طاقت کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے، کیوں کہ خیال چاہے غلط ہو یا درست، اس کا پہلا نشانہ آپ کے دماغ کا شعور اور لا شعور والا حصہ ہوتا ہے۔ یہ ایک ساتھ بھی ہوسکتا ہے اوربعض اوقات الگ الگ بھی ہو سکتا ہے ،کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں کسی سے اس کے کے غلط عمل کی وجہ سے نفرت پیدا ہوجاتی ہے،جو ہمارے شعوری دماغ نے دیکھا ہوتا ہے، لیکن شعوری دماغ چوں کہ زیادہ محفوظ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اس لیے وہ نفرت لاشعور کو محفوظ کرنے کے لیے اس فرد اور اس کے عمل سمیت منتقل کردیتا ہے اور اس طرح ہمارے لاشعور میں اس انسان سے متعلق ایک تصور قائم ہو جاتا ہے، جیسے ہی کبھی موقع ملتا ہے اور وہ انسان ہمارے سامنے آتا ہے تو ہمارا لاشعور اس وقت کو جس میں اس فرد کا ایک ناپسندیدہ عمل جو انسان نے دیکھا ہوا ہوتا ہے اس کو شعور کے سامنے لاکھڑا کردیتا ہے، جس پر شعور کی سطح کے مطابق یا شدت پسندانہ ردعمل آتا ہے یا پھر درگزر اور نظر انداز کرنے کا رویہ سامنے آتا ہے ، وہ بھی اس بنیاد پر ہوتا ہے جو بنیاد ہم نے لاشعور کی بنائی ہوئی ہوتی ہے شعور و لاشعور کو عرف عام میں عقل سے مخاطب کیا جاتا ہے انسان کے عقل کا دائرہ بصیرت قلب کے دائرہ بصیرت کی نسبت بہت کم ہوتا ہے۔اس کی تربیت کےلیے انبیاء اور صلحاء انسانوں پہ محنت کرتے ہیں
اس لیے ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے انبیاعلیہم السلام کو مبعوث کیا ،اب چوں کہ کوئی نیا نبی نہیں آئے گا، اس لیے یہ کام علمائے ربانیین اولیائے کرام اور صالحین امت کے ذمے ہے، جو انسان کے قلب پر محنت کرتے ہے، لیکن یہاں ایک بات ہمیں ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ تمام تر بے کار اور باطل خیالات کی پہچان کا علم اور انسانی ترقی کے حامل خیالات کا علم اور توجہ ہمیں اس صحبت سے تو نصیب ہوجاتی ہے، لیکن اس راستے پر انسان صحبت کے ساتھ ساتھ اپنی صاف نیت اخلاص اور مسلسل کوشش سے عمل پیرا ہو کر کامیاب ہوسکتا ہے۔
برے اور باطل خیالات جو نہ فرد واحد کے لیے کارآمد ھوتے ہیں اور نہ ہی اجتماع انسانی کے لیے مفید ثابت ہوتے ہیں ، اس لیے انسان خود مسلسل مثبت خیال پر توجہ کرکے منفی خیالات کو دور کرسکتا ھے ، جب ذہن پر فضول خیالات کا بوجھ نہیں رھے گا تو انسان اچھے فکر پر معاشرے میں ایک بہترین زندگی گزار سکتا ھے اور سوسائٹی کے لیے ایک کارآمد انسان کی شکل میں اپنا کردار ادا کر سکتاھے۔
وہ لوگ جو سوسائٹی کو نئے خطوط وبنیادوں پر استوارکرنے کی جدوجہد میں لگے ہوں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے صحبت صالحہ میں رہ کر انسانی ترقی کے علوم و اصول اور زوال کی نوعیتوں کو سیکھ لیں۔ تاکہ ان کو اپنے خیالات ، افکار اور علوم کی طاقت کے ساتھ ساتھ انسان کے شعور و لاشعور کے مقام کا علم حاصل ہو جائے اور اس شعور ولاشعور کا انسان کے باطن یعنی لطائف (انرجی پوائنٹس) پر کیا اثرپڑتا ہے اور انسان کس طرح اور کیا کام لطائف سےلے سکتا ہے اللہ تعالیٰ نے کس مقصد کے لیے قلب جیسے باقی لطائف ہمارے جسم میں رکھے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ تمھارے جسم میں تمھارا دل اگر درست ہو جائے تو تمھارا ساراجسم درست ہوجائےگا، اس کے لیے نبی اکرمﷺ یہ دعا بھی پڑھتے اور سکھاتے تھے"یامقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک" (اے دلوں کو بدلنے والے میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھنا )( جامع ترمذی)
اب یہاں اللہ نے جو دین انسانوں کی رہنمائی کے لیے نازل کیاہے اس پر دل کو قائم رکھنے کی دعا سکھائی جارہی ہے جو ہمارے باطن کا حصہ ہے اہل تصوف دل کو مرکز مانتے ہیں-وہ دل کو خدا سے مضبوط تعلق استوار کرنے کا اور حقیقی بصیرت کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں ، اسی لیے جب مسلمان ایمان مجمل میں پڑھتا ہے تو اس میں زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کا اعلان و اظہار کرتا ھے یہاں سے مزید ہمیں دل یا قلب سلیم کی اہمیت سمجھ آتی ھے
""تصوف اور باطنی تزکیہ کی اہمیت""
انسان مختلف لطائف کا مجموعہ ہے، مثلا قلب، روح، سر، خفی، اخفی ،نفس ، اور دماغ وغیرہ ۔ اہل تصوف کے مطابق تمام لطائف کا مرکزی لطیفہ قلب ہے اگر اس کو اللہ کے دینی، افکار و خیالات اور ذکر اذکار سے مزین کردیا جائے تو اس کو اللہ کے نور سے منور کیا جا سکتا ہے۔اس ریاضت کے زریعے اللہ تعالیٰ انسان کی فراست و بصیرت میں اضافہ کردیتا ہے۔
قلب کی بصیرت بیدار ہوتی ہے اور پھر قلب انسان کی عقل کو درست اور غلط فیصلوں سے متعلق رہنمائی دیتا ہے لطائف کا منور کرنا بغیر مرشد و رہنما کے ممکن نہیں، کیوں کہ یہ علم سینہ بسینہ چلا آرہا ہے۔ اس میں کہاں ، کیا اور کب کون سے مسائل درپیش ہوتے ہیں وہ ایک مرشد کامل کو ہی بہتر علم ہوتا ہے اور اس کا حل بھی وہی دے سکتا ے۔ یہ باقاعدہ ایک علم ہے، اس علم سے انسان پر اپنی حقیقت سے لے کر کائنات کی حقیقتیں کھل جاتی ھیں اور اپنے رب کی معرفت حاصل کرکے وہ راز اس پر منکشف ہو جاتے ہیں جو اس کے باطن نے عالم ارواح میں ارواح بننے کے بعد دیکھے ہوئے ہوتے ہیں اور حقیقی زندگی کا ایک سفر شروع ہو جاتا ہے۔
پھر وہ ظلم کے آگے سر تسلیم خم نہیں کرتا اور نہ وہ دولت و شہرت کا پجاری ہوتا ہے۔ اس پر انسان کا مقصد تخلیق روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتا ہےاور وہ ہر طرح کی قربانی اللہ کی راہ میں دینے کے لیے تیار رہتا ہے۔ یہاں پر اس ساری بحث کاحاصل یہ ہے کہ شعور سے لاشعور تک کا سفر طے کرے اور پھر شعور و لاشعور اور باطن یعنی قلب کو جب انسان ایک مرشد کی صحبت میں ایک نکتہ پر مرکوز کرنا سیکھ جائے تو یہاں سے ارتقا کا حقیقی سفر شروع ہو جاتا ہے۔
"باطن کے ظاہر پر اثرات"
اسی طرح انسان کے باطن میں انسان کی ظاہری کوشش سے جو پاکیزگی پیدا ہوتی اور خدائے وحدہ لاشریک سے جو تعلق جڑتا ہے، اس کے اثرات اس کے ظاہر پر بھی پڑنا شروع ہو جاتے ہیں، جس سے انسان کی انفرادی شخصیت مختلف خصوصیات کی مالک بن جاتی ہے۔ سب سے اہم چیز اللہ تعالیٰ سے حقیقی تعلق قائم ہوجاتا ہے، انسان کی قلبی بصیرت سے انسان کی عقلی بصیرت تاثیر لینا شروع کر دیتی ہے، جس کے نتیجہ میں بہادری ،عاجزی ،کفایت شعاری ،جذبہ قربانی ، قائدانہ صلاحیتیں ، انسانی ہمدردی کا جذبہ،فیصلہ کی قوت اور نیک اور صالحین کے قریب رہنا وغیرہ انسان کا خاصہ بن جاتا ہے۔
تکبر ،حسد ، سرمایہ پرستی ،جاہ پرستی ، خود رائی جیسی خطرناک بیماریوں سے محفوظ ہو جاتا ہے، انسان معرفتِ الٰہی کے اس سفر میں وصول منزل حاصل کر کے سعادت کبریٰ کو پالیتا ہے اور انسانیت اور کائنات کے لیے مفید ترین ثابت ہوتا ہے۔