حقیقی آزادی اور غیر جانب دارانہ ملکی پالیسی
کیا حقیقی آزادی کے حصول کے بغیر ملک آزاد فیصلے کرسکتاہے؟
حقیقی آزادی اور غیر جانب دارانہ ملکی پالیسی
سعدمیر۔ راولپنڈی
قومیں تب ہی ترقی کرسکتی ہیں، جب وہ اپنا نظام حکومت آزادنہ، غیرجانب دارانہ، انسانی بھلائی کے نظریہ اور قومی مفادات و عدل کی اساس پر قائم کرتی ہیں۔ اس تناظر میں مسلم دور عروج کا ہندوستان تاریخ عالم میں اپنی خاص حیثیت کا حامل ہے۔ جب کہ اُسی ہم عصر دور میں یورپ اور مغربی ممالک نکبت کی زندگی بسر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے برطانیہ کے تاجر ایسٹ انڈیا کمپنی کی شکل میں 1608ء میں برصغیر میں آتے ہیں اور کچھ عرصے کے بعد ملک کی سیاست میں دخل اندازی کرکے قوم پر غلامی مسلط کرتے ہیں۔ جب کہ 1947ء کے بعد یہاں اپنا غلام طبقہ مسلط کرکے خود چلے جاتے ہیں۔
سترہویں صدی عیسوی وہ دور ہے، جب دنیا کی ایک چوتھائی مصنوعات اس خطہ میں تیار ہوتی ہیں۔ جب کہ دوسری طرف برطانیہ صرف تین فی صد مصنوعات تیار کر رہا ہوتا ہے۔ 1707ء تک یہ کمپنی بہ ظاہر یہاں تجارت کرتی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن درپردہ یہاں کے حالات کا جائزہ لے کر سیاسی مداخلت کے بہانے بھی تلاش کررہی ہوتی ہے، لیکن کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد بگڑتے سیاسی حالات سے فائدہ اٹھاکر مختلف علاقوں کے امرا اور حکمرانوں سے سازباز اور تخت برطانیہ کی پشت پناہی سے اگلے سو سالوں میں برصغیر کی حاکم بن جاتی ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد برطانیہ اس خطے کو براہ راست اپنےشکنجہ میں لے لیتا ہے اور اس کا یہ راج 1947ء تک رہتا ہے۔ اس دوران عالمی جنگوں میں یہاں کی افرادی قوت و وسائل کو بروئے کار لا کر اپنا اقتدار دنیا میں قائم رکھتا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ سترہویں صدی میں اس خطہ کا عالمی جی ڈی پی میں 25 فی صد کا حصہ تھا، لیکن سامراج کی لوٹ ماراور بدامنی اسے 1947ء تک تین فی صد کی کم ترین سطح پر لے آئی، جب کہ شرح خواندگی 15 فی صد سے بھی کم رہ گئی تھی۔ اس غلامی کے دور میں برطانیہ نے یہاں ایسے بااثر ایجنٹ پیدا کیے جو عوام کے دلوں میں سامراج کا رعب پیدا کرتے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ ان کے اس راج کو طول دیا جائے اور عوام کو ان کے خلاف کسی بھی جدوجہد میں شامل ہونے سے روکا جائے۔ اپنا ایسا تعلیمی نظام بھی ترتیب دیا، جس کے نتیجہ میں "پڑھے لکھوں" کا ایسا طبقہ بھی پیدا ہوا جو مغرب سے مرعوب اور ان کے گُن گانے لگا اور وہی طبقہ یہاں سیاست پر براجماں کیا گیا۔ چوں کہ ہمارے ملک میں آج بھی وہی تعلیمی نظام رائج ہے تو نفسیاتی طور پر مرعوب و غلام اسی طبقہ کے افراد اقتدار کے ایوانوں سے لے کر میڈیا کی سکرینوں تک انہی آقاؤں کے قصیدے پڑھتے دکھائی دیتا ہے۔
1947ء میں برطانیہ سے براہ راست آزادی حاصل کرنے کے بعد اگر اس ملک کو مخلص قیادت نصیب ہوتی تو وہ تاریخ سے سبق ضرور سیکھتی اور اپنی قومی ترقی کے لیے جدوجہد و اقدامات کرتی۔ لیکن انگریز یہاں اپنے ہی وفاداروں کو ملک کی باگ ڈور دے کر گیا تھا، جس کے مفادات مغرب سے ہی جڑے رہے۔ اسی لیے ہم ایک بوڑھے سامراج کی گود سے نکل کر توانا سامراج امریکا کی غلامی کو قبول کر بیٹھے۔ جب بھی ہمیں امریکا بہادر نے پکارا، ہم اپنے لہو و وسائل سے ان کی خدمت میں پیش ہوگئے۔ بغداد پیکٹ، سیٹو، سینٹو سے ہوتے ہوئے مختلف اتحادوں میں سامراجی مقاصد کو پورا کرنے میں تن دہی سے کام کیا۔ گزشتہ 50 سالوں میں ہمارے لاکھوں افراد قتل ہوچکے، ملک دو لخت ہوگیا، معیشت دن بدن بگڑتی جارہی ہےاور دنیا میں ہماری پہچان ایک پس ماندہ، طفیلی اور دہشت گرد ملک کی ہے۔ اسی مغربی سامراج کے گماشتے کچھ عرصہ تک دنیا میں ہمیں ناکام ریاست کے طور پر بھی متعارف کرواتے رہے۔
برطانیہ نے اپنا راج "تقسیم کرو اور حکومت کرو" کی پالیسی پر قائم رکھا ہوا تھا۔ جب کہ موجودہ سامراج "ڈراؤ اور حکومت کرو" کی پالیسی پر اپنے نمائندوں کے ذریعے اپنا ظلم کا نظام قائم رکھے ہوئے ہے۔ جب تک اس کے ایجنٹ نظام کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں، تب تک غلامی کا شکنجہ اس قوم کا مقدر ہے۔ مفاد پرستوں کا ٹولہ ہر بدلتے دور میں اپنے حقیقی آقاؤں کے اشارے کا منتظر ہوتا ہے۔ جو حکم ہوا، وہی عمل ہوا۔ اُسی کے اشاروں پر اتحادات کی سیاست کاری کرتے ہیں اور اسی کی حکمت عملی پر چل کر قومی و ملکی مفادات کو بے وقار اور داؤ پر لگاتے ہیں۔
غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لیے برصغیر کے آزادی کے رہنماؤں کی تاریخ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے، ایسی مخلص افرادی قوت تیار کرنے کی ضرورت ہے جو صرف اور صرف قومی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے آزادانہ اور ملکی مفاد میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ ایسے افراد پر مشتمل جماعت جو ہر قسم کے حالات سے نمٹنے کا پروگرام اپنے پاس رکھتی ہو اور عوام کی قوت کے بل بوتے پر جدید خطوط پر اپنا قومی جمہوری نظام ترتیب دے۔ جب تک اس تناظر میں سنجیدہ، مستقل اور انقلابی کوشش کر کے حقیقی آزادی حاصل نہیں کی جائے گی، تب تک آزاد اور غیرجانب دارانہ ملکی پالیسی ایک خواب ہی رہے گی۔