سامراج اور اس کے ہتھکنڈے
سامراج کی دنیا میں پالیسیوں کا تجزیہ اور سامراجی نظام کے ارتقائی سفر
سامراج اور اس کے ہتھکنڈے
تحریر: عادل بادشاہ - مانسہرہ
سامراج ان ترقی یافتہ ممالک کو کہتے ہیں، جہاں سرمایہ دارانہ نظام اپنی جدید شکل میں موجود ہے۔ اور وہاں کا سرمایہ دار طبقہ نہ صرف اپنے لوگوں کو لوٹتا ہے، بلکہ تیسری دنیا کے ممالک کو بھی لوٹ رہا ہے۔ یہ انٹرنیشنل اجارہ دار طبقہ دنیا کی کتنی دولت کا مالک ہے۔ اس کا اندازہ آکسفیم کی 2017 ء کی ایک رپورٹ سے ہوتا ہے،جس کے مطابق دنیا کے صرف آٹھ فی صد لوگ اتنی دولت رکھتے ہیں، جتنی دولت دنیا کی آدھی آبادی کے پاس ہے۔ اس عالمی سرمایہ داری نظام کی ڈیزائننگ کچھ اس طرح ہے کہ یورپ اور امریکا میں سرمایہ داری کی نیو کلاسیکل یعنی جدید شکل ہے، جہاں استحصال کو جدت دی گئی ہے۔ جب کہ تیسری دنیا میں کلاسیکل اور سیمی کلاسیکل شکل رائج ہے۔
جب کہ پاکستان میں جاگیرداریت کی باقیات بھی موجود ہیں، جہاں پر ابھی بھی 21 لاکھ لوگ bonded labor یعنی جبری مشقت کی شکل میں موجود ہیں۔ اس نظام میں جس طرح سرمایہ دار مزدور کو لوٹتا ہے، اسی طرح نظام کی نیو کلاسیکل معاشی ڈھانچہ پر استوار ممالک کلاسیکل، سیمی کلاسیکل اور جاگیرداری معاشی ڈھانچوں پرمبنی ممالک کا معاشی اور سیاسی استحصال کرتے ہیں۔ یعنی امیر ممالک تیسری دنیا کے ممالک میں اپنے نمائندوں ( مقامی جاگیردار اور سرمایہ دار) کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور وہاں پر قائم نیو کالونیل/ کلاسیکل معاشی اور سیاسی ڈھانچے کے ذریعے عوام کو غلام بنا کر وسائل پرقبضہ کیا جاتا ہے۔
اگر ہم سامراج کی جدید شکل کا تاریخی جائزہ لیں تو آٹھویں صدی عیسوی سے پندرھویں صدی عیسوی تک یورپ میں جاگیرداری نظام قائم تھا۔ اور اسی دور میں احیائےعلوم کی تحریک کے نتیجے میں یورپ میں فیوڈل دور تجارتی دور میں داخل ہونا شروع ہوا۔ جو جاگیردار زمین پر قابض تھا، اس نے تجارت پر قبضہ کر لیا۔ چھوٹی چھوٹی دست کاریاں قائم کی گئیں جو ان کی ہی ملکیت تھیں۔ اس دور کو مرکنٹائل اِزم کہتے ہیں، جس کا دورانیہ 150 سال تھا۔ دست کاری کی صنعت 150 سال کے ارتقائی مراحل سے گزر کر مشین کے دور میں داخل ہوگئی اور زر کی جگہ سرمائے کی terminology کو متعارف کرایا گیا۔ اس طرح اٹھارویں صدی عیسوی میں سرمایہ داری نظام کا آغاز ہوا۔ اور ساتھ ہی منڈ یوں کی تلاش میں عالمی مہم شروع کردی۔جب یورپین اقوام افریقا اور ہندوستان میں داخل ہوئیں تو وہاں کے نظام کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر اپنی نوآبادیات قائم کیں۔
جنگ عظیم اوـل (1914- 1918 ) اور جنگ عظیم دوم ( 1939-1945 ) حقیقت میں دنیا میں منڈیوں پر قبضے اور ان کی تقسیم پر یورپین ممالک کے درمیان لڑی گئی۔ جولائی 1944 میں امریکی ریاست نیو ھمپشائر کے سیاحتی علاقے بریٹن ووڈز (Bretton Woods ) میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں 45 اتحادی ممالک کے 730 مندوبین شامل تھے۔ اس کانفرنس کو Bretton Wood Conference کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس جنگ میں امریکا کو سب سے کم نقصان ہوا، اور سرمایہ داری کی عالمی لیڈرشپ برطانیہ کی جگہ امریکا کے ہاتھ میں آگئی۔ اب وہ کالونیاں جن پر برطانیہ ڈائریکٹ حکومت کرتا تھا، ان کے لیے Neo-Colonial strategies ڈیزائن کی گئی۔اس مقصد کے لیے Bank , World International Monitory Funds (IMF) اور GATT (General Agreement on Trade and Tariff ) جیسے اداروں کی بنیادیں رکھی گئیں۔
جن کا مقصد Colonialism کوNeo-Colonialism پر استوار کرنا تھا۔ پہلے لوٹ مار کا سلسلہ ڈائریکٹ تھا، اب اس سلسلے کو نیو کالونیل ازم کی بنیاد پر ان ڈائریکٹ کیا گیا۔ اس طرح ترقی یافتہ سامراجی ممالک کا اجارہ دار طبقہ غریب ممالک کے سیاسی اور معاشی معاملات میں دخل اندازی کر کے اپنی مرضی کے نمائندے لے کر آنے لگا ۔اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہوا ۔
سامراج اپنے قائم کردہ اداروں IMF, World Bank, ,GATT, WTO کے ذریعے غریب ممالک کی معشیت کو کنٹرول کرتا ہے اور پھر ان کی سیاست میں مداخلت کر کے اپنی مرضی کی حکومتیں قائم کرتا ہے۔ اگر ہم نیوکالونیل دور کا جائزہ لیں تو ایک رپورٹ کے مطابق امیر ممالک تیسری دنیا کے ممالک سے ہر سال بیرونی قرضوں پر سود کی مد میں 600 ارب ڈالر لے کر جاتے ہیں۔اسی طرح ملٹی نیشنل کمپنیز 900 ارب ڈالر ہر سال امیر ممالک میں منتقل کرتی ہیں، اسی طرح پچھلی ایک دہائی میں ملٹی نیشنل کمپنیز نے تیسری دنیا کے ممالک میں مغربی یورپ کے رقبے کے برابر قبضہ کیا ہوا ہے۔ ان زمینوں کی مجموعی مالیت 2000 ارب ڈالر ہے۔ اس طرح ٹوٹل 2000 ارب ڈالر ہر سال امیر ممالک میں منتقل ہوتے ہیں اور بدلے میں 130 ارب ڈالر امداد کی مد میں دیے جاتے ہیں۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ماضی میں برطانیہ 200 سالوں میں 45 ٹریلین ڈالر لوٹ کر لے گیا ۔ اکتوبر 2013ء کی اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق ڈھائی کروڑ ڈالر ہر روز باہر سمگل کیے جا رہے ہیں۔ یہ رقم 9 ارب ڈالر سالانہ بنتی ہے۔ اسی طرح گلوبل فنانشل انٹگریٹی کی رپورٹ کے مطابق 1990 ء سے 2008 ءتک انگولا، ایتھوپیا اور یمن جیسے غریب ترین ممالک سے 197 ارب ڈالر امیر ممالک میں منتقل ہوئے۔
اسی طرح حالیہ ایک بین الااقوامی ریورٹ میں دنیا میں دولت کی غلط تقسیم کو یوں بیان کیا گیا ہے جو حقیقت میں عالمی سرما یہ داری نطام کے دنیا پربھیانک نتائج ہیں۔
"Billionaires around the world, who have almost doubled in number since the 2008 global financial crisis, saw their combined fortunes grow by $2.5bn a day, while the 3.8 billion people at the bottom of the scale saw their wealth decline by 11 percent in 2018, said the UK-based "charity's annual inequality report on Monday
(برطانیہ کے ایک خیراتی ادارے آکسفیم کے مطابق 2008ء کی عالمی کسادبازی سے 2018 ء تک دنیا کے ارب پتیوں کی تعداد دگنا ہو چکی ہے جن کی دولت میں 5۔2 ارب ڈالر ہر دن اضافہ ہو رہا ہے۔ جب کہ 3۔8 ارب لوگوں کی دولت میں 11 فی صد کمی آئی ہے۔)
دنیا میں دولت کا عدم توازن حقیقت میں سرمایہ داری نظام کے غلط اصولوں کا نتیجہ ہے اور یہی سرمایہ داری نظام عالمی اجارہ دار طبقہ کا ایک موثر ہتھیار ہے،جس کے ذریعے نہ صرف اپنے لوگوں کو لوٹتا ہے۔بلکہ غریب ممالک کو بھی غلام بنایا ہوا ہے۔سامراج ملٹی نیشنل کمپنیز MNCsکی شکل میں دنیا کے وسائل پر قابض نظر آتا ہے ۔ اپنی شاطر عالمی سیاست کے بل بوتے پر اسامہ جیسے عرب امیر زادے کو پہلے امیرالمجاہدین بنایا اور مقاصد پورے ہونے پر دہشت گرد بنا دیا ۔ اور جہاد جیسے مقدس فریضہ کے نام پر سامراجی مقاصدوعزائم کی تکمیل کی ۔
اس وقت سامراج دنیا پراپنی مرضی مسلط کر رہا ہے۔ داعش، طالبان اور القاعدہ کی شکل میں تشدد اور دہشت گردی کی آبیاری کرتا ہے۔اور اس کے خاتمے کے لیے آپریشن کر کے ہیرو بنتا ہے۔ ایک طرف تو ملٹی نیشنل کمپنیوں آئی ایم ایف ، ورلڈبینک جیسے اداروں کے ذریعے غریب ممالک کو غلامی میں جکڑا ہوا ہے اور دوسری طرف این جی اوز کے لبادے میں انسانیت کا مسیحا بننے کا ناٹک کرتا ہے۔
لبرل ازم ، جمہوریت، سیکولرازم کا علم بلند کرتا ہے۔اور اپنے مفادات کے تحفظ اور استعماری عزائم کی تکمیل کے لیے آمریت اور بادشاہت کو بچا رہا ہوتا ہے اور کہیں جمہوریت کے ذریعے وسائل کو لوٹ رہا ہوتا ہے اور کہیں انتہا پسندی کے بیج بو رہا ہوتا ہے۔غریب ممالک میں اپنی شطرنج کے مہرے خود تیار کرتا ہے اور چال بھی اپنی مرضی کی چلتا ہے اور جو اس کی چال کے مخالف ہوتا ہے۔ اس ملک کو لیبیا، افغانستان یا عراق بنا دیتا ہے ۔
سامراج اک شاطر کھلاڑی ہے، جس نےعالمی و مقامی میڈیا،دانش وروں، صحافیوں کے علاوہ نیو کالونیل ڈھانچوں کے بل بوتے پر تیسری دنیا کے حکمرانوں اورغریب عوام کو غلام رکھا ہوا ہے۔ میکاولی کے سیاسی نظام میں قومی سطح کی سیاست تو دور کی بات اکثریت تو یونین کونسل کے ناظم کی سیاست پر دھوکا کھا لیتے ہیں۔ سامراج کی شاطرانہ عالمی سیاست کو سمجھنا ملک کے موجودہ تعلیمی نظام کے ذریعے ناممکن ہے، جب تک متبادل نظریے کےذ ریعے اسےنہ سمجھا جائے ۔
پاکستان میں جاگیرداری اورسیمی کلاسیکل سرمایہ داری کی شکل رائج ہے، جہاں استحصال کی وہی پرانی شکلیں ہیں۔ جب کہ یورپ نے استحصال کو نظام کی نیو کلاسیکل شکل کے مطابق جدید کیا ہے۔ عالمی لوٹ مار پر پردہ ڈالنے اور سامراجی نظام کو ویلفیئر کا نظام ثابت کرنے کےلیے تین یا چار لاکھ آبادی والے ممالک کو Scandinavian welfare states بنا کر ماڈل کے طور پر دنیا میں پیش کیا، تا کہ سرمایہ داری کی Justification دنیا کے سامنے رکھی جائے کہ یہ نظام انسان دوست ہے۔
آج کے دورمیں سامراجی عزائم و مقاصد کو سمجھنے کے لیے سیاسی و سماجی شعور کی ضرورت ہے۔اورعصر حاضر کے اس تقاضے کو ولی اللہی نظام فکر کی روشنی میں ہی سمجھا جا سکتا ہے۔