چالیس سالہ پرانے اور روایتی تشدد پسند بیانیے کی شکست - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • چالیس سالہ پرانے اور روایتی تشدد پسند بیانیے کی شکست

    یہ تحریر جہادی بیانیے کی شکست کے تناظر میں ہے

    By جنید احمد شاہ Published on Mar 08, 2022 Views 624
    چالیس سالہ پرانے اور روایتی تشدد پسند بیانیے کی شکست
    جنید احمد شاہ، راولپنڈی 

         پاکستانی مذہبی طبقے کی قیادت نے1989-1979ء کے جنگ افغانستان کی فضا بنائی۔اس فضا میں امریکا نے لاکھوں بچے اپنے مفاد کی بھینٹ چڑھائے۔اس دور میں مذہبی طبقہ کی طرف دولت کا بہاؤ بڑھا۔پچھلے چند سالوں میں جب ریاست نے کہا" وہ جہاد نہیں، بلکہ فساد تھا"۔تو مذہبی طبقہ نے اپنی غلطی کوتسلیم کرنے کے بجائے یہ عذرلنگ پیش کیا کہ"ہم تو استعمال ہوگئے"... "ہمارے مدارس کے بچوں کو پاکستانی فوج نے ٹریننگ دے کر ان کے ہاتھ میں بندوق تھمائی اور ہمیں استعمال کیا تو سب سے پہلے فوج معافی مانگے"۔۔۔" ہم افغان طالبان کے حمایتی ہیں، پاکستانی طالبان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے" وغیرہ وغیرہ۔۔
         پچھلے کچھ سالوں میں عالمی منظر نامہ تبدیل ہوا، شنگھائی تعاون تنظیم کے فورم سے جب ریجنل طاقتیں مضبوط ہوتی ہوئی نظر آئیں، ان کا دباؤ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ پر بھی آیا کہ آپ ان شرپسندوں کو کنٹرول کریں، ان کے ٹریننگ کیمپس بند کریں اور ان کی فنڈنگ کا سراغ لگائیں اور اسے ڈاکومنٹ کریں۔ وگرنہ ہم پاکستان میں کی جانے والی خطیر سرمایہ کاری پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہوجائیں گے، ہمیں محفوظ ماحول چاہیے،تو مجبوراً یہاں کی مقتدرہ کو اپنی پرانی پالیسی سے رجوع کرنا پڑا۔۔۔ 
         اسی مجبوری کے تحت ریاستی بیانیے کی ایک دستاویز"پیغام پاکستان" کے نام سے منظرعام پر آئی، جس پر تمام مذہبی، سیاسی و مذہبی اور جہادی تنظیمات کی قیادت نے مل کر دستخط کیے اور اس دستاویز کی تقریب رونمائی میں بھرپور شرکت کر کے ریاستی بیانیے کی تائید کی لیکن پھر بھی کھلے عام اپنی غلطی تسلیم نہیں کی۔۔۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جرمنی کی "میونخ کانفرنس" میں اپنی تقریر میں اس بات کا اعتراف کیا کہ "چالیس سال پہلے افغانستان میں کیا جانے والا جہاد نہیں، بلکہ فساد تھا"۔۔۔ یعنی یہاں کی ملٹری بیوروکریسی نے اپنے پرانے کردار سے رجوع کیا۔۔۔ اس جنگ کے بنیادی اسٹیک ہولڈرز امریکا اور سعودی عرب نے بھی سارے پول کھول کر رکھ دیے اور ان کی فنڈنگ پر پلنے والا ہمارا مذہبی طبقہ مکمل خاموشی اختیار کرگیا اور یہاں کے مدارس کے غریب بچوں کے خون بیچنے کی کوئی بھی توجیہ پیش کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔۔
    1994ء میں طالبان منظر عام پر آئے اور 1996ء میں انھوں نے کابل پر قبضہ کر لیا، اس کے بعد قائم ہونے والی طالبان حکومت چند سالوں کے بعد ختم ہوئی، جس کی بنیاد نائن الیون کا واقعہ بنا۔ امریکا نے افغانستان پر حملہ کر کے افغانستان کا انفراسٹرکچر تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔امریکا معاہدہ بون کو بنیاد بنا کر کٹھ پتلی کرزئی حکومت کو برسر اقتدار لے کر آیا، جسے اقوام متحدہ کی مدد سے دنیا کے تمام ممالک بہ شمول پاکستان نے تسلیم کیا۔20 سال کی اس طویل جنگ کے بعد آج وہ افغانستان کو بے یارو مددگار چھوڑ کر بھاگا ہے، جس کی بنیادی وَجہ اس کے عالمی غلبے کو لاحق خطرات ہیں اور اس کے مقابلے میں عالمی سطح پر ایشیائی طاقتوں کے قائدانہ کردار کی طرف پیش رفت ہے۔۔
    آج دوبارہ انہی طالبان کو اقتدار میں لایا گیا ہے تو ہمارے ملک کی وہ تمام مذہبی و تشدد پسند قیادت دوبارہ ان کی حمایت میں بیانات جاری کررہی ہے۔۔۔طالبان کے نام مبارک باد کے آڈیو، ویڈیو بیانات جاری کیے جا رہے ہیں۔ ان کے حق میں پریس ریلیزز جاری کی جا رہی ہیں۔ ان کے برسر اقتدار آنے کو فتح مکہ اور فتح مبین سے تعبیر کیا جا رہا ہے، اللہ کی نصرت، حمایت اور غیبی مدد کے دعوےکیے جا رہے ہیں۔۔اس قسم کی باتیں 80ء کی دہائی میں بھی اس طبقہ کی طرف سےسننےکو ملتی رہی ہیں ۔ پھر ان سارے افسانوں اور مذہبی کارڈ کے استعمال سے رجوع کیا گیا اور آج پھر دوبارہ وہی پروپیگنڈا شروع کر دیاگیا ہے۔۔
    اس سارے کھیل میں نقصان مدرسے کے اس غریب بچے کا ہوا، جسے اس کے والدین نے حافظِ قرآن اور عالم دین بنانے کے لیے بھیجا تھا اور وہ بچہ اس طالع آزما قیادت کے جھانسے میں آکر مارا گیا اور اس کے خون کے عوض ملنے والے ڈالرز اور ریال اسی قیادت نے وصول کر کے اپنی تجوریوں کو بھرا۔۔۔ یہ قیادت افغانستان میں طالبانائزیشن کی کھل کر حمایت کرتی رہی ہے اور پاکستان میں پارلیمانی اور پرامن سیاست پر یقین رکھتی ہے۔افغانستان میں جہاد و قتال کو عین اسلامی فریضہ قرار دیتی ہے اور پاکستان میں اسے دہشت گردی سے تعبیر کرتی ہے۔ افغانستان میں اسلامی نظام خلافت کا نعرہ بلند کرتی ہے اور پاکستان میں نظام جمہوریت کی حمایت کرتی ہے۔ افغانستان میں بندوق کے زور پر آنے والی حکومت کو مبارک باد پیش کرتی ہے اور پاکستان میں انتخابی سیاست میں آلہ کار بنتی ہے۔۔ یہ ایسا دوغلا طرزِعمل ہے، جسے بذاتِ خود ان جماعتوں کا کارکن سمجھنے سے قاصر ہے اور اپنی قیادت کے رویے سے نالاں ہے۔۔۔
    پاکستان کی مذہبی قیادت کو اپنے طرزِعمل کاتنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی موجودہ نوجوان نسل نے شعور کی آنکھ کھولنا شروع کردی ہے۔اَب نوجوان ستر اسی کی دھائی کی پراگندہ سوچ سے نکلنے کامتمنی ہے۔
    Share via Whatsapp