سسٹم کا شعور - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سسٹم کا شعور

    انگریز سامراج نے ان تینوں اداروں کی بنیادی سرمایہ دارانہ نظام یعنی کیپٹل ازم کے مطابق رکھی تھی جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔

    By محمدجنیدزاہد Published on Feb 15, 2022 Views 723

    سسٹم کا شعور 

    محمد جنید زاہد۔چشتیاں 


    ایک تسبیح میں سارے دانے ایک ترتیب میں جیسےجڑے ہوتے ہیں۔اسی طرح اچھےسسٹم کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو آپس میں جوڑ کے رکھے۔ 

    سسٹم کی تشکیل میں تین بڑے ادارے کردار ادا کرتے ہیں: مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ

    ان تینوں اداروں میں جتنا اچھا نظم و ضبط ہوگا، انسانیت کی فلاح کے لیے قانون سازی ہوگی اور اس کے مطابق عدلیہ اور انتظامیہ اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیں گے تو ملک  ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائےگا۔

    لیکن آج زوال کے دور میں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان تینوں اداروں کو انسانی بنیادوں اور معروضی حالات کے مطابق چلانے کا نظم و نسق سرے سے ناپید ہے۔انگریز سامراج نے ان تینوں اداروں کی بنیاد ہی سرمایہ دارانہ نظام یعنی کیپٹل اِزم کے مطابق رکھی تھی،جو اپنی اساس کے لحاظ سے طبقاتی ہے جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔

    مقننہ کاادارہ قانون سازی کے لیےبنایا جاتا ہے، جس میں عوام کے لیے قانون بنائے جاتے ہیں تاکہ ان کے مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔

    لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے، غریب عوام کے مسائل کا حل تو دور کی بات، اس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی۔ کیوں کہ اس کی بنیاد سرمایہ پرستی پر رکھی گئی ہے نہ کہ محنت کی بنیاد پر۔کیپٹل اِزم میں سرمایہ یعنی زر اصل اور انسان اس کے تابع ہے۔ اسی Miss concept  اور غلط قا نون کی وَجہ سے پورا معاشرہ زوال کا شکار ہوگیا ہے۔

    یہود و نصاریٰ نے مذہب کا ہر وہ قانون جو ان کے دنیاوی گروہی نفادات( سیاسی و معاشی) میں رکاوٹ ثابت ہوتا تھا، ا سے مسخ کر دیا ۔یا اس میں تحریف کر دی اور ایسے لالچ میں مبتلا ہوگئے کہ ان کو سرمایہ کی ہوس نے آخرت کی فکر سے دورکردیا۔

    آج بھی جن جن ممالک پر انگریز سامراج کا تسلط ہے، وہاں یہی کیپٹل اِزم نظام کے غلبہ کی وَجہ سے اخلاقی گراوٹ اور معاشی تنگ دستی کا عالم ہے۔ اس کیپٹل اِزم سسٹم کے چیدہ چیدہ نکات یہ ہیں۔

    1۔ سرمایہ اصل ہے، انسان سرمایہ کے تابع ہے ۔

    2۔ دولت کے ذرائع پر مخصوص لوگوں اور ملٹی نیشنل کمپنیز کا تسلط ہے۔

    3۔ پیداوار کا فائدہ پرائیویٹ اداروں کو ہو نہ کہ عوام کے فائدے میں ہو۔

    4۔ ان مقاصد کو پورا کرنے کے لیے ایسا طرزحکومت بنایا جائے، جس سے سرمایہ کی حفاظت ہو سکے۔

    سرمایہ دارانہ نظام کے ان ظالمانہ اصولوں کو جب ہم دیکھتے ہیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس کے ذریعے سے دولت صرف چند مخصوص ہاتھوں میں سمٹ جاتی ہے اور ایک مخصوص طبقے کے پاس دولت کی فراوانی ہونے کی وَجہ سے قدرت نے دنیا میں جو توازن قائم رکھا ہے، وہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اور بداخلاقی ،معاشی تنگ دستی، خوف و ہراس اور بدامنی کی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔

    اسی حوالے سے امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے فرمایا تھا: سوسائٹی میں معیشت کی مثال انسانی جسم میں خون کے مترادف ہے، جیسے اگر کسی حصہ میں خون جم جائے تو وہ حصہ ناکارہ ہو جاتا ہے۔ کینسر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اور اگر جسم کے کسی حصے کو خون کی سپلائی نہ پہنچے تو وہ فالج زدہ ہوجاتا ہے۔بالکل ایسے ہی جن افراد کے پاس دولت کی فراوانی ہوتی ہے ،وہ عیش و عشرت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اور جن تک دولت نہیں پہنچ پاتی وہ چوری چکاری اور ڈاکہ زنی جیسے بداخلاقی کے امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

    مندرجہ بالا سرمایہ دارانہ نظام کے اصولوں کو دیکھا جائے تو آج پوری سوسائٹی پر پرائیویٹ اداروں اور ملٹی نیشنل کمپنیز کا راج ہے، جس کی وَجہ سے دنیا کی آدھی سے زیادہ دولت تین چار سو افراد کے ہاتھ میں آ چکی ہے ۔اور وہ ان ملٹی نیشنل کمپنیز کے جال کے ذریعے سے دنیا کے نظاموں کو اپنے شکنجے میں کیے ہوئے ہیں۔سوائے تھوڑی سی اقلیت کے باقی اکثریت تنگ دستی میں مبتلا ہے ۔انھیں ہر وقت معاشی فکر اندر ہی اندر کھائے جا رہا ہے۔

    یہی سامراج اَب نئی الیکٹرونک ایجادات کے ذریعے سے نت نئے حربے استعمال کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے، جن میں سےایک کرپٹو کرنسی آج اہمیت اختیار کرتی جارہی ہے۔ ایسا تیاریاں کی جارہی ہیں کہ آنے والے دور میں ملکوں کی معیشت کواور ذرائع کے علاوہ  اس کرپٹو کرنسی کے ذریعے سے کنٹرول کیا جاسکے۔اور بڑے بڑے ہیکرز کے ذریعے سے معیشت کو لوٹ کر وہاں کے ملکوں کو اپنا غلام بنایا جائے گا۔

    قیصر و کسریٰ کے حکمرانوں میں بھی اسی طرح کی عیش پرستی اور نشہ میں مبتلا لوگ تھے۔جو اپنی عیاشیوں کو پورا کرنے کے لیے کسانوں، مزدوروں کاشت کاروں پر بھاری ٹیکس لاگو کرتے اور ان پر ظلم و ستم جاری رکھتے اور صرف زندہ رہنے کے لیے خوراک دیتے۔ تاکہ اگلے دن وہ ان کے لیے دوبارہ کام کرسکیں۔

    آج کے دور کا تجزیہ کریں تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ امرا، وزرا اپنی عیش پرستانہ زندگی کے لیے مزدوروں اور کسانوں پر بےجا ٹیکس لگاکر،ان کا استحصال کرتے دکھا ئی دیتے ہیں۔

    دعا ہے کہ اللہ ہمیں سرمایہ دارانہ نظام کے غلط اصولوں کو سمجھنے اور ان سے نبردآزما ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور علمائے حق کی رہنمائی میں استقامت کے ساتھ غلبہ دین کے نظریہ سے جڑے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!

    Share via Whatsapp