سماجی ترقی میں ہمارا کردار
ہمارا تعلیمی نظام ہمیں انفرادیت پسند بناتا ہے ۔لیکن سماج کو ترقی دینے کے لئے ہمیں اجتماعی بنیادوں پر اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا
سماجی ترقی میں ہمارا کردار
سعد میر۔ راولپنڈی
ہمارے معاشرے کا ایک صحت مند انسان تقریباً 25000 دن زندگی بسر کرتا ہے، یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجیے کہ وہ 2 ارب سے زیادہ لمحات گزارتا ہے۔بس سینکڑوں لمحات ہی ایسے ہوتےہیں جو یادداشت سے جڑ کر کچھ برس اپنا سفر طے کرتے ہیں۔ ہاں! کچھ یاداشتیں ایسی طاقت ور ہوتی ہیں کہ لمحات کو ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی عطا کر کے انسان کی شخصیت پر گہرے نقوش قائم کر دیتی ہیں ۔
وہ یادداشت جب آتی ہے اور انسان اس لمحہ میں واپس جاتا ہے تو گویا کہ انسان ایک متوازی کائنات میں وقت کو اپنے قابو میں لے لیتا ہے۔ایسی ہی ایک یادداشت میرے اسکول کے ایک لمحے کی ہے ۔ اردو کی ایک ٹیچرکے کچھ الفاظ میرے ذہن میں اپنا مستقل گھر کر گٰئے ۔ اگلی نشستوں پر بیٹھے کلاس کے سب سے زیادہ نمبر لینے والے طالب علموں سے مخاطب ہوکر ٹیچر کہتی ہیں کہ زندگی کا مقصد یہ نہیں کہ بس نمبر کے مقابلہ کی دوڑ میں تھکا جائے، بلکہ (ایک طالب علم کا نام لے کر کہتی ہیں کہ) زندگی کو اس کی طرح گزاریں۔ وہ طالب علم اچھے نمبر لیتا ہے، لیکن پہلی پوزیشن کو سر پر سوار نہیں کرتا، اس کے علاوہ وہ غیرنصابی سرگرمیوں میں شامل رہتا ہے اور رضاکارانہ طور پر امدادی کاموں میں بھی حصہ لیتا ہے۔
مختصر سی اس تقریر میں گویا انھوں نے زندگی گزارنے کا سلیقہ بتا دیا۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اس وقت تک کی زندگی میں کبھی کسی نے اس نظریہ سے ہمیں رہنمائی نہیں دی تھی۔اور تب تک ہم سب کے دماغ پختہ ہوچکے تھے۔ انفرادیت اس تعلیمی نظام نے ہمارے خون میں شامل کردی تھی۔ بس ایک ہی مقصد کہ زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کر کے پہلی پوزیشن حاصل کرنی ہے اور بس۔ اور یہ کوئی ہمارے اسکول کی کہانی نہیں، بلکہ ہمارے ملک کی تمام درس گاہوں سے نوجوان اسی انفرادی سوچ کے ساتھ پیشہ ورانہ زندگی میں داخل ہوتے ہیں۔ کیوں کہ ہمارے معاشرے کی تشکیل جن اصولوں کی بنیاد پر ہوئی ہے، اس میں افرادی قوت ہی ایسی درکار ہے جو بس اپنا بھلا سوچے اور آس پاس کے ماحول سےبے خبراپنے ذاتی مفادات کے حصول میں مگن رہے۔
آپ اپنے اردگرد اداروں میں موجود افراد کا اور ماحول کا تجزیہ تو کریں، ہر کوئی ان اداروں کی جانب سے دیے گئےشخصی اہداف کو حاصل کرنے میں مگن ہے۔ اور اسی وجہ سے اداروں میں اکٹھے کام کرنے والے افراد ہی آپس میں بغض، حسد اور کینہ جیسے اخلاقی امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اور اگر کہیں کسی ٹیم کی صورت میں کام کرنے کی کوئی صورت دکھائی بھی دے گی تو بھی اس کے پیچھے اپنا ذاتی مفاد ہی ہوگا، جس کی لالچ اس ادارہ یا کمپنی کی انتظامیہ نے آپ کو دی ہوگی۔ اس ادارہ کے مالکان ایسی پالیسیوں اور طریقہ کار کا انتخاب کرتے ہیں، جس سے تمام افراد اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کر دیتے ہیں۔ اور ان کو افراد ہی ایسے چاہییں جو ان کے ادارے اور اس کی کامیابی کو ہی اپنی زندگی کا مقصد سمجھیں اور تمام وقت اور توجہ بس اسی طرف مرکوز رکھیں۔
آپ معاشرے کابغور جائزہ لیں اور دیکھیں ہم سب مجموعی طور پر ایسے ہی اخلاقی امراض کے ساتھ اس ملک میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمارا سماج دن بدن تنزلی کی طرف جا رہا ہے، لیکن اپنی ذاتی ترقی کا ہدف ہماری آنکھوں پر پٹی باندھے ہوئے ہے۔ ہمارے ملک کا تعلیمی و تدریسی نظام ایسا بنایا ہی نہیں گیا جو ہمیں معاشرے کی بہتری و ترقی کے لیے اجتماعی بنیادوں پر اپنے ہم وطنوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے قابل بنائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر افراد اس سماج کی بہتری کے لیے کوئی عملی قدم اٹھانے یا ذمہ داری لینے کی سوچ ہی نہیں رکھتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارے ملک کا انتظام اب بھی ان ہی کے ہاتھوں میں ہے جو انگریز کے زمانہ سے ہی ہم پر مسلط ہیں۔ دینی تعلیمات ایک ایسا راستہ تھا جو ہمیں اس قابل بنا سکتا تھا کہ ہم دنیا و آخرت کی کامیابی کے لیے مل کر جدوجہد کرتے ۔ ہمیں نظریہ دیتا کہ کیسے ہم اپنی خاندانی ذمہ داریاں احسن طریقہ سے نبھانے کے ساتھ ساتھ اپنے معاشرے کو بہتری کی منازل طے کراسکتے تھے۔ لیکن جیسے اسکول و کالج کے ذریعے ہمیں ناکارہ بنادیا گیا، ویسے ہی ہمیں دینی تعلیمات بھی ایسے انداز میں پیش کی گئیں جس کا معاشرے سے کوئی جوڑ ہی نہیں۔ بس کچھ عبادات کا تعارف اس طرح کروایا گیا کہ ان کے فضائل و ثواب کا تعلق صرف مرنے کے بعد کی زندگی کے ساتھ ہے ، دنیوی زندگی سے ان کا کوئی سروکار نہیں ہے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی یادداشتوں کو کنگھالیں۔ کہیں نہ کہیں ایسا لمحہ نکل آئے گا، جس میں زندگی گزارنے کا سلیقہ ہمارے سامنے آیا تھا۔ اس کو نقطہ آغاز بنائیں اور معاشرے کی بہتری کے لیے اجتماعی جدوجہد کرنے کا ارادہ کریں۔