اسلامی تعاون تنظیم کا پاکستان میں اجلاس - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • اسلامی تعاون تنظیم کا پاکستان میں اجلاس

    اس تنظیم کے قیام کا مقصد دنیا میں مسلمان ممالک کے حقوق کا تحفظ اور مسلم دنیا کو درپیش مسائل و چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک متفقہ پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے

    By Jaffar Hussain Published on Feb 06, 2022 Views 766
    اسلامی تعاون تنظیم کا پاکستان میں اجلاس
    تحریر: جعفر حسین اعوان۔نوشہرہ 

    اسلامی تعاون تنظیم کا اجلاس 19 دسمبر 2021ء کو پاکستان میں منعقد ہوا۔اس تنظیم کے قیام کا مقصد دنیا میں مسلمان ممالک کے حقوق کا تحفظ اور مسلم دنیا کو درپیش مسائل و چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک متفقہ پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے، مگر بدقسمتی سے آج تک اس پلیٹ فارم سے نہ تو کسی مسلم ملک کا کوئی مسئلہ حل ہوا، اور نہ کبھی اس تنظیم نے مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی عملی کردار ادا کیا ہے۔ اس تنظیم کی ساری دوڑ دھوپ صرف قراردادیں منظور کرنے، تصویر سازی اور زبانی جمع خرچ کرنے تک محدود ہے۔ 
    21 اگست1969ء کو مسجد اقصی پر یہودی حملے کے ردعمل میں یہ تنظیم وجود میں آئی۔ 25 ستمبر کو مراکش کے شہر رباط میں او آئی سی (آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن ) کی بنیاد پڑی، جس کا مقصد تمام مسلمان ممالک کے حقوق کا تحفظ ہے۔ اس کے بعد بہت عرصے تک غیرفعال رہنے کے بعد جب مشرقی پاکستان کا سقوط ہوگیا تو 1974ء میں لاہور میں اس کا دوسرا اجلاس منعقد ہوا۔ اور اس میں تمام ممالک کے تحفظات کو سامنے رکھا گیا اور اکٹھے قدم بڑھانے کے لیے ایک پالیسی مرتب کی گئی۔ اب تک اس تنظیم کے 16 اجلاس منعقد ہو چکے ہیں۔ حال ہی میں اس کا 16 واں اجلاس پاکستان میں منعقد ہوا۔ جو افغانستان کی بری معاشی حالت پر تمام اسلامی ممالک کو یکجا کرنے کے لیے بلایا گیا۔ اس میں 17 ممالک کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی اور کئی ممالک نے اپنی نمائندگی کے لیے اپنے نائبین بھیجے۔ 
    پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے جمعہ کو او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے غیرمعمولی اجلاس کے اغراض و مقاصد کے حوالے سے مقامی اور بین الاقوامی میڈیا نمائندگان کو بریفنگ دی۔
    شاہ محمود کے مطابق او آئی سی وزرائے خارجہ کے اجلاس کے ذریعے عالمی برادری کو افغانستان کی حقیقی صورت حال سے آگاہ کرناتھا اور اس کانفرنس کا مقصد لاکھوں افغان شہریوں کی انسانی بنیاد پر فوری امداد کے لیے لائحہ عمل تشکیل دینا تھا، تاکہ افغان عوام کو مشکلات سے نکالنے کے لیے آگے بڑھا جاسکے-
    انھوں نے کہا کہ اجلاس کا مقصد طویل لڑائی کے بعد عدم استحکام کے شکار ملک میں ابھرتے ہوئے انسانی المیہ کو روکنے کے اسباب پیدا کرنا ہے۔
    دوسری طرف اسی دن انڈیا میں بھی ایک مکالمہ رکھا گیا، جس کا مدعا بھی افغانستان کاموجودہ بحران تھا. اس اجلاس میں تاجکستان،قزاقستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ شریک رہے۔ تاہم ان ممالک کے وفود نے پاکستان میں ہونے والے اجلاس میں اپنے اپنے ممالک کی نمائندگی بھی کی تھی۔
    یہ وہ ممالک ہیں، جن کے بارڈر افغانستان سے ملتے ہیں اور یہ ممالک انڈیا سے بھی مدد لینے کے خواہاں ہے۔ یوں یہ پاکستان کے او آئی سی اجلاس کا جواب تھا-غور طلب امر یہ ہے کہ افغان مسئلہ پر سب ممالک اچانک کیسے حرکت میں آگئے؟ 
    پاکستان نے ماضی میں بھی افغانستان کی صورتِ حال پر او آئی سی کے اجلاس کی میزبانی کی ہے۔افغانستان کے ایک سابق نائب وزیرخارجہ محمود صیقل نے ٹوئٹر پر کہا کہ" سنہ 1980ء میں افغانستان میں سوویت مداخلت پر بھی پاکستان نے اوآئی سی وزرائے خارجہ اجلاس کی میزبانی کی تھی، مگر اس بار اوآئی سی کے کسی غیر جانب دار رکن کو اجلاس کی میزبانی کرنی چاہیے تھی"۔
    مندرجہ بالا افغان وزیرخارجہ محمود صقیل کی خواہش کے اظہار سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ افغانستان بھی ہندوستان کی میزبانی کی خواہش رکھتاتھا ۔ اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ سامراجی قوتوں کے مفادات آج بھی اس خطے سے وابستہ ہیں، اس لیے وہ اس خطے کو آج بھی اپنے زیردست رکھنا چاہتاہے ۔ ورنہ اچانک کیسے پاکستان سمیت سارے ممالک افغانستان کے لیے ایک صفحہ پر آگئے اور افغانیوں کی داد رسی کی چاہت کا اظہار کرنے لگے۔ 
    اجلاس کے اختتام پر پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ: 
    اجلاس میں 20 ممالک، 70 وفود اور 437 مندوب شامل تھے۔ شاہ محمودقریشی کا کہنا تھا کہ اس اجلاس کے دوران افغانوں کو سنا گیا ہے۔
    انھوں نے سعودی عرب کی خصوصی کاوش کا شکریہ ادا کیا، نیز ان کا کہنا تھا کہ وہ اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل کے بھی شکر گزار ہیں۔
    شاہ محمودقریشی کے مطابق اجلاس میں اس بات کو بھی اجاگر کیا گیا کہ ’ہمارا افغان انتظامیہ سے اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن ہم نے افغانستان کی تین کروڑ 80 لاکھ آبادی کو نظرانداز نہیں کرنا۔‘
    پاکستانی وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ اجلاس میں افغانستان کے حوالے سے درج ذیل نکات پر اتفاق کیا گیا ہے: 
    اجلاس انسانی امداد کے لیے ٹرسٹ فنڈ کے قیام پر متفق ہے۔
    کووڈ 19 کی صورت حال پر قابو پانے کے لیے او آئی سی کا سیکرٹریٹ عالمی ادارہ صحت سے رابطہ کرکے افغانستان کے لیے ویکسین حاصل کرے گا۔
    تمام شرکا نے افغانستان کے لیے فوڈ سیکیورٹی پروگرام پر اتفاق کیا ہے۔
    شرکا نے افغانستان کے بینکنگ چینلز کو بحال کرنے پر اتفاق ظاہر کیا ہے۔
    افغانستان کے لیے او آئی سی کے خصوصی نمائندے کی تعیناتی پر اتفاق کیا گیا ہے۔
    او آئی سی اور اقوام متحدہ کے اداروں کے درمیان افغانستان میں کام کے حوالے سے تعاون کا نظام قائم کیا جائے گا۔
    اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ عالمی پابندیوں کو انسانی امداد کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔
    ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان تمام تر خواہش کے باوجود افغانستان کے مسائل پر تنہا قابو نہیں پا سکتا۔ اس کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو بھی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
    بھارت میں ہونے والی افغانستان کے موضوع پر کانفرنس پر وزیر خارجہ نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ دو روز قبل ترکمانستان کے وزیرخارجہ سے کہا کہ آپ افغان کانفرنس پر دہلی جا رہے ہیں تو بھارت سے کہیں کہ اپنا منفی رویہ ترک کر دیں اور مثبت رویہ اپنائیں۔ بھارت سمجھتا تھا کہ افغانستان گندم بھیجنے کے حوالے سے پاکستان اجازت نہیں دے گا، لیکن پاکستان نے اس کے برعکس انھیں اجازت دی۔
    مذکورہ تمام صورت حال اور تاریخی حقائق کی روشنی میں جب تجزیہ کیا جائے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب بھی فرقہ وارانہ بنیادوں پر کسی مملکت کی تشکیل کی گئی ہے تو وہ ملک سیاسی بدامنی، معاشی بدحالی اور معاشرتی گروہیت و فرقہ واریت کا شکار ہوگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ قومی واجتماعی جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آنے والے ممالک کی آزادی اورامن برقرار رکھنے کےلیے ہمیشہ ایک اعلی تربیت یافتہ قومی ذہنیت کی حامل جماعت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اگر افغانستان کے معاملے کا جائزہ لیا جائے تو ملک کی تشکیل نو حقیقی قومی اجتماعی بنیادوں پر قائم نہیں کی گئی ہے اور دوسری طرف سیاسی، معاشی اور عصر حاضر کے چیلنجز سے نمٹنے والی اجتماعیت کا بھی شدید فقدان نظر آتا ہے۔ 
    دوسری بات یہ کہ ہندوستان اور پاکستان کے ہاتھوں سامراج کیسے آج بھی افغانستان کو اپنی طرف دھکیل رہاہے کہ آج حکومت حاصل کرنے کے بعد بھی افغان حکومت باہر کی امداد کی منتظر ہے۔ بیرونی امداد اور قرضے اس لیے حاصل کیے جاتے ہیں کہ ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹا جا سکے اور ترقیاتی کام کرکے ملک کو معاشی بحرانوں سے نکالا جائے۔مگر موجودہ افغان حکومت کی پالیسی اس بابت واضح نہیں ہے-
     افغان قیادت کو چاہیے کہ ایک قومی حکومت کی بنیاد رکھے، جس میں تمام افغانوں کی نمائندگی ہو۔اسی صورت تباہ حال معیشت کی دلدل سےافغانستان کونکالا جاسکتاہے-
    Share via Whatsapp