صدارتی نظام کا شوشہ
صدارتی نظام ،پارلیمانی نظام کے بر عکس طاقتور طریقے سے ملکی نظام کو چلانے کے تقاضے کے مطابق منظر عام پر آنے والا ایک طرز ِ حکومت ہے
صدارتی نظام کا شوشہ
محمد حارث خان یوسفزئی۔راولپنڈی
آج کل مختلف ٹی وی چینلز پر صدارتی نظام کی اصطلاح زیر بحث ہے۔ آخر یہ صدارتی نظام کیا ہے؟ کیا یہ واقعتاً امور حکومت چلانے کا کوئی مختلف طریقہ ہے؟ یا محض نام کی تبدیلی ہے؟
اس کو جاننے سے پہلے حکومت اور ریاست کے درمیان فرق سمجھنا ضروری ہے۔اس کا مختصر تعارف پیش ہے۔ حکومتی نمائندے چوں کہ عوامی ووٹ کے ذریعے 5 سال کے لیے آتے ہیں اور ان کا کام مفادعامہ کے لیے قانون سازی کرنا ہوتا ہے اور ان عوامی نمائندگان کی ٹیم کو حکومت کہتے ہیں۔ اور حکومت کے بنائے گئے قوانین پر عمل درآمد کرانے والے مستقل ادارے بیوروکریسی کہلاتے ہیں۔ اور یہ تمام ادارے سرکارکےکارندے چلاتے ہیں۔ مثلا پولیس، واپڈا، ریلوے وغیرہ وغیرہ۔
یہ تمام ادارے ریاست کا حصہ ہوتے ہیں۔ حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں، لیکن ریاستی ادارے مستقل اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ حکومت بذات خود ریاست کا حصہ ہوتی ہے۔ حکومت کی سربراہی وزیراعظم کرتا ہے اور ریاست کا سربراہ صدر ہوتا ہے۔
صدارتی نظام میں صدر، حکومت اور ریاست بیک وقت دونوں کا سربراہ ہوتا ہے۔ چین میں یہ یک جماعتی نظام سے مختلف نظام ہے، کیوں کہ اس میں صدر جمہوری طریقہ سے ہی عوامی ووٹ کے ذریعے منتخب ہو کر آتا ہے، جس کو عام حالات میں پارلیمنٹ (مقننہ) برطرف نہیں کرسکتی۔ صدارتی نظام میں صدر کا انتخاب براہِ راست عوام کرتے ہیں۔ اس سے صدر کی طاقت بالواسطہ طور پر مقرر کیے گئے رہنما کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ تاہم یہ صدارتی نظام کی لازمی خصوصیت نہیں ہے۔
کچھ صدارتی نظام کی حا مل ریاستوں میں بالواسطہ طور پر منتخب شخص سربراہ مملکت ہوتا ہے۔ صدارتی نظام ایوان صدر اور مقننہ کو دو متوازی ڈھانچوں کے طور پر قائم کرتا ہے۔ یہ ہر ڈھانچے کو دوسرے کی نگرانی اور جانچ کرنے کی اجازت دیتا ہے، طاقت کے غلط استعمال کو روکتا ہے۔ محتسب ادارہ صدر کے ذریعے اختیارات کے غلط استعمال کو کنٹرول کرسکتا ہے، لیکن یہ ان معاملات اور کارروائی میں رکاوٹ بھی بن سکتا ہے، جن کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک صدر، ایک مقررہ مدت کی وجہ سے وزیراعظم سے زیادہ استحکام فراہم کرسکتا ہے۔ کیوں کہ وزیراعظم کو کسی بھی وقت برطرف کیا جاسکتا ہےاور وہ پارلیمینٹ کے ممبرز کے ہاتھوں بلیک میل ہوتارہتا ہےاور جب کولیشن گورنمنٹ ہوتو یہ صورتحال مزید پیچیدہ ہوجاتی ہے۔ صدر اپنی ٹیم اپنی پارٹی کی مشاورت سے خود ترتیب دیتا ہے۔
جہاں اس نظام کے مذکورہ بالا فوائد ہیں، وہیں ذیل میں کچھ اہل علم صدارتی نظام کے نقصانات گنواتے ہیں کہ یہ نظام انتخابات کو داؤ پر لگا دیتا ہے، مملکت کو یک قطبی بناتا ہے اور آمریت کا باعث بن سکتا ہے۔ صدارتی نظام اکثر صدر کو جلد از جلد عہدے سے ہٹانا مشکل بنا دیتے ہیں، مثال کے طور پر ایسے اقدامات جنھیں عوامی حمایت حاصل نہ ہو اور جس کے باعث صدر عوام میں غیرمقبول ہوجائے-
اس وقت دنیا میں کئی ممالک میں مکمل صدارتی نظام موجود ہے جو کامیابی سے چل رہا ہے اور کئی ممالک میں وزیراعظم کے ساتھ صدارتی نظام موجود ہے۔ صدارتی نظام میں صدر کو منتخب کرنے کے طریقہ کار مختلف ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح صدارتی نظام کے تحت حکومتی ڈھانچہ بھی مختلف ممالک میں مختلف ہوسکتا ہے، لیکن بنیادی اور اصولی طور پر سربراہ صدر ہی ہوتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اس کے علاوہ بھی مختلف نظام حکومت موجود ہیں، جیسے بادشاہت، عسکری ڈکٹیٹرشپ، پارلیمانی نظام اور یک پارٹی نظام وغیرہ۔
آجکل وطن عزیز میں بھی صدارتی نظام کی گونج ہے اور نہ صرف وطن عزیز میں، بلکہ پڑوسی ملک جو ہمارے ساتھ ہی برطانوی سامراج سے آزاد ہوا تھا، وہاں بھی صدارتی نظام کی صدائے بازگشت ہے۔ دونوں ملکوں نے اپنے ہاں موجود پارلیمانی طریقہ حکومت، برطانوی طرز پر قائم کیا تھا۔ آج ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ہی اس طریقے سے یا اس کے ترتیب دیے گئے ڈھانچے کی فرسودگی کو مزید برداشت نہیں کر پارہے اور خطے میں موجود دیگر قوتوں کی طرح صدارتی نظام کی طرف گامزن ہیں۔
لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ خطے کے ان ممالک میں صدارتی نظام تو ہے، لیکن سرمایہ داریت نہیں۔اور ان کا شمار آزاد اقوام میں ہوتا ہے۔ جب کہ پاکستان میں مسئلہ کی اصل جڑ سرمایہ دارانہ نظام اور عالمی سامراجی طاقتوں کی غلامی ہے۔ قیام پاکستان سے اب تک وطن عزیز میں زیادہ عرصہ صدارتی نظام ہی نافذ رہا۔لیکن صدارتی نظام ہو یا پارلیمانی نظام عوام کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔پاکستان میں صدارتی و پارلیمانی نظام کا تعین عالمی طاقتیں اپنے سامراجی مقاصدکی تکمیل کے لیےکرتی رہی ہیں۔نیز پاکستانی سیاست نعروں کی آڑ میں اصل ایشوز سے توجہ ہٹانے اور سہانے خواب دکھانے کا کھیل ہے۔جو ایک طویل عرصہ سے عوام کے ساتھ کھیلا جارہا ہے۔
جب کہ موجودہ حالات کا ذمہ دار تو 74 سال سے نظام پر قابض گدھ صفت سرمایہ دارطبقہ،آلہ کار سیاست دان اور مغرب زدہ بیوروکریسی ہے۔ جنھوں نے وطن عزیز کی بوٹی بوٹی نوچ کھائی۔ درحقیقت امورحکومت چلانے کے لیے طریقہ انتظام صدارتی نظام ہو یا پارلیمانی نظام ہو۔اس سے زیادہ اہم داخلی طور پر سرمایہ دارانہ نظام سے نجات اور عالمی سطح پر سامراجی غلامی سے نجات ہے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ نوجوان نظام کا شعور حاصل کریں۔ تاکہ پروپیگنڈے اور نعروں کی سیاست کی لپیٹ میں نہ آئیں۔اور ملک میں حقیقی تبدیلی اور آزاد قومی اور عادلانہ نظام کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر سکیں ۔