صبر کی حقیقت - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • صبر کی حقیقت

    دین کی روشنی میں صبر کو سمجھنا

    By علي محمد Published on Jan 29, 2022 Views 2420

    صبر کی حقیقت

    تحریر حافظ علی محمد گدارو۔ بے نظیر آباد (نواب شاہ) 


    اللہتعالیٰ نے انسان کو فطری طور پر بہترین خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ آزادی انسان کی فطرت میں شامل ہے۔بااخلاق ہونا، صبروتحمل سے وابستہ رہنا، نڈر اور بہادر بننا، سچائی و خلوص جیسی صفات انسان کی فطرت میں داخل ہیں۔ 

    صبر ایک آزمائشی خلق ہے، جس سے اللہ تعالیٰ اپنے مخلص بندوں کو آزماتا ہے۔ انسانیت کی فلاح و بہبود اور انسانوں کے فطری لوازمات کو معاشرے میں قائم رکھنے کے لیے جدوجہد اور کوشش کرنا، انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ 

    اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی فطرت پر پیدا کیا ہے۔جس معاشرے میں، وہ خصلتیں باقی نہ رہیں، جن پراللہتعالیٰ نے انھیں پیدا کیا ہے تو پھر وہ انسان، انسانیت کے منصب سے گر جاتے ہیں۔ کچھ اللہ کے بندے ضرور ایسے ہوتے ہیں جو انسان کو اس کے حقیقی مقصد پر قائم رکھنے کے لیے جدوجہد اور کوشش کرتے ہیں۔ 

    صبر کا مفہوم

    انسان کو اپنی فطرت قائم رکھنے میں جو رکاوٹیں پیش آتی ہیں، ان رکاوٹوں کو عبور کرنا اور اپنا فریضہ ادا کرنے کے لیے تکالیف برداشت کرنا صبر کہلاتا ہے۔ 

    صبر کے مفہوم کی غلط صورتیں

    موجودہ دور میں صبر کی حقیقت کو صحیح انداز میں نہیں سمجھا گیا۔ 

    1۔ کوئی شخص کسی پر بلاوجہ زیادتی کرے، نظام مار کھانے والے کو بدلا نہ دلائے اور وہ بے چارگی کے سبب اپنے آپ کو اس سے محروم پائے تو یہ سرمایہ داریت کا پیش کیا ہوا صبر ہے۔ 

    2۔ کوئی شخص کسی کی دوکان یا مکان پر قبضہ کرلے، کسی کے سرمائے کو ہتھیالے، کسی کا کوئی حق کھالے تو لٹے ہوئے شخص کو صبر کرنا چاہیے اور اپنے حق سے دست بردار ہوجانا چاہیے۔ کیوں کہ یہ دنیاداری ہے۔ ان چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے لڑنا جھگڑنا گناہ ہے۔ یہ موجودہ دور کے سرمایہ داری نظام کا پیش کردہ صبر ہے۔

    اللہ تعالیٰ کی فطرت پر پیدا کیا ہوا شخص عدل و انصاف کا متمنی ہوتا ہے، جس کسی کی تھوڑی سی چیز پر بھی قبضہ ہوجائے تو اسے ناجائز قبضہ چھڑانا چاہیے۔ 

    کسی قوم کے ملک پر کوئی دوسری قوم قبضہ کرلے اور اس کو غلام بنا لے تو وہ قوم اپنے ملک کو پچانے کے لیے دشمن سے مقابلہ کرے تو اس قوم کے چند افراد اپنے ملک کو بچاتے ہوئے مارے جائیں تو وہ شہید کہلاتے ہیں۔اور اگر وہی شخص یا قوم اپنے گھر کو کسی کے قبضہ سے خود سے آزاد کراتے ہوئے، مارا جائے تو دنیاداری ہے، یہ دین کی حقیقی تعلیم نہیں ہے۔ ہاں! اسے انسانوں سے آزادی کی حقیقی روح ختم کرنے کا پروپیگنڈا ضرور کہا جاسکتا ہے۔ 

    حقیقت میں دنیاداری تو یہ ہے کہ ظلم کی بنیاد پر کسی کا حق کھایا جائے، سود کھایا جائے، ذخیرہ اندوزی اور اشیا میں ملاوٹ کی جائے، ناپ تول میں کمی اور دو نمبر کے مال کو ایک نمبر کا بول کر مارکیٹ میں بیچا جائے، مزدوروں کو ان کی جائز مزدوری نہ دی جائے۔ یہ سب دنیاداری یعنی دین کے خلاف امور ہیں۔ ظلم اور اللہ کی ناراضگی کا سبب ہیں۔ 

    آج کے دور کی ضرورت

    صبر اجتماعی طور پر ظلم کے خلاف جدوجہد اور کوشش کا نام ہے۔ اس لیے ان مظالم سے نجات حاصل کرنے کے لیے ظلم کے خلاف نظریہ اپناتے ہوئے، وقتی طور پر دشمن کی ناانصافیوں پر صبر کرتے ہوئے، اعلیٰ سوچ اور اور ہم خیال احباب کی اجتماعیت قائم کی جائے جو اس ظالمانہ نظام کا مقابلہ کرے اور اس نظام سے اپنا حق حاصل کرے۔ 

    اللہ تعالیٰ اس سفر میں ہمارا حامی و ناصر ہو۔

    Share via Whatsapp