تبدیلی کا تشنہ لب خواب
صحیح معنوں میں تبدیلی اس وقت ممکن ہے جب سسٹم کو تبدیل کیا جائے ورنہ یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا۔
تبدیلی کا تشنہ لب خواب
تحریر: تنویر احمد سلہریا، مانسہرہ
وطن عزیز پاکستان میں پچھلے چوہتر سالوں سے بدقسمت عوام کو ایک خواب دکھایا جا رہا ہے جو کبھی پورا نہیں ہوا۔ وہ ہے تبدیلی کا خواب! پر امید رہنا قطعاً بری بات نہیں، مگر خوش فہمی میں مبتلا رہنا یقیناَ نفسیاتی بیماری ہے۔اب تک پاکستان میں جتنے بھی حکومتی ادوار گزرے ہیں، ان کی بابت عوام کا ردعمل ہمیشہ یکساں رہا ہے وہ یہ کہ اس دور کی موجودہ حکومت سے تنگ اور پچھلی حکومت کو بہتر سمجھنا، اسی طرح جب اگلی حکومت آئی تو اس سے تنگ اور اس سے پہلے وہ جسے مشکل سے برداشت کر رہے تھے، اسے بہتر سمجھنا۔ اسی طرح عوام کو پر امید رکھنے کے لیے نظام ہر دور میں کسی شخصیت یا کسی پارٹی کو نئےنعرے اور القاب کے ساتھ سامنے لا کھڑا کرتا ہے اور سادہ لوح عوام تبدیلی کا خواب دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہی چوہتر سالوں کی کہانی ہے۔ موجودہ حکومت نے تبدیلی کے نعروں اور دعووں کی تو انتہا کر دی تھی اور ایسی فضا قائم کردی تھی، جہاں کوئی یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ تبدیلی کے راستے میں اب کوئی رکاوٹ ہوگی، مگر اس تبدیلی کے سحر سے نکلنے میں زیادہ عرصہ نہیں لگا۔ ابتدائی دو سالوں میں یہ تبدیلی ڈراؤنا خواب بن چکی تھی، مگر تیسرے سال میں تو چیخیں ساتویں آسمان تک سنائی دیتی ہیں اور عوام کی اکثریت اس تبدیلی سے پناہ مانگتے دکھائی دیتے ہیں ۔
ہمیں سنجیدگی کے ساتھ سوچنا ہوگا کہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ کیوں ہم بہتری کی طرف جانے کے بجائے پستی اور ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتے چلے جاتے ہیں؟ ہم اگر غیر جانب داری کے ساتھ اپنی تاریخ پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ آزادی کے شروع کے دنوں میں ہمارے اخلاقی اور سماجی حالات آج کی بہ نسبت بہتر تھے، مگر جوں جوں سفر آگے بڑھا ان میں کمی آتی گئی، اور آج حالت یہ ہے کہ باوجود تعلیمی اداروں میں اضافے کے، تعلیمی پستی اور زیادہ ہے، معاشی وسائل اور اداروں کی تعداد زیادہ ہے، لیکن غربت و افلاس اور معاشی تنگ دستی، امارت و غربت اور طبقہ واریت میں فرق بھی زیادہ ہے۔ حکومتی ادارے اپنے ہاتھوں میں ہونے کے باوجود، بدامنی و بے روزگاری، عدالتی ظلم و ناانصافی، سماجی عدم تحفظ اور بے بسی کی آکاس بیل نے پورے سماج کو جکڑ کر کھوکھلا اور فرسودہ بناکر رکھ دیا ہے۔ یہ کیسی آزادی ہے! جو ہمیں آگے ترقی کی منزل پر لے جانے کے بجائے پیچھے لےجا کر انفرادی و اجتماعی، قومی اور بین الاقوامی ذلت و پستی، مقروض معیشت، جگ ہنسائی اور سیاسی غلامی کی دلدل میں آگے ہی آگے دھکیل رہی ہے۔
اس کی بنیادی وجہ وہ فرسودہ نظام ہے جو انگریز نے ہمیں غلام رکھنے کے لیے نافذ کیا تھا۔ ہم نے اسے نعمت خداوندی سمجھتے ہوئے یہاں بھی نافذ کر دیا جو ہمیں تباہی کے دہانے پر لے آیا ہے۔ یہ فرسودہ فرعونی و سامراجی نطام ہی ہے جو ہر دور میں سامری کا ایک بچھڑا ہمارے سامنے لاکھڑا کرتا ہے، ہم اس سے امیدیں لگا کر پوجا شروع کر دیتے ہیں اور جب متوقع نتائج نہ پا کر اس سے تنگ آ جاتے ہیں تو وہ ایک اور بچھڑا لا کھڑا کرتا ہے، ہم اس سے امیدیں لگا لیتے ہیں۔ ہم اتنے دھوکے کھانے کے بعد بھی نہیں سمجھ سکے، حال آں کہ "مؤمن تو ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا "
یاد رہےجب سسٹم طبقاتی ہو تو وہ اجتماعیت کے مفاد کے لیے کام نہیں کرتا ہے۔ اس نظامِ بد کا حلف اٹھانے والے کیسے اجتماعیت کے مفاد کے لیے کام کر سکتے ہیں؟ مسلمان ملت کی نشاۃ ثانیہ کے علمبردار، قرآنی انقلاب کے مفکر و رہبر عصرِ حاضر حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری قدس سرہ کا قول یاد آرہا ہے کہ"جب کوئی غلط سسٹم کے اندر اصلاح کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ مزید ظلم کے بڑھانے کا سبب بنتا ہے۔" اس کی بہترین مثال تو موجودہ حکومت ہے، جہاں اصلاح کے نتیجے میں بے روز گاری بڑھی ہے ،غربت کی لکیر سے نیچے لو گوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، قرض بڑھا ہے، مہنگائی بڑھی ہے، اخلاقی گراوٹ بڑھی ہے، ایک عام آدمی کا جینا دوبھر ہو گیا ہے ۔
آج ہمیں اس بات کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ سسٹم کی اصلاح صرف سسٹم کو تبدیل کر کے ہی ہوسکتی ہے،اس کا حصہ بن کر ممکن نہیں۔ ورنہ تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مخالفین کی طرف سے پیش کش آئی تھی کہ آپ ہمارے حکمران بن جائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکمران بن جاتے اورساتھ ساتھ اصلاح بھی کرتے رہتے پھر تو تبدیلی بہت آسان ہوتی۔ لیکن آپؐ نے یہ پیش کس کبھی قبول نہیں کی، بلکہ سسٹم سے باہر رہ کر انقلابی طریقے سے اسے تبدیل کیا۔ تبدیلی ایک واضح نصب العین، اس پر تربیت یافتہ جماعت اور معروضی صورتِ حال کے مطابق حکمت عملی کے نتیجے میں آتی ہے، جب کہ یہاں پر تبدیلی کا لالی پاپ بیچنے والے قوم فروشوں کو انقلاب کے ‘الف’ 'ب' کا پتہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تبدیلی کا جو خواب ہم نے دیکھا تھا وہ ہنوز تشنہ لب ہی ہے اور رہے گا، جب تک کہ ہم نے اپنے رویے نہ بدلےاور تبدیلی کی سائنس کو سمجھ کر حقیقی بنیادوں پر سماجی تبدیلی کے عمل کو اس کے جوہر کے مطابق اختیار نہ کیا۔ لہٰذا تبدیلی کے لیے انقلابی نظریہ اختیار کرکے، اس پر انقلابی تعلیم و تربیت کے ذریعے خود جماعت میں منظم کرنا ہی انقلابی تبدیلی کی طرف بنیادی قدم بڑھایا جاسکتا ہے۔