ملکی ترقی کے لیے قومی زبان کی اہمیت اور مروجہ نظام تعلیم
تہذیب و ثقافت، زبان
ملکی ترقی کے لیے قومی زبان کی اہمیت اور مروجہ نظام تعلیم
تحریر: تنویر احمد سلہریا ، مانسہرہ
ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ بنیادی تعلیم مادری زبان میں ہی ہونی چاہیے۔ اسی صورت میں ایسا تعلیمی ماحول بنتا ہے، جس میں بہتر تخلیق کار پیدا ہوتے ہیں۔
تاریخی استشہاد
تاریخ اس پر شاہد ہے کہ دنیا میں جتنے بھی فلاسفر، سائنس دان، دانش ور اور ادیب پیدا ہوئے ہیں، وہ مقامی زبان میں تعلیم حاصل کر کے ہی نامور کہلائے اور دنیا کو اپنے کام ، فکر اور کردار سے متأثر کیا۔
آج بھی کئی ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں، جنھوں نے نصابِ تعلیم کو اپنی مقامی زبان میں منتقل کرکے اپنے قومی مقاصد کے مطابق نوجوان نسل تیار کی۔ چناں چہ ایسے تعلیمی اداروں سے پڑھا ہوا تعلیم یافتہ گریجوایٹ پریکٹیکل آدمی ہوتا ہے اور اسے مزید تجربات سے گزرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ وہ تخلیقی صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے اور اپنی فیلڈ میں کارہائے نمایاں سرانجام دیتا ہے۔ یہی وَجہ ہے کہ ایسے ممالک برق رفتاری سے ترقی کی راہوں پر گامزن ہیں۔
دوسری طرف وطن عزیز پاکستان سات دہائیوں کے بعد بھی اپنے قومی اور ملی تقاضوں کے مطابق نظام تعلیم وضع نہ کر سکا۔ سامراجی دور کا طبقاتی تعلیمی نظام تمام مسائل کی خرابی کی بنیاد ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ نصاب کی بھی ورائیٹیز موجود ہیں۔اسی طرح میڈیم آف ایجوکیشن میں بھی تنوع پایا جاتا ہے۔ انگلش میڈیم، اردو میڈیم اور عربی میڈیم وغیرہ۔
گویا لوئر اور متوسط کلاس کے لیے اردو اور عربی میڈیم، جب کہ اعلیٰ کلاس کے لیے انگلش میڈیم نصاب رائج ہے جو فکری انتشار کا بھی سبب ہے۔
تعلیمی اداروں کا حال
تعلیمی ادارے تینوں کلاسوں کے مراتب کا خیال رکھتے ہوئے الگ الگ ہیں۔ نصاب بنانے والی کمپنیاں سرمایہ دارانہ مقاصد اور سامراجی مفادات کو مدنظر رکھ کر نصاب ڈیزائن کرتی ہیں، جس سے قومی سوچ تو درکنار انسانی سوچ کا پیدا ہو نا بھی محال ہے۔ یہ کمپنیاں اَب مافیاز کا روپ دھار چکی ہیں، جن کا نجی تعلیمی اداروں کے ساتھ ایک گٹھ جوڑ موجود ہے۔
ایسے میں حکومت کی یکساں نصاب کی پالیسی بھی محض دل فریب نعرہ دکھائی دیتی ہے، جو مذکورہ بالا ماحول میں بارآور ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ اسی طرح اردو زبان کو قومی اور دفتری زبان بنانے کے حوالے سے بھی ایک طبقے کی طرف سے نمائشی شور شرابہ سننے کو ملتا رہتا ہے۔ اردو کی یاد میں سیمینارز کا انعقاد بھی ہوتا رہتا ہے۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ اردو زبان کی ترقی کے لیے بڑے بڑے ادارے بھی کئی دہائیوں سے قائم ہیں، جن میں مقتدرہ قومی زبان اور اکادمی ادبیات وغیرہ نمایاں ہیں۔ یہ ادارے وفاقی دارالحکومت میں عالی شان عمارتوں میں قائم ہیں۔ جہاں دار الترجمہ اور دفاتر ہیں۔ ملازمین اور لائیبریاں ہیں۔
ملک میں موجود ایسے غیر فعال اداروں کا غیر مؤثر ہونا اس وقت سامنے آتا ہے، جب عدالت حکم امتناعی جاری کرتی ہے کہ پبلک سروس کمیشن کا امتحان اردو میں نہیں لیا جا سکتا۔ کیوں کہ طلبا و طالبات گریجویشن انگلش میڈیم میں کر کے آتے ہیں۔
ایک وَجہ یہ بھی بتائی گئی ہے کہ نصاب کی نوے فی صد کتب کا اردو میں ترجمہ ہی دستیاب نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اردو زبان کی ترقی و اشاعت کے لیے بنائے گئے اداروں کا پہلا اور بنیادی کام تھا کہ وہ نصابی کتب کے اردو تراجم کریں۔ لیکن باقی اداروں کی طرح یہاں بھی کام کا فقدان نظر آتا ہے۔ کیا اردو زبان کا دامن اتنا تنگ ہے کہ اس میں جدید علوم و فنون کا ترجمہ ممکن نہیں۔ یقیناً ایسا نہیں کیوں کہ اردو فصیح و بلیغ زبان ہے، اس کا شمار دنیا کی بڑی زبانوں میں ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اردو کسی بھی زبان کے الفاظ کو آسانی کے ساتھ اپنے اندر سمو لیتی ہے۔
مسئلہ دراصل اس سوچ کا ہے جو مغرب سے مرعوبیت پر مبنی ہے۔ مسئلہ اس ایلیٹ کلاس کا ہے جو انگلش کے چند الفاظ بول کر اپنی علمیت کا رعب جماتی ہے۔ اور سامراجی نظام سے وفاداری کا ثبوت پیش کرتی ہے۔
چناں چہ وطن عزیز میں بے شمار دوسرے مسائل کی طرح اردو زبان کا مسئلہ بھی جوں کا توں ہے اور یہ اس وقت تک رہے گا جب تک مفاد پرستانہ ذہنیت کا حامل طبقہ ہمارے اوپر مسلط ہے، اس وقت تک ہماری یونیورسٹیوں اور کالجوں سے ادھورے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے۔ ہم عالمی افق پر بہ حیثیت قوم ذِلت و رسوائی کا نشان بنے رہیں گے۔ کیوں کہ پاکستان سے بعد میں آزادی حاصل کرنے والے ممالک نے جدید علوم و فنون کو اپنی قومی زبانوں میں منتقل کر کے ترقی کی منازل طے کی ہیں۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ وطن عزیز میں اس حساس مسئلے کو ہمیشہ زبانی جمع خرچ کے طور پر ہی لیا گیا، جس کا براہ ِراست اثر ، ہمارے تعلیمی نظام پر پڑا ہے۔
وقت کا تقاضا
ضرورت اس امر کی ہے کہ نظام تعلیم مادری زبان میں منتقل کرنے کے ساتھ قومی آزادی کے تقاضوں کے تناظر میں ملکی نظام کی تشکیل نو کی جائے۔ تا کہ ہم سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کی گرداب سے نکل سکیں۔