وحشت و دہشت کا معاشرہ
اگر فکروفلسفہ کی اساس وحدت پر ہو گی تو اس پر بننے والا عملی نظام لوگوں کو ایک لڑی میں پرو دے گااورفکری و عملی ہم آہنگی پیدا کر کےقوم کو ایک دھارے میں
وحشت و دہشت کا معاشرہ
انجینئر محمد نواز خاں ۔ لاہور
فکروفلسفہ کی اہمیت
فکروفلسفہ کسی بھی قوم کی تشکیل میں اساسی اہمیت کا حامل ہوا کرتاہے۔ فکروفلسفہ کی بنیاد پرہی قومیں اپنی منزل کا تعین کرتی ہیں اور اس پر اپنا عملی نظام تشکیل دیتی ہیں۔اگر فکروفلسفہ کی اساس وحدت پر ہو گی تو اس پر بننے والا عملی نظام لوگوں کو ایک لڑی میں پرو دے گااورفکری و عملی ہم آہنگی پیدا کر کےقوم کو ایک دھارے میں داخل کر دے گا، اور اگر اس کی اساس تقسیم پر ہو گی تو اس پر تشکیل پانے والا نظام انفرادیت پسندی اور گروہیت پیدا کرے گا اور قوم مختلف حوالوں سے تقسیم ہوتے ہوئے بہ حیثیت مجموعی زوال کا شکار ہو جائے گا
انسانی تاریخ کامطالعہ
اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہےکہ تمام انبیا وحکما کی تعلیمات اور ان کی عملی زندگیاں انسانیت کو وحدت میں پرونے اور بہ حیثیت مجموعی ترقی کی راہ پہ گامزن کرنے پر وقف رہیں۔جب انسانی سماج شیطانی قوتوں کے اثرات یا اپنی کمزوریوں کی وجہ سے زوال کی طرف جانے لگا تو کسی نا کسی نبی یا حکیم کا ظہور ہوا، جس نے اس سماج کا مطالعہ ایک نبض شناس حکیم کی طرح کیا۔ زوال کی بنیادی وجہ کا کھوج لگایا اور زوال کی بنیادی وجہ کو ختم کرتے ہوئے انسانیت کو وحدت میں پرو کر دوبارہ ترقی کی طرف رواں دواں کر دیا۔ ہر نبی کی دعوت کی اساس طبقاتی سوچ و طبقاتی نظام کا خاتمہ اور وحدت کی سوچ پیدا کر کے انسانیت میں محبت و اخوت اور رواداری کا فروغ رہا ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نمرود کی طبقاتی نمرودی سوچ کا انکار اور نمرود کے نظام کے خلاف جنگ اس کی دلیل ہے۔حضرت موسی علیہ السلام کی فرعون کے خلاف عملی جدوجہد فرعونی طبقاتی سوچ کے خلاف تھی، جس نے بنی اسرائیل میں گروہ پیدا کر کےان پر ظالمانہ نظام قائم کر رکھا تھا۔نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت، اس پر عملی جدوجہد ابوجہل اور قیصروکسری کے قائم کردہ طبقاتی نظام کے خلاف تھی، جس نےانسانوں کو جانوروں سے بھی بدتر زندگی بسر کرنے پر مجبور کر رکھا تھا اور بیل گدھوں کی طرح ان سے کام لیا جاتا تھا۔آپ اس طبقاتی نظام کے خلاف ایک عملی جدوجہد کرتے ہیں۔ اس طبقاتی ظالمانہ نظام کا خاتمہ کر کےوحدت کی اساس پر عدل و انصاف اور معاشی مساوات پر مبنی ایک ایسےپائیدار نظام کی بنیاد رکھتے ہیں جو ہزار سال تک انسانیت کو امن و عدل اور خوش حالی فراہم کرتا ہے۔مسلمانوں کے غلبہ کے آخری دور تک ہندوستان میں سینکڑوں مذاہب ہیں،سینکڑوں ثقافتیں ہیں، لیکن مذہب کی بنیاد پر کوئی لڑائی نہیں ہے،تمام مذاہب کے لوگوں میں رواداری بدرجہ اتم موجود ہے۔ایک دوسرے کی خوشی اور غمی میں شریک ہوتے ہیں۔سیاسی طور پر امن ہے اگر کوئی بااثر شخص سے بھی کوئی غلطی ہوتی ہے تو وہ قصور وار ٹھہرتا ہے اور سزا پاتا ہے۔ ابن بطو طہ اپنے سفر ہندوستان کے دوران اس کا ذکر کرتا ہے کہ اپنے علاقہ کا راجہ اپنے جرم پر سزا پاتا ہوا نظر آتا ہے۔ معاشی خوش حالی کی حد یہ ہے کہ منڈیوں میں غلہ کی طرح سونے اور جواہرات کی ڈھیر لگے ہوئے ہوتے تھے اور ہندوستان سونے کی چڑیا کے نام سے مشہور تھا۔ گویا سماج مجموعی طور پر ترقی کر رہا تھا اور وحدت کا عملی اظہار موجود تھا۔جب انگریز سامراج اپنی چالوں اور چالاکیوں سے ہندوستان پر قبضہ کرتا ہے تو وہ اس وحدت کو پارہ پارہ کر دیتا ہے۔مختلف مذاہب کو آپس میں لڑاتا ہے، امن کو تباہ کرتا ہے۔ دولت کو لوٹ کر برطانیہ منتقل کرتا ہے اور یہاں معاشی بد حالی پیدا کرتا ہے اور بھوک و افلاس پیدا کر کے اخلاقیات کو تباہ کرتا ہے۔لیکن حریت پسند علما اور باشعور ہندوستانی انگریز سامراج کے خلاف محاذ جاری رکھتے ہیں،اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں،جلا وطنی قبول کرتے ہیں، کالے پانیوں کی سزا پاتے ہیں، لیکن آزادی پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کرتے آخر کار ایک صدی کے اندر انگریز اپنا بوریا بستر گول کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
سرمایہ داریت کے اثرات
تقاضا تھا کہ آزادی کے بعدایک آزاد قوم کی حیثیت سے فکروفلسفہ مرتب کیا جاتا اور اس فکر پر عملی نظام بنایا جاتا۔لیکن کیسے؟ہم نے تو مذہب کا کارڈ کھیلتے ہوئے مذہب کی غلط تشریح کی، وہ مذہب جو وحدت پیدا کرنے آیا تھا اسی کی بنیاد پر ہم نے نفرت پیدا کی اور برصغیر کی تقسیم کے علاوہ کوئی اورکوئی حل قبول نہ کیا۔ چوں کہ ملک کا حصول نفرت اور تقسیم کی اساس پر تھا اس لیے عملی نظام میں طبقاتیت، گروہیت اور نسلی و لسانی امتیاز نمایاں طور پر سر اٹھائے ہوئے ہیں۔ تفریق و تقسیم کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے ، فرقہ واریت کو فروغ دینے کے لیے مذہبی جماعتوں، مدارس اور مسجدوں کو فرقہ کی بنیاد پر رجسٹر کیا گیا۔ اگر کوئی مدرسہ،مسجد یا جماعت بغیر کسی مسلک یا فرقہ کے رجسٹر کروانا ہو تو نظام میں اس کی گنجائش موجود نہیں۔ ضرور کوئی فرقہ لکھنا اور قبول کرنا ہو گا۔ گویا مدارس اور مسجدیں اور عصری تعلیمی ادارے کیا ہیں ، جہالت و نفرت کی ڈگریاں ہیں۔اسی سوچ کی بنیاد پر توہین مذہب اور توہین رسالت کے نام پر قتل کے واقعات اب ہمارے معاشرے میں معمول کی بات ہے۔ اختلاف رائے پر گالیاں دینا اور غدار قرار دینا ہمارے معاشرے کا بہترین مشغلہ ہے۔ برداشت و روا داری کا عنصر ناپید ہے۔ کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اس پر بیان بازی، مذمت کی قرار دادیں ، سیاسی شعبدہ بازیاں اور بس -پھر اگلے کسی اسی طرح کے واقعہ کا انتظار۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ افیون کاشت کی جائے اور وہاں سے گندم کی فصل کاٹی جائے؟ پورے معاشرے کی تخم ریزی نفرت پر کی جائے اور امید محبت و پیار، امن و امان اور رواداری کی رکھی جائے یہ دیوانے کا خواب تو ہو سکتا ہے حقیقت نہیں۔
تعلیمی جائزہ
تعلیمی نظام جو نونہالان وطن کی ذہنی آبیاری،ان کو پرواز دینے اور ان میں ہمت و جرات پیدا کرتا ہے وہ بھی گروہی بنیادوں پر تشکیل دیا گیا ہے۔ایک طرف دین و دنیا کی تعلیم کو علاحدہ علاحدہ کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے مذہبی طبقہ اپنےآپ کو اسلام کا ٹھیکیدار سمجھتا ہےاور نو جوانوں کو مذہب سےدور گردانتے ہوئے اس سے نفرت کرتا ہےاور اس کو دنیا دار کہہ کر دھتکارتا ہے ۔تو دوسری طرف نوجوان مذہبی طبقہ کو رجعت پسند اور جاہل سمجھتا ہے اوراس کو صحیح کردار ادا نہ کرنے پر اس سے نالاں ہے۔ جدید دنیاوی تعلیم میں بھی سینکڑوں معیارات قائم کر دیے گئے ہیں۔ ایک طرف ٹاٹ کلچر ہے تو دوسری طرف جدید سہولیات سے لیس ادارے ہیں۔ مختلف ماحول میں تعلیم حاصل کرنے والوں میں کس طرح ذہنی و عملی ہم آہنگی پیدا کی جا سکتی ہے؟ اسی لیے ہر نو جوان انفرادیت کا شکار ہے اور انفرادی طور پر ترقی کرنے میں مگن ہے۔ اس لیے مجموعی طور پر کوئی واضح کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ضرورت تھی کہ آزادی کے بعد آزاد قومی تقاضوں کو مدنظر رکھ کر تعلیمی نظام بنایا جاتا لیکن ہم نے آج تک لارڈ میکالے کے بنائے ہوئے تعلیمی نظام کو جوں کا توں رکھا ہوا ہے۔
سیاسی صورتحال
سیاسی پہلو سے اگر غور کیا جائے تو جماعتوں کے نام پر چند خاندانوں کی لمیٹڈ کمپنیاں ہیں جو چہرے بدل بدل کر ملک کے تخت و تاج کی مالک بنتی ہیں اور اپنے مخصوص طبقہ کے مفادات کے لیے آئین سازی کرتی ہیں۔نظریہ ضرورت کے تحت آئین میں تبدیلیاں پیدا کر کے اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔سیاست کو اپنے گھڑے کی مچھلی سمجھا جاتا ہے اور جس طرح چاہیں اس کو استعمال کیا جاتا ہے۔اگر اقتدار پر قابض طبقہ، سرمایہ دار یا جاگیر دار طبقہ کوئی جرم کر لے تو وہ قانون سے ماورا ہیں اور ایک غریب مزدور،کسان چھوٹی سے چھوٹی غلطی پر بھی قصوروار ٹھہرتا ہے اور سزا کا مستحق قرار پاتا ہے۔ ان سیاسی جماعتوں کی نظریاتی اساس نہ ہونے کی وجہ سے حادثاتی و واقعاتی سیاست ہوتی ہے۔ بہ ظاہر حزب اقتدار کی جماعتیں کسی بھی واقعہ کو حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہیں، لیکن حقیقت میں وہ اپنے گروہی ایجنڈے پہ کا کررہی ہوتی ہیں۔ ایسے واقعات ہونے سے اپنی جلد باری آنے میں خوش ہوتی ہیں۔
ہماری ذمہ داری
اگر بہ حیثیت قوم ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں۔ قوموں کی صف میں کھڑا ہونا چاہتے ہیں تو ہر حوالے سے طبقاتی تقسیم کو ختم کرنا ہو گا۔ عدل و انصاف کی بنیاد پر نظام قائم کرنا ہو گا اوراس اساسی فکر پر ادارے تشکیل دینے ہوں گے، لیکن یہ اس وقت ہی ممکن ہے جب وحدت کی اساس پر شعورو فکر کو اجاگر کر کے تنظیم سازی کے ذریعے جماعت تیار کی جائے۔ وہ جماعت ایک درست اور صحیح لائحہ عمل اختیار کرتے ہوئے موجودہ فرسودہ نظام کا خاتمہ کر کے نئے نظام کی بنیاد رکھے اور اس کی تعمیر میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دے۔