حقیقت کائنات۔
عمرنیاز۔سرائے صالح
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ یہ کائنات ایسے عالمگیر اصولوں کی بدولت قائم و دائم ہے، جس کا اگر وجود نہ ہو تو یہ کائنات بکھر کر رہ جائے۔ فطرت کے ان اصولوں نے کائنات کی ہر نوع کو باہم مربوط کر دیا ہے، جس سے کائناتی حسن نکھر کر اس کا وجود رنگین ہوگیا ہے۔
انسان کی ترقی کے سفر کا پہلا دن یقینا وہی ہو گا جب انسان نے مادی عناصر میں اس ظہور اور اس کی ترتیب پر توجہ دی، جس سے زندگی کے آثار پیدا ہوئے! اور جس کے پیچھے چھپے حقائق کو جاننے کا تجسس اس نے اپنے اندر پایا۔ گویا یہی وہ لمحہ تھا جہاں انسان نے کائنات مسخر کرنےکے لیے اپنے سفر کا آغاز کیا۔اور ناممکن کو ممکن بنایا ۔ مثلا روشنی کے قوانین کی دریافت نے ترقی کے وہ سامان پیدا کیے جس کا تصور بھی ممکن نہیں تھا۔ روشنی کے یہ قوانین تو روشنی کی تخلیق کے ساتھ ہی وجود میں آ گئے تھے۔ یعنی اس مادی عالم کی پیدائش سے قبل ہی وہ قوانین وجود میں آچکے تھے، جنھوں نے ہر ہر عنصر کی ترتیب کو ایک خاص انداز سے یکجا کرنا تھا۔ (مثلا مختلف حیوانات، جمادات، نباتات یہ سب ایٹمز میں موجود الیکٹران اور نیوٹران پروٹانز کے مختلف combinations /ترتیب ہی تو ہے۔)
اس کائنات کا ہر ہر ذرہ ہو یا کوئی کہکشاں، اس خالق حقیقی کے طے کردہ دائرہ کار کے تحت اپنا کام کر رہی ہے۔
انسان چوں کہ اس کائنات کا جوہر ہے۔اس لیے یہ مادی قوانین اس کے مادی جسم پر تو اثر انداز ہوتے ہیں مگر اس کی روح ان مادی قوانین سے آزاد ہے۔ (جیسے کلاسیکل فزکس کے قوانین کا اطلاق ماڈرن فزکس پر فیل ہو جاتا ہے)۔
تمام تر مادی قوانین کا حاصل یہ ہے کہ وہ انسان کی جسمانی ضروریات کو مکمل کرنے والی اشیا میں طے کردہ ترتیب کو برقرار رکھیں۔ (ہر پھل ہر سبزی میں عناصر کے جڑنے کی یہ ترتیب مختلف ہے)اس کو ٹوٹنے نہ دیں وگرنہ انسان کے مادی جسم کو حیات بخشنے والے اسباب (وسائل) ختم ہو جائیں گے اور یہ مادی جسم پھر روح کو اپنا مسکن بنانے کی اہلیت کھو دے گا۔
انسان روح و جسم دونوں کا مرکب ہے۔ یہ صرف مادہ نہیں ہے توانسان کی روحانی اور مادی تقاضوں کی تکمیل ایسے قانون کی محتاج تھی جس سے نہ صرف اس کی اپنی سماجی زندگی منظم ہو بلکہ اس کے اندر وہ اوصاف پیدا ہوسکیں جو اس کی اخروی زندگی میں کام آسکیں۔
اللہ نے انسان کو اپنا کامل نظام دے کر اپنی نعمت مکمل کر دی۔ اب اگر انسان اس الہی نظام کو مان لے تو اس پوری کائنات سے ہم آہنگ ہو جائے جہاں صرف ذات الہی کا نظام چلتا ہے۔ اور جو فیض اللہ کا اس پوری کائنات کے لیے ہے اس سے وہ بہرہ آور ہو۔ انسان کو چاہیے کہ اپنی ذات،معاشرہ، گھر کو اس نظام الہی کے قوانین کے مطابق منظم کر لے تو قانوناً یہ اس فیض کا عقلی طور پر حق دار ہے جو اس پوری کائنات میں اللہ کے نظام کے نفاذ کی وجہ سے اسے حاصل ہے۔ شرط یہ ہے کہ باقی کائنات کی طرح یہ قوانین الہی کے مطابق اپنی ذات، معاشرے،ملک کو منظم کر لے جس کے لیے وسائل معاش کا حصول اور کائناتی خزائن کی در یافت ضرورت طلب امور ہیں۔
الٰہی نظام عدل کے غلبہ کے نتائج
بھوک و افلاس کا خاتمہ۔ (خوش حالی، طبقاتیت کا خاتمہ)
آزادی و حریت پسندی۔ ( ایک عام انسان، خلیفہ وقت سے باز پرس کرتا ہے اور اسے اپنی اظہارِ رائے کا کوئی خوف نہیں)
عدل و انصاف کی فراہمی۔
وحدت فکر و عمل۔ (فرقہ واریت کا خاتمہ)
اخلاقی ترقی: سخاوت۔ محبت انسانیت۔ ہمدردی۔ ایثار و قربانی۔ پاکیزگی۔ہمت۔ بہادری۔
قوانین الہی یا نظام عدل کا غلبہ اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک سماج میں ایک اتھارٹی نہ ہو، جس کے پاس اتنی طاقت ہو کہ وہ ان قوانین الہی کو توڑنے والوں کو روک سکے! وہ قوانین الہی جن پر پوری انسانیت کی ترقی منحصر ہے۔ امور مملکت ، سیاست و معیشت سے کنارہ کشی کر کے گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر یادِ خدا میں وقت لگایا جا سکتا ہے، مگر خدا کی مخلوق کی خدمت اور اس کی خبر گیری سے جو کامیابی کے مقام اور راہیں ملتی ہیں وہ تسخیر کائنات کا بنیادی ذریعہ بنتی ہیں۔
بڑے المیہ کی بات ہے کہ ہمارے ہاں دین سیاست کے تصور سے محروم ہو کر رہ گیا ہے۔ دین کے تصور میں اگر سیاست کی گنجائش نہ ہوتی تو ہر نبی اپنے وقت کے فرعون کے خلاف کیوں جنگ کرتے ؟
کہنے کی بات یہ ہے کہ مملکت کے امور عبادت ہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے روحانی و مادی ترقی کی سمت درست رکھنے کے لیے انبیا بھیجے جنھوں نے وسائل زندگی کی تقسیم کا طریقہ کار وضع کیا اور ساتھ ہی انسانی روح کے تقاضوں کی تکمیل کے لیے عبادات کا ایک نظام بھی متعین کر دیا۔ اخلاقی اقدار کا ایک معیار طے کر کے بتلا دیا کہ انسان کی روحانی ترقی کس راستے سے ممکن ہو سکے گی!
آج ہماری یہی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کائنات کی حقیقت کو جان لیں اسے محض قدرت کا راز سمجھ کر ترک نہ کریں، بلکہ اسے اللہ کی نعمت اور فضل سمجھ کر انسانیت کی فلاح اور نجات کے لیے اس کائنات کے تمام وسائل بروئے کار لائیں اور ان پر جن غاصب قوتوں کا قبضہ ہے، جس سے پوری دنیا کی اکثریت انسانیت کو محروم رکھا گیا ہے ان کے خاتمے کے لیے ایک منظم مسلسل اجتماعی شعوری جدوجہد میں اپنا حصہ شامل کریں۔