فسادات کوہاٹ 1924ء - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • فسادات کوہاٹ 1924ء

    برطانوی ہندوستان کے شمال مغربی سرحدی صوبہ (موجودہ خیبر پختونخوا) میں مذہبی منافرت کی تاریخ میں1924 کے فسادات کوہاٹ نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے

    By . Muhammad Uzair Published on Oct 23, 2021 Views 2464
    فسادات کوہاٹ 1924ء 
    ڈاکٹر محمد عزیر وزیر  ۔ کوہاٹ

    کوہاٹ ڈویژن پشاور سے 56 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ سابقہ فاٹا کے علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد یہ ڈویژن پانچ اضلاع پر مشتمل ہے، جس میں کرک، کوہاٹ، ہنگو، اورکزئی اور کرم کے اضلاع شامل ہیں۔
    اس کے مشرق میں جواکی کے پہاڑ ہیں۔ شمال میں درہ آدم خیل کی پہاڑیاں ہیں۔ شمال مغرب میں وادی تیراہ واقع ہے اور مغرب اور جنوب میں میدانی علاقے ہیں، جن کو مغرب میں کوہ سفید افغانستان سے جدا کرتا ہے۔جواکی اور درہ آدم خیل میں آفریدی قبیلہ آباد ہے اور وادی تیراہ میں اورکزئی اور آفریدی قبائل سکونت پذیر ہیں۔
    برطانوی ہندوستان میں کوہاٹ شہر اپنے محل وقوع کی وَجہ سے ایک اہم شہر تھا۔ اردگرد کے قبائل کے حملوں سے حفاظت کے لیے کوہاٹ شہر کے باہر ایک قلعہ تعمیر کرایا گیا اور بڑی چھاؤنی بنائی گئی جو کہ موجودہ دور میں پاکستانی فوج کے کنٹرول میں ہے اور اَب شہر اس قلعہ سے آگے تک پھیل گیا ہے۔ 
    برصغیر پاک و ہند کے دیگر علاقوں کی طرح شمال مغربی سرحدی صوبہ (موجودہ خیبر پختونخوا) بھی ہندو مسلم اتحاد کا مظہر تھا۔محرم کے دِنوں میں ہندو مسلمانوں کے لیے شربت اور کھانے پینے کا بندوبست کرتے تھےاور مسلمان ہندوؤں کے تہواروں میں شریک ہوتے تھے۔ دونوں ایک دوسرے کی ارتھیوں اور جنازوں کو کندھا دیتے تھے۔
    رام سرن نگینہ نے اپنی کتاب" اٹک پار کی یادیں" میں یہاں تک لکھا ہے کہ مسلم اور ہندو غنڈوں میں بھی اتفاق کی یہ حالت تھی کہ غنڈہ گردی بھی مل کر کرتے تھےاور مذہبی منافرت کا شائبہ تک بھی ان میں موجود نہیں تھا۔
    آگے چل کر وہ مزید لکھتا ہے کہ اس اتحاد کا مظاہرہ مسلمانوں کی 1920ء میں افغانستان کی طرف ہجرت اور خلافت تحریک میں اور بھی واضح طور پر نظر آیا۔ مسلمان ہندوستان کے دیگر علاقوں سے پشاور کے راستے افغانستان جاتے تھے تو ان کے رہنے سہنے اور کھانے پینے کے بندوبست میں علاقے کے ہندو اور مسلمان رضاکار، ہندو مسلم بھائی بھائی کے نعرے لگاتے اور مسافروں کی خدمت میں پیش پیش رہتے۔
    لیکن جیسا کہ انگریز قوم کی پالیسی رہی ہے کہ ”لڑاو اور حکومت کرو“، اس لیے اس مذہبی رواداری اور یگانگت کے ماحول کو بھی انگریز کی تقسیم پر مبنی پالیسی دیمک کی طرح کھا گئی اور پھر اس خطے نے دوبارہ یہ اتفاق اور اتحاد کبھی نہیں دیکھا، یہاں تک کہ نفرت اورفرقہ واریت کا یہ مکروہ عمل بالآخر برصغیر پاک و ہند کی تقسیم پر منتج ہوا۔ 
    ویسے تو سرکاری ریکارڈ کے مطابق 1924ء سے 1927ءتک شمال مغربی سرحدی صوبے میں کل 88 فرقہ وارانہ فسادات ہوئے، جن میں 400 افراد کی ہلاکت ہوئی اور 5000 لوگ زخمی ہوئے۔ان میں فساداتِ کوہاٹ جو کہ 9 سے 11 ستمبر 1924ء کو ہوئے، ایک بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔
    1921ء کی مردم شماری کے مطابق کوہاٹ کی کل آبادی 17000 نفوس پر مشتمل تھی، جس میں 12000 مسلمان اور 5000 سکھ اور ہندو تھے ،جن میں فوجی چھاؤنی میں کام کرنے والے ہندو بھی شامل تھے۔
    ان فسادات میں سرکاری ریکارڈ کے مطابق کل 155 افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔ جن میں ہندوؤں کا نقصان دو تہائی سے زیادہ ہوا۔ ہندوؤں کی طرف سے 12 افراد مارے گئے۔ 13 کا کوئی پتہ نہیں چلا، ان کو بھی ہلاک تصور کیا گیا اور 86 افراد زخمی ہوئے۔
    مسلمانوں کی طرف سے کل 11 افراد مارے گئے اور 23 زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ دو پولیس والے بھی زخمی ہوئے۔ جانی نقصان کے علاوہ اس دور کے مطابق 9 لاکھ کی املاک جلائی گئیں، جس میں بیش تر املاک ہندوؤں کی تھیں۔ کیوں کہ ہندوؤں کی آبادی شہر میں رہتی تھی اور زیادہ تر کاروبار سے منسلک تھی۔
    ان فسادات کی وَجہ سے کوہاٹ شہر میں بسنے والے ہندوؤں کی تقریباً ساری آبادی اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئی۔ ایک اندازے کے مطابق 3200 لوگ اپنا شہر چھوڑ گئے اور بڑی مشکل سے 1925ء کے آخر میں ان کو دوبارہ اپنے شہر میں واپس لانے پر راضی کیا گیا۔
    ان فسادات کی بہ ظاہر وَجہ جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا، "کرشن سندیس" کے نام سے نظموں کا ایک کتابچہ تھا، جسے ہندو احیائے مذہب کی تحریک "سناتن دھرما سبھا" کے شہری جنرل سیکریٹری جیون داس نے لکھا تھا۔
    اس کتابچے میں ایک نظم اسلام کے خلاف لکھی گئی تھی اور اس کی ڈھیر ساری کاپیاں پورے شہر میں تقسیم کی گئیں۔ یہ نظم ایک اور مسلم فرقہ وارا نہ اخبار میں چھپنے والی نظم کے جواب میں لکھی گئی تھی، جس میں ہندو دھرم کے خلاف تضحیک آمیز زبان استعمال کی گئی تھی۔
    اس ماحول سے ایک بات واضح طور پر عیاں ہوتی ہے کہ ایک طرف قوم پرست مسلم اور ہندو قیادت تھی جو کہ ہندو مسلم اتحاد کی حامی اور ہر قسم کی مذہبی منافرت کے خلاف تھی اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ہندوستان سے برطانوی سامراج کو دیس نکالا دینے کے لیے برسرِپیکار تھی، لیکن ان کے لیے حکومت کی طرف سے قید و بند کی صعوبتیں تھیں اور دوسری طرف فرقہ پرست مولوی اور پنڈت تھے اور ان کے فرقہ وارانہ تحریر ات سے بھرپور اخبارات و رسائل تھے جو کہ صدیوں سے مذہبی رواداری کی روایات لیے اس خطے میں مذہب کے نام پر تفریق کا بیج بو رہے تھے، لیکن ان پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی، بلکہ ایک طرح سے انھیں حکومت کی درپردہ سرپرستی حاصل تھی۔اس لیے اس دور میں ان جذباتی تحریروں اور تقریروں نے عمومی ماحول کو ایسے گرما دیا تھا کہ عام سماجی معاملات کو بھی لوگ مذہب کی عینک سے دیکھنے اور جانچنے لگےتھے۔
    دوسری وَجہ اس کی یہ بھی تھی کہ شہر کی سول انتظامیہ اور پولیس میں ہندوؤں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ جس کی وَجہ سے انتظامی توازن موجود نہیں تھا جو کہ امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے نہایت ضروری ہوتا ہے۔
    اس کے علاوہ حکومت اگر چاہتی تو ان فسادات کو روکا جا سکتا تھا۔ لیکن برطانوی حکومت نے امن و امان قائم رکھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
    جیون داس ( جس کو پولیس نے فرقہ وارانہ رسالہ چھاپنے اور تقسیم کرنے کے جرم میں گرفتار کیا تھا۔) کو فسادات سے ایک دن پہلے، یعنی کہ 8 ستمبر کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ معاملے کی نزاکت کو دیکھ کر عدالت اگر اپنا فیصلہ کچھ دنوں تک ملتوی کر دیتی تو بھی حالات پر قابو پایا جا سکتا تھا، لیکن اس فیصلے کے بعد مسلمان فرقہ پرستوں نے مساجد میں تقاریر کے ذریعے ماحول کو ایسا گر مایا کہ فساد ہونا، گویا ایک طرح سے لازمی ہوگیا۔ اس کے باوجود حکومت کی طرف سے شہر میں کوئی پولیس نہیں بلوائی گئی اور نہ ہی دونوں برادریوں کے فرقہ پرست لیڈروں کی کوئی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔
    9ستمبر کو کچھ مسلمان نوجوانوں نے ہندوؤں کے محلے کے قریب ہندوؤں کی دکانوں پر پتھراؤ کرنا شروع کیا تو ہندوؤں نے اپنی چھتوں سے ان پر فائرنگ کی۔ جس کے نتیجے میں ایک لڑکا مارا گیا اور دوسرا زخمی ہو گیا۔ جس کے بعد مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان سارا دن معرکہ آرائی چلتی رہی، لیکن حکومتی مشینری ٹس سے مس نہ ہوئی۔ پولیس شام کے وقت شہر میں بلائی گئی، جس کے بعد حالات پر قابو پا لیا گیا۔ لیکن 10 ستمبر کی صبح پولیس کو دوبارہ ہٹا دیا گیا۔ حال آں کہ ایسی صورتِ حال میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کئی دن تک رکھا جاناچاہیے تھا۔ تاکہ پھر سے ایسے ناخوش گوار واقعے سے بچا جا سکے۔ لیکن10 ستمبر کو اطراف سے آفریدی اور اورکزئی قبائل کے مسلح لشکر شہر میں داخل ہوتے چلے گئے۔ پولیس اور فوج کی عدم موجودگی کی وَجہ سے انھوں نے ہندوؤں کے محلہ پر حملہ کیا اور ان کی املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق کل چار ہزار قبائلی کوہاٹ شہر کی فصیل میں موجود راستوں سے داخل ہوئے۔ تیسرے دن جب دونوں فریقوں کا کافی نقصان ہوچکا تو حکومتی مشینری حرکت میں آئی اور حالات کو قابو کیا۔
    ان حالات پر گہرائی اور کھلے دل سے اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ فسادات کروانے اور اس کے لیے ماحول کو سازگار بنانے میں برطانوی حکومت مکمل طور پر ملوث تھی اور ان کی اس کامیاب پالیسی کی وَجہ سے ایک دوسرے کا درد بانٹنے والے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن گئے۔
    آج اس واقعے کو 97 سال ہوگئے ہیں، لیکن حالات ویسے کے ویسے ہیں۔
    ہندوؤں اور مسلمانوں کی جگہ شیعہ اور سنی نے لے لی ہے۔ لیکن امام بارگاہوں اور مساجد کے منبروں پر موجود فرقہ پرست ذاکرین اور مولوی وہی انگریز کے دور کی شعلہ بیانی لیے فرقہ واریت کی آگ برسانے میں مصروف ہیں۔ حکومت بھی بدل گئی ہے، لیکن وطیرہ وہی پرانا ہے۔ طرفین کے لیڈرز کی فنڈنگ ہوتی رہتی ہے اور جانبین سے معصوم عوام ویسے ہی لقمہ اجل بنتے چلے جاتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آج کا دور برق رفتار ہوگیا ہے اور الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر منٹوں میں خبر پورے ملک تک پہنچ جاتی ہے، لیکن حکومتی مشینری اس طرح ناخوش گوار واقعات کے بعداسی طرح تیسرے ہی دن حرکت میں آتی ہے کہ جب بہت سا جانی و مالی نقصان بھی ہو چکا ہوتا ہے اور مذہبی منافرت کی خلیج مزید گہری ہوتی چلی جاتی ہے۔
    اس لیے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ برطانوی عہد کی کاشت کردہ اس نفرت کی بیخ کنی کی جائے اور فرقہ ورایت کو ہوا دینے والے نام نہاد مذہبی ٹھیکیداروں کے مذموم اور انسانیت دشمن عزائم کو بے نقاب کیا جائے۔ یہ امر اس بات کا متقاضی ہے کہ دین اسلام کی انسانیت دوست تعلیمات کو عام کیا جائے۔ تاکہ ایک ہی وطن میں بسنے والے لوگوں میں رواداری اور ہم آہنگی پیدا کی جاسکے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کا عادلانہ نظام سوسائٹی میں غالب ہو تاکہ اس وطن کے باسیوں کے درمیان وحدت و یگانگت کے ماحول کوفروغ دے کر اس کے تحفظ کا بندوبست کیا جا سکے۔
    Share via Whatsapp