کیا کرونا وائرس سے صحت یاب افراد کو بھی ویکسین لگوانے کی ضرورت ہے؟ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • کیا کرونا وائرس سے صحت یاب افراد کو بھی ویکسین لگوانے کی ضرورت ہے؟

    جدید سائنسی تحقیق کے مطابق کرونا وائرس سے صحتیاب افراد کو ویکسین لگوانے کی ضرورت نہیں ہے۔

    By محمد عثمان Published on Oct 11, 2021 Views 1294

    کیا کرونا وائرس سے صحت یاب افراد کو بھی ویکسین لگوانے کی ضرورت ہے؟

     

    تحریر: مارٹی میکرے 

    ترجمہ: محمد عثمان، فیصل آباد 

     

    (عرضِ مترجم) : درج ذیل تحریر امریکی مصنف مارٹی میکرے (Marty Makary) کے مضمون کا ترجمہ ہے۔ میکرے، جان ہاپکنز سکول آف میڈیسن اور بلوم برگ سکول آف پبلک ہیلتھ میں پروفیسر ہیں۔ اس کے علاوہ آپ مشہور طبی جریدے میڈ پیج ٹوڈے (Medpage Today) کے مدیر اعلیٰ اور امریکا میں صحت کے نظام کی تباہی کو بیان کرنے والی کتاب “The Price We Pay: What Broke American Health Care — and How to Fix It.” کے مصنف ہیں۔

    اِس وقت پوری دنیا کورونا وَبا اور اُس سے متعلق ریاستی اقدامات کے منفی اَثرات کا شکار ہے۔ اِس حوالے سے غالب رویہ یہ ہے کہ اگر آپ قومی یا بین الاقوامی سطح پر وَبا سے متعلقہ بیانیے پر کوئی سوال یا اعتراض قائم کریں تو آپ کو فوراً کانسپائریسی تھیورسٹ، جاہل یا کوویڈیٹ (Covidiot) جیسے القابات سے نوازا جائے گا اور مین سٹریم میڈیا بہ شمول یوٹیوب ، فیسبک پر آپ کو بندشوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ایسے میں درج ذیل مضمون اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ مضمون کا مصنف امریکا کی ایک اہم یونیورسٹی کے میڈیکل سکول میں پروفیسر جیسے عالی مرتبت عہدے پر فائز ہےاور مضمون بھی سرمایہ داری نظام کے ایک مؤقر امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ میں شا‏‏ئع ہوا ہے۔


    وطن ِعزیز پاکستان میں یہ موضوع اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ کورونا وَبا کے نام پر ریاستی اقدامات نے غربت اور بے روزگاری میں اضافہ کرکے عوام کی زندگی کو انتہائی مشکل بنا دیا ہے اور صحت کے شعبے کے تمام ریاستی (معاشی و افرادی ) وسائل وَبا سے نمٹنے پر خرچ کیے جارہے ہیں۔ صرف ویکسین کے نام پر اَب تک دو سو ارب روپے خرچ کیے جاچکے ہیں۔ دو سو ارب روپے کتنی بڑی رقم ہے؟ اس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چھ سے سات ارب روپے میں ایک اچھا کینسر ہسپتال تعمیر کیا جاسکتا ہے۔ یعنی ایک سو ارب روپے میں ملک کے پندرہ سے بیس شہروں میں کینسر یا جنرل ہسپتال قائم کیے جاسکتے ہیں ،جب کہ بقیہ سو ارب روپے سے اِن ہسپتالوں کے اخراجات پورے کیے جاسکتے ہیں۔ اِن ہسپتالوں کی تعمیر سےعوام کو طبی سہولیات کی فراہمی میں کتنی آسانی ہوسکتی ہے، کتنا روزگار پیدا ہوسکتا ہے اور کتنا بڑا معاشی عمل پیدا کیا جا سکتا ہے، اِس کا اندازہ لگانا کوئی خاص مشکل کام نہیں ہے۔ حکومت کے پاس کورونا ویکسین پر خرچنے کے لیے سینکڑوں ارب روپے تو موجود ہیں، لیکن ہسپتال تعمیر کرتے وقت حکومت کو پیسوں کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ دوسری طرف کورونا وبا سے بچاؤ کے نام پر تعلیمی ادارے اور دیگر کاروبار تو فورا بند کردیے جاتے ہیں، لیکن روزانہ سینکڑوں انسانوں کی اموات کا باعث بننے والے سگریٹ ، پان اور کولڈ ڈرنک کی دوکانیں،جو کہ ہر گلی محلے اور چوک میں چوبیس گھنٹے کھلی رہتی ہیں، اربابِ اختیار اور پالیسی سازوں کے فہم و ادراک کا مذاق اڑا رہی ہیں۔

     

    )اصل مضمون کا متن): سائنسی طور پر ایک غلط مفروضہ (Hypothesis)قائم کرنے میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے، لیکن جب نئے اعداد و شمار، آپ کے مفروضے کو غلط ثابت کردیں، تو ہمیں بھی اپنی رائے سے رجوع کرلینا چاہیے۔ بدقسمتی سے منتخب شدہ سیاسی رہنماؤں اور عوامی صحت کے ماہرین کی اکثریت اس مفروضے پر کافی لمبے عرصے سے اصرار کررہی ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف قدرتی قوتِ مدافعت ناقابلِ اعتبار ہے (اس لیے ویکسین لگوانا انتہائی ناگزیر ہے۔)حال آں کہ سائنسی تحقیق اِس مفروضے کی تواتر سے تردید کررہی ہے۔ کورونا وائرس سے صحت یاب لوگوں کی قوتِ مدافعت سے متعلق اَب تک پندرہ سے زائد تحقیقات ہمارے سامنے آچکی ہیں ۔ دو ہفتے قبل اسرائیل میں سات لاکھ افراد پر مشتمل ایک تحقیق کے نتائج کا اعلان کیا گیا، جن کے مطابق کورونا وائرس سے صحت یاب ہوجانے والے افراد کی قدرتی قوتِ مدافعت ، وائرس کی علامات کے دوبارہ ظاہر ہونے کے خلاف، ویکسین کے ذریعے پیدا شدہ قوتِ مدافعت کے مقابلے میں ستائیس گنا بہتر ثابت ہوئی۔ یعنی کورونا سے صحت یاب ہونے والے انسانوں کی قدرتی قوتِ مدافعت ویکسین سے ستائیس گنا 27 times زیادہ طاقت ور ہے۔ یہ تحقیق جون 2021ء میں کلویلنیڈ کے ہیلتھ ورکروں (جو کہ ہروقت وائرس کے نرغے میں ہوتے ہیں۔) پر کی جانے والی ایک تحقیق کے نتائج کو تقویت دے رہی ہے، جس میں کورونا وائرس کا ایک بار شکار ہونے والا کوئی بھی فرد دوبارہ اس وائرس سے متأثر نہیں ہوا۔ اس تحقیق کے لکھاری محققین نے نتائج بیان کرتے ہوئے واضح کیا کہ جو لوگ پہلے سے سارس کوو-2 ویکسین لگوا چکے ہیں، انہیں کووڈ 19 کی ویکسین کچھ خاص فائدہ نہیں دے گی۔ اسی طرح، مئی 2021ء میں واشنگٹن یونیورسٹی کی تحقیق میں یہ بات سامنے آچکی تھی کہ کووڈ کا ہلکا سا بخار بھی آپ میں وائرس کے خلاف ایک طویل مدتی اور مضبوط قوتِ مدافعت پیدا کردیتا ہے۔

     

    چناں چہ نئی سائنسی تحقیق اِس جانب اشارہ کررہی ہےکہ قدرتی قوتِ مدافعت ، ویکسین کے ذریعے پیدا شدہ قوتِ مدافعت جتنی مؤثر یا پھر اس سے بھی زیادہ مؤثر ہے۔ یہی وَجہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کے ذمہ داران کے طرزِ عمل کو، جیسا کہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے ڈائریکٹر نے چند ہفتے قبل فوکس نیوز کے میزبان برٹ بائیر کو انٹرویو کے دوران، ویکسین کی قدرتی قوتِ مدافعت پر فوقیت ثابت کرنے کی کوشش کی۔ انتہائی مایوس کن قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایک غیرمعتبر اور متروک مفروضے کی نامعقول حد تک شدت سے پیروی کا اِظہار صدر بائیڈن کے اُس اعلان سے بھی ہوا جس میں بڑی کمپنیوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو (چاہے وہ وائرس سے صحت یاب ہوچکے ہیں یا نہیں) لازمی طور پر ویکسین لگوائیں یا پھر ٹیسٹوں کے نتائج مستقل بنیادوں پر حکومت کو جمع کرواتے رہیں۔ 

     

    ریاست ہائے امریکا میں قدرتی قوتِ مدافعت کی اہمیت کا انکار انتہائی مہلک نتائج پیدا کررہا ہے۔ امسال (2021ء) جنوری، فروری اور مارچ کے مہینوں میں ہم نے کمیاب اور قیمتی ویکسین کی لاکھوں خوراکیں اُن افراد پر ضا‏‏ئع کردیں، جو پہلے ہی کووڈ کا شکار ہوکر صحت یاب ہوچکے ہیں۔ اگر ہم کووڈ سے صحت یاب لوگوں کو موقع دیتےکہ وہ ویکسین لگوانے والے افراد کی طویل قطاروں سے الگ ہو جائیں، تو ہزاروں لوگوں کی جانیں بچائی جاسکتی تھیں۔طبی شعبے سے وابستہ ، ہم میں سے بہت سے لوگ اُس وقت اِس حکمت عملی کو اختیار کرنے کے حوالے سے دلائل دے رہے تھے، لیکن ہماری تحاریر اور بیانات کو کوئی اہمیت نہ دی گئی۔ 

    سرکاری محکمہ صحت کے نمائندوں کی طرف سے قدرتی قوتِ مدافعت کی افادیت کو قبول نہ کرنے کی ایک وَجہ یہ ہوسکتی ہے کہ انھیں ڈر ہوگا کہ ایسا کرنے سے کہیں لوگ ویکسین پر وائرس کا شکار ہونے کو ترجیح نہ دینے لگ جائیں۔ یہ ایک قابل فہم اور معقول اندیشہ ہے، لیکن کیا امریکیوں کو ویکسین لگوانے کے حوالے سے قائل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان سے اعداد و شمار سے متعلق جھوٹ بولا جائے؟ میرے ذاتی طبی تجربے کے مطابق مریض نئی تحقیق اور حاصل شدہ اعدادوشمار کو قبول کرنے اور ڈاکٹر کی درست طبی اندازہ لگانے میں کوتاہی کو معاف کرنے کے حوالے سے انتہائی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں، بشرطیکہ آپ بہ طور ڈاکٹر ان کے ساتھ دیانت داری اور سچائی کے ساتھ چل رہے ہوں۔ (پاکستان جیسے ممالک کے برعکس، ترقی یافتہ ممالک میں اگر ڈاکٹر کی کسی غفلت یا جھوٹ سے مریض کو نقصان پہنچ جائے تو مریض ڈاکٹر کے خلاف منہ بولے ہرجانے کا دعوی کرسکتا ہے، جس سے ڈاکٹر کا پورا کیرئیر داؤ پر لگ سکتا ہے۔) اس کے باوجود صورتِ حال یہ ہے کہ اگر کسی ڈاکٹر سے سوال کیا جائے کہ میں کووڈ وائرس سے صحت یاب ہوچکا ہوں، کیا ویکسین لگوانا میرے لیے اشد ضروری ہے؟ تو ڈاکٹر حضرات کی اکثریت ان اعداد و شمار کو نظراندازکرکے فورا اثبات میں جواب دے دیتی ہے جن کے مطابق کووڈ وائرس کے دوبارہ حملے کے امکانات انتہائی کم ہوتے ہیں اور حملہ اگر ہوبھی تو علامات بہت معمولی یا نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں ۔ 

     

    جیسے جیسے وفاقی ذمہ داران پر سائنسی تحقیق سے حاصل شدہ اعداد وشمار کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ درج بالا صورتِ حال بھی رفتہ رفتہ تبدیل ہورہی ہے۔ گذشتہ ہفتے (ستمبر 2021ء) سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے انتھونی فاؤچی ، جو کہ امریک میں انفیکشن کے ذریعے پیدا ہونے والی بیماریوں کے سب سے بڑے ماہر ہیں، نے حکومت کے قدرتی قوتِ مدافعت سے متعلق مؤقف سے رجوع کے امکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ”مشیگن کے سپیکٹرم ہیلتھ جیسے بڑے طبی مراکز نے ویکسین لگوانے یا نہ لگوانے کی شرائط میں قدرتی قوتِ مدافعت کو بھی شامل کرنا شروع کردیا ہے۔ ریپلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے چند گورنروں نے طبی ہدایات اور تحقیقی نتائج میں تضادات پر عوامی بے چینی کا احساس کرنا شروع کردیا ہے۔ ریاست فلوریڈا کے گورنر ،رون ڈی سانٹس نے بائیڈن حکومت پرسائنسی حقائق کو نظرانداز کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ویکسین سے متعلق پالیسی بناتے وقت سابقہ انفیکشن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی قوتِ مدافعت کواہمیت نہیں دے رہی ہے۔

     

    بیماریوں کے تدارک اور بچاؤ سے متعلقہ ادارے (سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن) بھی بچوں کو ویکسین لگانے کے بارے میں قدرتی قوتِ مدافعت کی افادیت کو نظر انداز کررہے ہیں۔ لاس اینجلیس کاؤنٹی سکول نے حال ہی میں 12 سال کی عمر تک کے تمام طالب علموں، جو جسمانی طور پر کلاسز لینا چاہتے ہیں، پر ویکسین لگوانا لازمی قرار دے دیا ہے۔لیکن بچوں اور نوجوانوں میں کووڈ-19 سے متأثر ہونے اور علامات کے بگڑنے کا امکان بڑی عمر کے لوگوں کے مقابلےمیں انتہائی کم ہے۔یہ بات زیادہ خطرناک ہے کہ ویکسین لگوانے کی صورت میں نوجوانوں میں دل کی پیچیدہ بیماریاں پیدا ہورہی ہیں۔ اسرائیل میں ہونے والی تحقیق کے مطابق 16سے 24 سال کی عمر کے ہر تین ہزار میں سے ایک بچے/ نوجوان میں ویکسین لگوانے کے بعد دل کی سوزش کی علامات دیکھی گئی ہیں۔ 


    جدید تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ بچوں میں فائزر اور موڈرنا جیسی آر این اے (RNA) طریقہ کار پر بنی ویکسین کی دوسری خوراک دینا ضروری نہیں ہے۔ فروری 2021ء کے بعد سے اسرائیلی وزارتِ صحت یہ ہدایت دے رہی ہے کہ بچوں اور بالغ افراد میں سے جو لوگ کووڈ- 19 سے صحت یاب ہوچکے ہیں، انھیں آر این اے سے بنی ویکسین کی دو کی بجائے ایک خوراک ہی کافی ہے ۔

    اگرچہ وائرس سےدوسری بار متأثر ہونے اور علامات کے بگڑنے کا امکان انتہائی کم ہے ، لیکن کچھ تحقیقات نےویکسین کی ایک خوراک کا معمولی فائدہ ظاہر کیا ہے۔ دیگر ممالک بھی اسی طریقہ کار کی پیروی کررہےہیں۔ ریاست ہائے امریکا بھی ویکسین لگوانے کی شرائط سے متعلق اپنی موجودہ سخت گیر پالیسی کو لچک دار بنانے کے لیے اس حکمتِ عملی کو استعمال کرسکتا ہے۔ خود سی ڈی سی (امریکن سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول) بھی عرصہ دراز سے ایسے بچوں کو چکن پاکس کی ویکسین لگوانے سے منع کرتا رہا ہے جو ماضی میں چکن پاکس انفیکشن کا شکار ہوچکے ہوں۔


    قدرتی قوتِ مدافعت کو ناقابلِ اعتبار سمجھنے کے مفروضے پر عمل کے نقصانات میں ہزاروں امریکی شہریوں کی ہلاکتیں، ویکسین لگوانے سے پیدا ہونی والی طبی پیچیدگیاں اور عوامی صحت کے ماہرین کی ساکھ کا تباہ ہونا شامل ہیں۔ وائٹ ہاؤس کی طرف سے دی گئی تازہ ترین ہدایات کے نتیجے میں اِس بات کی امید کی جاسکتی ہے کہ ہمارے طبی اداروں کے سربراہان، انکساری اور تواضع کا مظاہرہ کرتے ہوئے اِس حقیقت کو تسلیم کرلیں گے کہ جس مفروضے پر انھوں نے تمام قومی پالیسیوں کی بنیاد رکھی تھی، وہ نہ صرف یہ کہ غلط تھا، بلکہ نقصان دہ بھی تھا۔ 


    آئیے ! ہم سب مل کر سائنسی تحقیقات اور طبی تجربات پر مشتمل علم کے اُس ذخیرے کو قبول کرنا شروع کریں، جو ہمیں واضح الفاظ میں بتا رہا ہے کہ وائرس سے ایک بار صحت یاب ہوجانے والے افراد کو ویکسین کا مکمل کورس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سرکاری طبی ماہرین، جو کہ ماضی میں قدرتی قوتِ مدافعت کی شدت سے مخالفت کرتے رہے ہیں، اگر اپنی رائے سے رجوع کرلیں تو امید ہے کہ یہ اقدام عوام میں طبی ماہرین کی ساکھ بحال کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ 

    بہ شکریہ واشنگٹن پوسٹ۔

    https://www.washingtonpost.com/outlook/2021/09/15/natural-immunity-vaccine-mandate/

    Share via Whatsapp