یورپ کے امریکا و چائنا کے ساتھ تعلقات کی نوعیت - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • یورپ کے امریکا و چائنا کے ساتھ تعلقات کی نوعیت

    اس وقت امریکا چائنہ کو اپنے لئے سب سے بڑا مد مقابل چیلنج سمجھتا ہے. کیا سرد جنگ کی طرح یورپ بھی امریکا کا چائنہ کے خلاف ساتھہ دے کا؟

    By Tayab Memon Published on Oct 09, 2021 Views 1005

    یورپ کے امریکا و چائنا کے ساتھ تعلقات کی نوعیت  

    (سرد جنگ کے بعد عالمی حالات کے تناظر میں ایک جائزہ)

    ڈاکٹر طیب دین میمن۔ حیدرآباد، سندھ


    اس وقت امریکا سیاسی، معاشی و عسکری محاذ پر اپنا سب سے بڑا مدمقابل چیلنج چائنا کو سمجھتا ہے۔ کیوں کہ چائنا  2001ء میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) کی ممبرشپ کے بعد 2010ء میں دوسری بین الاقوامی معاشی قوت بن چکا ہے اور ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے شروع کرنے سے اس کا معاشی دائرہ اَثر پوری دنیا میں اَب محسوس کیا جاسکتا ہے۔ 

    اس قوت میں مزید اضافہ سردجنگ کے خاتمے کے بعد 2001ء سے روس اور چائنا کا سیاسی، معاشی، عسکری اور اسٹریٹیجک محاذ پر شنگھائی کوآپریٹو آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم پر ریجنل ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے سے محسوس کیا جاسکتا  ہے۔ چائنا اور روس کے معاشی و عسکری تعلقات میں  2014ء کے   400 بلین ڈالرز کے گیس کا معاہدہ اور چائنا کا روس کے   S-400 ایئر ڈیفنس سسٹم خرید کر اپنی سرحدوں پر نصب کرنا بہت ہی اہم ہیں۔

    اس لیے امریکا کو اپنی عالمی بالادستی (نیو ورلڈ آرڈر) کمزور ہوتی نظر آرہی ہے۔ چائنا کی معاشی پالیسیاں اور مؤثر سفارت کاری اپنی جگہ، لیکن امریکا کا اپنے تئیں جنگوں میں شامل ہوکر قومی معاشی وسائل کو جھونکنا اور بین الاقوامی معیار کی مدبرانہ صلاحیتوں کی حامل مستحکم سیاسی لیڈرشپ کا فقدان بھی اہم سبب ہیں۔ 

    اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے امریکا اور چائنا کے تعلقا ت پر اپنے تحفظات کا کھل کر اِظہار کیا ہے کہ ایک بار پھر سے سردجنگ کی کیفیت پیدا کرنے سے دور رہا جائے۔ جب کہ 1991ء میں سردجنگ تو ختم ہوچکی ہے، لیکن اس کی نفسیات اَب بھی بین الاقوامی سیاست میں موجود ہیں۔ کمیونسٹ روس کی جگہ چائنا نے لے لی ہے اور مدمقابل امریکا ہی ہے۔ 

    یورپ اور امریکی تعلقات 

    ماضی میں یورپ سردجنگ میں امریکا کا ایک اہم حلیف رہا ہے، لیکن آج بدلتے ہوئے اسٹریٹیجک حالات میں موجودہ یورپ کے چائنا اور امریکا سے تعلقات کی نوعیت جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ 

    فرانس کے امریکا سے تعلقات اس وقت بالکل نچلی سطح پر چلے گئے،جب عراق جنگ کو فرانس کے صدر کی طرف سے سلامتی کونسل میں ویٹوکرنے کی دھمکی دی گئی اور اس دھمکی کو امریکی پالیسی ساز دھوکے سے تشبیہ دیتے تھے۔ عراق جنگ کے نتائج کے اعتبار سے فرانس کے خد شات دنیا کو اس وقت صحیح معلوم ہوئے کہ صدام حسین کے پاس نہ ہی  WMD ہتھیار ہیں کہ القاعدہ کے خلاف دہشت گردی کی جنگ موثر اَنداز میں جیت سکے۔ اس میں مزید اضافہ صدر ٹرمپ کے دورِ صدارت میں ہوا، جب یورپ کے ساتھ تعلقات میں ٹریڈ اینڈ ٹیرف کے معاملات میں سختی، ماحولیاتی تبدیلی پر خیالات میں اختلافات، ایران کے جوہری معاہدے کو یک طرفہ ختم کردینا اور چائنا کے ساتھ سختی سے نمٹنے کی پالیسی اپنائی گئی۔ جوبائیڈن کے صدر بننے کے بعد ان تعلقات میں ایک خوش گوار موڑ ضرور آیا تھا، لیکن افغانستان سے عجلت میں انخلا پر یورپ خوش نہیں ہے اور یورپ کے پالیسی ساز یہ بھی سمجھتے ہیں کہ چائنا کی بڑھتی ہوئی قوت کی بدولت اَب سردجنگ کے حالات نہیں رہے۔ جب امریکی خارجہ پالیسی کا مرکز یورپ تھا۔ اسی پس منظر میں امریکا نئے اتحاد بنانے میں مشغول ہے۔ یورپ بھی اپنی خارجہ پالیسی میں انڈو پیسفک میں چائنا کو بہت ہی اہمیت دیتا ہے۔ اسی کے ساتھ وہ اپنے تعلقات ماسکو سے بھی بہتر کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ 

    انڈو پیسفک ریجن کی اہمیت

    اس وقت امریکی خارجہ پالیسی کا مرکز انڈو پیسفک ریجن (چائنا، آسٹریلیا، انڈیا، جاپان، ملائیشیا، انڈونیشیا، پاکستان، افغانستان، فلپائن،ویتنام، تھائی لینڈ، میانمار، نیپال، یمن وغیرہ) ہے جو ورلڈ جی ڈی پی میں اس وقت 64 فی صد کا شراکت دار ہے اور چائنا کی پوری دنیا کو سپلائی چین(supply chain ) اسی انڈو پیسفک روٹ کے ذریعے ہوتی ہے۔

    اسی لیے اس روٹ پراہم ترین معاشی قوتوں کے اتحاد سے امریکا نے کواڈ (QUAD) جیسے نئے اتحاد بنائے ہیں، جس میں امریکا، انڈیا، آسٹریلیا اور جاپان شامل ہیں اور اس میں دوسرے انڈوپیسفک ممالک کو بھی جلد شامل کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ اور اس کا مقصد چائنا کی معاشی اور عسکری طاقت کا مقابلہ اور اس کو ہر محاذ پر چیلنج کرنا ہے۔یہ اتحاد پہلی بار 2007 ء میں بنا تھا، لیکن جلد ہی دم توڑ گیا۔ اَب کی بار اس اتحاد کی پہلی میٹنگ ستمبر میں امریکا میں ہوئی ہے، جس کا ایجنڈا انڈوپیسفک سمندری حدود کی سیکیورٹی، اسی روٹ پر سپلائی چین(supply chain ) کو محفوظ بنانا، ڈپلومیسی کے تحت کووڈ ویکسین کی ترسیل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ تھا۔ بہ ظاہر یہ غیرعسکری اتحاد ہے، لیکن اس اتحاد کے مقصد اور ایجنڈا کے تناظر میں عالمی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس میں کوئی بعید نہیں کہ انڈوپیسیفک روٹ پر چائنا کے معاشی اور عسکری قوت کے مقابلے میں یہ اتحاد کوئی بھی مشکلات کھڑی کرنے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دے۔ 

    انڈوپیسفک ریجن میں چائنا ہی کے ممکنہ مقابلے کےلیے آسٹریلیا نے امریکا اور برطانیہ کے ساتھ نیوکلیئر سبمیرین ٹیکنالوجی خریدنے کے لیے  90 بلین ڈالرز کا معاہدے کیا ہے، جس نے پہلے ہی سے فرانس اور امریکی کمزور تعلقات میں ایک اور بھونچال پیدا کردیا ہے۔ کیوں کہ آسٹریلیا نے  2016ء  میں 66 بلین ڈالرز کا نیوکلیئر سہولت کے بغیر سبمیرین ٹیکنالوجی کا معاہدہ فرانس سے کیا ہوا تھا۔ 

    اور اس معاہدے پر فرانس کے صدر نے سخت ناراضگی کا اِظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپنے جیسا ہے۔ اسی وَجہ سے فرانس نے کوئی  200 سال میں پہلی مرتبہ اپنا سفیر امریکا سے واپس بلالیا ہے اور اسی طرح آسٹریلیا سے بھی اپنا سفیر واپس بلالیا ،کیوں کہ ان سے کیا ہوا 'معاہدہ' بغیر اعتماد میں لیے ہوئے توڑا گیا ہے۔ اور اس عمل سے فرانس کی ہتھیاروں کی معیشت پر بہت بڑا دھچکا لگا ہے اور فرانس کی عوام جو اس معیشت سے جڑے ہوئے ہیں ان پراس کے بہت ہی برے اَثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ 

    اس ردِعمل سے پتہ چلتا ہے کہ ایک آزاد ملک کس طرح کا رویہ اپناتا ہے، جب کوئی اس کے ساتھ کیا ہوا معاہدہ توڑے، چاہے ان کے تعلقات اور دوستی ایک صدی سے زائد عرصہ پر محیط ہی کیوں نہ ہوں ۔ 

    اسی کے ساتھ چائنا جو آسٹریلیا کا سب سے بڑا ٹریڈ پارٹنر بھی ہے اور ان کا باہمی ٹریڈ کا حجم سالانہ  200 بلین ڈالرز سے زیادہ رہتا ہے۔ ان دونوں کے ٹریڈ پارٹنر ہونے کے باوجود آسٹریلیا کے پچھلے دو دہائیوں سے امریکی بلاک میں ہونے کی وَجہ سے چائنا اور آسٹریلیا کے مابین ایک محاذ کھلا ہوا ہے۔ اور پچھلے سال سے حالات اس وقت بالکل دگرگوں ہوئے، جب کووڈ وائرس کے حوالے سے چائنا امریکی الزام تراشیوں کی زد میں تھا۔ جب 73 واں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جنرل اسمبلی میٹنگ مئی/ 2020 ء میں ہوئی۔اوراس وقت دو درخواستیں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن میں کووڈ پر انویسٹیگیشن کے حوالے سے آئیں: 

    ایک درخواست آسٹریلیا کی طرف سےآئی تھی، جس کو چائنا سیدھا اپنے خلاف سمجھتا تھا۔ 

    دوسری درخواست یورپ کی طرف سےآئی تھی،جس میں ایک مجموعی انویسٹیگشن کرکے حقائق تک پہنچنا اور آنے والے دنوں میں کووڈ جیسے خطرات کو روکنے اور ان کو عالمی وَبا بننے سے روکنے کی حکمت عملی سے جوڑنا تھا۔ 

    چائنا بھی یورپ ہی کی طرز کی انویسٹیگیشن کے لیے راضی تھا اوراس نے معاشی سفارت کاری کے ذریعے یورپ پر اَثر انداز ہوکراس کو اپنے ساتھ ملالیا۔ 

    نتیجے میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اکثریت کی بنیاد پر یورپ کی درخواست کو آزادانہ انویسٹیگیشن کے لیے منظور کرلیا۔ اس کے نتیجے میں جو مارچ/ 2021 ءمیں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی آفیشل رپورٹ کووڈ-19 کے حوالے سے آئی، اس کا لب لباب یہ تھا کہ کووڈ وائرس جانورسے لوگوں میں داخل ہوا ہے۔ یعنی کوئی لیبارٹری میں پیدا نہیں کیا گیا اور ظاہر ہے یہ رپورٹ امریکی خیال کے مطابق صحیح نہیں تھی۔ اسی لیے صدر جوبائیڈن نے پہلے سے اپنی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے انویسٹیگیشن کروائی اور جو اس انویسٹیگیشن کی رپورٹ آئی ہے، اس میں کووڈ کی شروعات کو چائنا ہی کے ساتھ جوڑا گیا ہے اور اس کی چائنا سختی سے تردید کر چکا ہے۔ 

    آسٹریلیا کی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن میں درخواست کا نزلہ چائنا کا مختلف حیلے بہانوں سے آسٹریلیا کی ایگریکلچر سے وابستہ کئی بلین ڈالرز کی برآمدا ت پر پابندی لگانے کی صورت میں آسٹریلیا کی لوکل بزنس کمیونٹی کو اُٹھانا پڑا ہے اور جو خام مال چائنا آسٹریلیا سے لیتا تھا وہ چیزیں چائنا اَب زیادہ تر امریکا سے امپورٹ کررہا ہے۔ 

     یورپ اور امریکی تعلقات (سروے رپوٹ ) 

    یورپ اور امریکی تعلقات میں سردمہری کی وجوہات اور اسباب کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یورپ کےساتھ چائنا ٹریڈ میں بہت ہی آگے بڑھ چکا ہے، جیسے 2020ء میں چائنا اور یورپ نے 709 بلین ڈالرز کی ٹریڈ کی، جس نے پہلی مرتبہ امریکا اور یورپ کے مابین ٹریڈ کو پیچھے چھوڑ دیا۔ نیز اس سال مئی، جون میں امریکا اور چائنا کی سرد جنگ کے حوالے سے یورپ کے بارہ ممالک میں  European Council on Foreign Relation نے سرو ے کرایا تو اس میں اکثر یورپین عوام کی رائے ہے کہ نئی سرد جنگ امریکا اور چین کے مابین شروع ہے۔ لیکن اکثریت کا ماننا ہے کہ پچھلی سرد جنگ کے برعکس اَب کی بار یورپین ممالک اس سرد جنگ میں چائنا( بہ شمول روس) کےمدمقابل نہیں ہوں گے 

    ان سارے واقعات سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد اَب سرد جنگ کے یورپین اتحادی چائنا کے خلاف امریکی ایما  کے مطابق دل جمعی کے ساتھ مل بیٹھنے میں تیار نظر نہیں آتے۔ اور اس میں چائنا کی کامیاب معاشی پالیسی اور امریکا،آسٹریلیا کی جانب سے سب میرین کی خریداری کے معاہدات توڑنے جیسے عوامل شامل ہیں۔ 

    سرد جنگ کے بعد پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کرکے اپنے آپ کو ریجنل قوتوں کے ساتھ سیاسی و معاشی حوالے سے جوڑنے کی ایک کوشش کی ہے اور اسی لیے اَب کی بار پاکستان کی جیو اسٹریٹجک پوزیشن چائنا کو اس روٹ کا نعم البدل فراہم کرتی ہے جو بین الاقوامی ٹریڈ کی سہولت کے لیے بہت ہی اہمیت کی حامل ہے، جس میں پاکستان سی پیک جیسے معاہدوں سے چائنا کوپوری دنیا کے ساتھ ملا کر اپنی قومی معاشی مشکلات کو بھی آسانی سے دور کر سکتا ہے۔

     لیکن اس کےلیے ضروری ہے کہ ملک میں سچی قومی لیڈرشپ پیدا کی جائے۔ جو سی پیک جیسے اہم معاہدات کو وسیع تر قومی مفادات میں استعمال کرنے کی اہلیت رکھتی ہو۔ اور اس وطن کے نوجوانوں کوامریکی آلہ کار سیاست، فرقہ واریت، لسانیت اور تشدد کے جذباتی نعروں سے نکال کرقومی ترقی کی راہ پر گامزن کرے۔ قومی مفادات کے تحفظ اور جمہوری اقدار کے فروغ کےلیے میروٹوکریسی (اہلیت، قابلیت، صلاحیت اور کارکردگی)، ڈسپلن (نظم و ضبط) کی پالیسی اپنائے۔ 

    ان تبدیلیوں کے دورس عالمی اَثرات کیا ہوں گے؟ اس کے بارے تو فی الحال کوئی حتمی رائے نہیں ہوسکتی ۔ لیکن بریکسٹ کے بعد (یعنی برطانیہ کا یورپ سے الگ ہوجانا) اور یورپ کا (فرانس، جرمنی کی سربراہی میں) چائنا اور روس سےنئے معاشی تعلقات کا آغاز اقوام متحدہ کی تشکیل نو کا سبب ضروربن سکتا ہے ۔

    Share via Whatsapp