فرقہ واریت اور نظام کا کردار
فرقہ واریت
فرقہ واریت اور نظام کا کردار
طاہر شوکت۔لاہور
انسان کو حیوانات سے جو چیزیں برتر بناتی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان اجتماع کو پسند کرتا ہے اور اجتماعی ماحول میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہے۔ اس کے برعکس دوسرے حیوانات اِنفرادی زندگی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگر دو شیر ایک پنجرے میں اکٹھے رکھ دو تو بہت کم امکان ہیں کہ وہ سکون سے رہ سکیں۔
اجتماعی سوچ کی اہمیت
ایک جگہ جب کسی چیز کا اجتماع ہوجائے تو اس میں نت نئے پہلو اُبھرتے ہیں۔ اس کو اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ جیسے ایک یونیورسٹی ہے، وہاں پر پورے ملک سے طلبا کا اجتماع ہوتا ہے۔ وہ طلبا جب اکٹھے مل بیٹھ کر علم حاصل کرتے ہیں تو نئے سے نئے پہلو نکالتے ہیں اور ہر سٹوڈنٹ کا نقطہ نظر دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ ان کی نگرانی کے لیے اساتذہ کی ٹیم موجود ہوتی ہے جو ان تمام پہلوؤں پر غور کرتی ہے اور جو پہلو معاشرے کے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں ان پر مزید تحقیق کرواتے ہیں اور جو پہلو معاشرےکے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں ان کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ اسی طرح انسانی معاشرہ اجتماعیت پسند ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس دائرے کے معاشرے میں تمام انسان آپس میں مل جل کر شیر و شکر ہوکر زندگی بسر کریں۔
اگر ہم درج بالا مثال کا تجزیہ اپنے عام معاشرے پر کریں تو وہاں پر بھی ہمیں انسانوں کا اجتماع ملتا ہے، جن کی زندگی، حالات، نظریات اور سوچ کا انداز ہر دوسرے انسان سے الگ ہوتے ہیں۔ ایک جیسے نظریات رکھنے والے لوگ آپس میں مل جاتے ہیں اور ان کو معاشرے میں پھیلانے اور غالب کرنے کی خواہش و کوشش کرتے ہیں۔ جوہری طور پر ایسے نظریات کو غالب آنا چاہیے، جس کے نتیجے میں انسانی معاشرے میں اجتماعیت، انسانی بھلائی، امن و عدل، اخلاقیات، اخوت و ترقی اور رواداری جیسے عالمگیر اقدار روبہ عمل ہوں اور اگر اس کے برعکس ایسا نظریہ معاشرے میں پھیل جائے، جس سے نظام عدل و انصاف، انسانی ترقی و اخوت اور اجتماعیت کے قیام کے بجائے گروہیت پسندی و فرقہ بندی، نسل پرستی و شدت پسندی کے جذبات اور شخصیت پرستی، تشدد، جذباتیت وغیرہ پیدا ہوتی ہے اور اگر ایسی سوچ مذہبی بنیاد پر ہو تو یہیں سے فرقہ واریت پیدا ہوتی ہے۔ اگر ایسے ماحول میں اس سوچ کے حامل لوگوں کو سنبھالنے کا کوئی نظام موجود نہ ہو تو ہر گروہ خود کو حق پر اور دوسروں کو گمراہ قرار دے کر، اپنی سوچ اور نظریے کے فروغ کے لیے میدان عمل میں نکل کر ایک دوسرے کے خلاف عدم برداشت کا مظاہرہ کرکے جنگ و جدل کا ماحول پیدا کرکے ایک دوسرے کے مقابلے پر آئیں گے۔
جب دو یا زیادہ گروہ آپس میں مدمقابل ہوں گے تو یقینی طور پر معاشرے پر ان کے بداَثرات مرتب ہوں گے۔ معاشرے کو ان کے اَثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے ماہرین کی ایسی ٹیم کا ہونا ضروری ہے جو دونوں فریقین کی بات سنے اور ان میں سے جو معاشرے کے لیے بہتر ہے اس کا فروغ دے کر دوسرے کو اپنی اجتماعی طاقت سے کمزور کر دے تاکہ معاشرے میں انارکی نہ پیدا ہو۔ لیکن اگر ایک معاشرے کا نظام انسان دوست نہیں ہے تو اس نظام کے کارندے ہر گروہ کا ساتھ دے کر ان کے انتشار کو مزید بڑھاتے ہیں، جس سے اس نظام بد کو تقویت ملے۔ ایسا نظام معاشرے کو منتشر رکھنے کے لیے ایسے گروہ پیدا کرتا رہتا ہے، تاکہ عوام اس کی کارستانیوں پر خاموش رہے اور فرقہ پرست گروہ ایک دوسرے کو کوستے رہیں کہ ان کی وَجہ سے ترقی رُکی ہوئی ہے۔
امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں: "کوئی فکروعمل اس وقت تک درست قرار پاتا ہے، جب وہ قوت عقلیہ کے حوالے سے علم صحیح پر مشتمل ہو اور اس طرح قوت عملیہ کے حوالے سے عمل صحیح پر مشتمل ہو اور قرآنی نظام فکر و عمل کی خصوصیت بھی یہی ہے کہ وہ عقل صحیح اور عمل صحیح کے تقاضوں پر پورا اُترتا ہے۔"
فرقہ سے کیا مراد ہے؟
فرقہ سے مراد لوگوں کا ایسا گروہ جو ایک خاص مقصد کے لیے اکٹھے ہوں اور اس کے فروغ کے لیے مل کر کوشش کریں۔ وہ فرقہ سیاسی بھی ہو سکتا ہے، وہ فرقہ معاشی، مذہبی، قانونی، علمی و معاشرتی بھی ہوسکتا ہے تو فلاحی کاموں کے لیے بھی ہوسکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
یہ تمام گروہ و فرقے اس وقت تک کسی معاشرے کے لیے سودمند ثابت ہو سکتے ہیں، جب تک ان کے اوپر ایک مضبوط حکومتی نظام موجود نہ ہو جو ان کو اپنے اپنے دائرے میں محدود رکھے، جیسے ہی یہ نظام سستی دکھائے گا ایسے فرقے سر اُٹھانا شروع کر دیں گے اور معاشرے کو منتشر کرتے چلے جائیں گے۔ ایک وقت آئے گا کہ انسان اتنا خودپرست بن جائے گا کہ وہ صرف اپنی ذاتی آرا کے فروغ کے لیے دوسروں سے الجھنا شروع کر دے گا اور معاشرے کا شیرازہ بکھیر دے گا۔
فرقہ واریت اور نظام ظلم
فرقہ واریت کو ہمیں اس تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب قوم زوال کا شکار ہوکر انا پرست اور ظالم حکمرانوں کی غلامی میں مبتلا ہوجاتی ہے تو اس وقت فرقہ واریت سر اُٹھاتی ہے اور اس کی آبیاری وہ ظالم حکمران طبقہ کرتا ہے، جس کے سیاسی و معاشی مفادات اس نظام حکومت سے وابستہ ہوتے ہیں۔ ایسا حکمران طبقہ مفادپرست مذہبی ٹولے کو اپنے ساتھ ملا کر فرقہ واریت اور عدم برداشت کو اُبھارکر خود مسند اقتدار پر براجمان رہتا ہے اور بے شعور مذہبی طبقہ اس رو میں بہتا چلا جاتا ہے، جیسے فرعون کے دور میں ہوا اور ماضی قریب میں برطانوی سامراج کے دور میں ہندوستان میں ہوا اور کئی فرقے وجود میں آئے۔ اسی طرح فرقہ پرست جماعت جب بھی انسانی معاشرے میں سیاسی طور پر غالب آتی ہے تو معاشرے زوال و انتشار کا شکار ہوجاتے ہیں، ان کی وَجہ سے ملک میں فرقہ وارانہ نفرت و تشدد بھڑکتا رہتا ہے۔
فرقہ وارانہ ہم آہنگی۔
قرآن حکیم اجتماعیت پر مبنی روادارای اور برداشت کی سوچ دیتا ہے اور اس سوچ پر مبنی سماج کے قیام کی دعوت دیتا ہے، اجتماعی سوچ پر مبنی جماعت جب بھی حکومت میں آئے گی تو معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے گی، لوگوں کے جان، مال اور عزت کا تحفظ کرے گی، معاشرے کی اجتماعی ضروریات کو پورا کرنے کا نظام وضع کرے گی، اس جماعت کا ساتھ دینے کی ضرورت ہوتی ہےتاکہ معاشرہ کو تباہی سے بچایا جا سکے ۔ یہ قانون فطرت ہے کہ معاشرے میں کبھی ایک سوچ کے حامل لوگ اور کبھی دوسری سوچ کے حامل لوگ اقتدار پہ غالب ہوتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ پائیدار حکومت اسی کی ہوتی ہےجو انسانیت کی فلاح کے لیے کام کرتاہے ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح شعور عطا کرے اور اپنے معاشرے کا درست بنیادوں پر تجزیہ کرنے کی صلاحیت عطا کرے۔