نوجوانوں کا استحصال اور اس کا تدارک - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • نوجوانوں کا استحصال اور اس کا تدارک

    کسی انسان یا گروہ کی محنت، وسائل یا قابلیت کا ناجائز فائدہ اُٹھانےاور اسے اس کا جائز حق یا بدلہ نہ دینے کو استحصال کو کہتے ہیں۔ یہ ظلم اور ناانصافی ۔۔

    By اویس اشرف Published on Dec 20, 2024 Views 176

    نوجوانوں کا استحصال اور اس کا تدارک

    تحریر: اویس اشرف۔سعودی عرب 

     

    کسی انسان یا گروہ کی محنت، وسائل یا قابلیت کا ناجائز فائدہ اُٹھانےاور اسے اس کا جائز حق یا بدلہ نہ دینے کو استحصال کو کہتے ہیں۔ یہ ظلم اور ناانصافی کی وہ صورت ہے، جس کا شکار زیادہ تر وہ طبقات ہوتے ہیں جو طاقت اور وسائل سے محروم ہوں۔ پاکستان میں نوجوان ملک کی سب سے بڑی آبادی ہونے کے باوجود، مختلف سطحوں پر شدید استحصال کا شکار ہیں۔ اس استحصال کے اَثرات ان کی زندگی کے ہر شعبےمعیشت، تعلیم، سیاست اور سماجی حالات پر نظر آتے ہیں۔

    پاکستان میں موجود معاشی استحصال نوجوانوں کی زندگی پر سب سے گہرا اَثر ڈال رہا ہے۔ بیروزگاری کا مسئلہ شدت اختیار کر چکا ہے۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت کے مواقع محدود ہیں۔ جو ملازمتیں دستیاب ہیں، ان میں اُجرت غیرتسلی بخش ہے۔ اکثر نوجوان کم اُجرت پر طویل گھنٹوں تک کام کرنے پر مجبور ہیں۔ کمپیوٹر سائنس اور انجینئرنگ جیسے شعبوں سے فارغ التحصیل طلبا بھی اکثر کال سینٹرز یا غیرمعیاری نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ غیررسمی شعبوں (ایسے کاروبار جن کا ریکارڈ اور نگرانی حکومتِ پاکستان کے دائرہ اختیار سے فی الحال باہر ہے) میں کام کرنے والے نوجوانوں(یومیہ اُجرت پر کام کرنے والے دیہاڑی دار محنت کش) کو کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں ہوتا اور وہ استحصال کی بدترین شکلوں کا سامنا کرتے ہیں۔

    معاشرتی استحصال بھی پاکستانی نوجوانوں کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے۔ طبقاتی فرق نے نوجوانوں کے لیے ترقی کی راہیں محدود کر دی ہیں۔ ایک طرف امیر طبقے کے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم اور وسائل تک مکمل رسائی حاصل ہے، تو دوسری طرف غریب نوجوان بنیادی تعلیم اور صحت کی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ اس کے علاوہ والدین اور معاشرتی توقعات نوجوانوں پر غیرضروری دَباؤ ڈالتی ہیں، جس سے ان کی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے۔ خاندانی دَباؤ کے تحت ڈاکٹر یا انجینئر بننے کی خواہش اکثر نوجوانوں کو اپنی دلچسپی کے شعبوں میں کام کرنے سے روکتی ہے، جس سے ان کی تخلیقی صلاحیتیں دَب جاتی ہیں۔ صنفی امتیاز اور تعصب نوجوانوں کے لیے ترقی کے راستے مسدود کر دیتا ہے۔ لڑکیوں کو اکثر تعلیم اور ملازمت کے مساوی مواقع فراہم نہیں کیے جاتے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں۔ اس کے علاوہ مذہبی اور لسانی تعصب اقلیتوں اور مختلف زبان بولنے والے نوجوانوں کے لیے مزید رکاوٹیں پیدا کرتا ہے۔

    تعلیمی استحصال پاکستان میں نوجوانوں کے خوابوں کو چکنا چور کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار انتہائی ناقص ہے، جب کہ پرائیویٹ ادارے اتنے مہنگے ہیں کہ عام طالب علم ان کا خرچ برداشت نہیں کر سکتا۔ دیہی علاقوں کے طلبا کے پاس نہ تو کمپیوٹر لیبز ہیں اور نہ ہی معیاری اساتذہ۔ اس کے علاوہ تعلیمی نظام میں قدامت پسندی اور رَٹا سسٹم ،جدید ہنر سیکھنے کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔  نتیجہ یہ ہے کہ نوجوان اپنی تعلیم کو عملی زندگی میں استعمال کرنے کے قابل نہیں رہتے۔

    سیاسی نظام بھی نوجوانوں کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے ان کے استحصال کا ذریعہ بن گیا ہے۔ نوجوانوں کو سیاست میں شامل ہونے یا اپنی آواز بلند کرنے کے مواقع کم دیے جاتے ہیں۔ وہ صرف انتخابات کے وقت ووٹ بینک کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، اور ان کے مسائل کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ حکومتی سطح پر یوتھ کونسلز یا پالیسی ساز اداروں میں نوجوانوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے، جس کی وَجہ سے ان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے مؤثر اقدامات نہیں کیے جاتے۔

    پاکستان میں نوجوانوں کا استحصال ایک منظم طریقے سے کیا جاتا ہے۔ سرکاری ادارے تعلیم، صحت اور روزگار کے میدان میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہیں۔ کرپشن اور سفارش کلچر نے نوجوانوں کے لیے میرٹ پر ترقی کو ناممکن بنا دیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام، جس میں وسائل پر چند افراد یا طبقے کا قبضہ ہوتا ہے، عام نوجوان کو پس ماندہ رکھنے کا سبب بنتا ہے۔

    پاکستانی نوجوانوں کا استحصال نہ صرف ان کی صلاحیتوں کو ضائع کر رہا ہے، بلکہ ملک کی مجموعی ترقی کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ اسے ختم کرنے کے لیے ایک منصفانہ اور شفاف نظام کی تشکیل ناگزیر ہے، جہاں نوجوانوں کو مساوی مواقع اور حقوق فراہم کیے جائیں۔ اس کے بغیر ملک کا مستقبل تابناک نہیں ہو سکتا۔اس استحصال کو ختم کرنے کے لیے تعلیمی، سیاسی اور سماجی سطح پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ تعلیمی نظام میں جدید نصاب اور عملی مہارتوں کو شامل کر کے طلبا کو موجودہ دور کی ضروریات کے مطابق تیار کیا جاسکتا ہے۔ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے صنعتوں کو فروغ دیا جائے۔ نوجوانوں کو خود بھی اپنی صلاحیتوں کو پہچاننا ہوگا اور ایک منظم طریقے سے اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی۔ سماجی تنظیم کے ذریعے ایک مثبت تبدیلی کے لیے راہ ہموار کرناوقت کااہم تقاضاہے۔

    نوجوانوں کے استحصال سے نجات حاصل کرنے کے لیے سیرت النبی ﷺ سے رہنمائی لینا نہایت اہم ہے۔ آپ ﷺ نے انصاف، مساوات اور انسانی حقوق کا جو نظام قائم کیا، وہ ہر دور کے انسانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپ ﷺ نے معاشرتی طبقات کے درمیان تفریق کو ختم کیا، نوجوانوں کو عزت و وقار دیا اور انھیں قیادت کے مواقع فراہم کیے۔ حضرت علیؓ، حضرت اسامہ بن زیدؓ، اور دیگر نوجوان صحابہؓ کو اہم ذمہ داریاں سونپنا اس بات کی مثال ہے کہ نوجوانوں کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق مواقع فراہم کرنا چاہییں۔ آج اگر معاشرتی انصاف کےلیے عادلانہ نظام کیا جائے۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے مدینہ کی ریاست میں کیا، تو نوجوانوں کا استحصال ختم ہو سکتا ہے اور وہ معاشرے کی ترقی میں مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔

     

    Share via Whatsapp