سرمایہ دارانہ سوچ ، ڈارون کی حیاتیاتی تھیوری کا غلط استعمال
سرمایہ داری نے اپنے ظالم نظام کو اخلاقی جواز فراہم کرنے کے لیے ڈارون کی حیاتیاتی تھیوری۔۔۔۔۔۔۔
سرمایہ دارانہ سوچ ، ڈارون کی حیاتیاتی
تھیوری کا غلط استعمال
تحریر: سہیل قریشی۔ پشاور
دنیا میں بسنے والی ہزاروں مخلوقات کو فطرت کی
طرف سے کچھ خاص نوعی خصوصیات ودیعت کی گئی ہیں۔مخلوقات کی فطری پیدائشی ترتیب کو
دیکھا جائے تو سب سے پہلے جمادات ہیں، جمادات کے بعد نباتات کا دور ہے، نباتات کے
بعد حیوانات کا دور ہے اور حیوانات کے بعد سب سے اعلیٰ درجے کی مخلوق انسان ہے۔
ماہرین سماجیات کے نزدیک یہ اہم سوال رہا ہے کہ
انسان دیگر مخلوقات سے ممتاز کیسے ہے؟ کون سی خصوصیات ہیں جو نوع انسانی کو باقی
مخلوقات سے اشرف اور اعلیٰ بناتی ہیں؟
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے نزدیک انسان کو
اللہ پاک نے تین بنیادی خصوصیات عطا فرمائی ہیں، جن کی بنیاد پر اسے دیگر تمام
مخلوقات سے ممتاز کیا جاسکتا ہے۔
پہلی خصوصیت اس میں ایجاد و تقلید کی ہے۔
انسانوں میں اعلیٰ عقل و سمجھ کے حامل افراد زندگی میں سہولت پیدا کرنے اور مسائل
کو حل کرنے کے لیے نت نئے آلات و علوم ایجاد کرتے ہیں۔ دیگر انسان ان ذہین دماغوں
کے علوم وفنون، تجربات اور دیگر ایجادات سے فائدہ اُٹھاتے اور ان کی تقلید کرتے
ہیں۔ ایجاد اور تقلید انسانوں کا فطری اور پیدائشی جذبہ ہے۔
اسی طرح انسان کی دوسری خصوصیت حب جمال یا خوب
صورتی سے محبت اور نفاست پسندی ہے۔ انسان نفاست کو پسند کرتا ہے اور اشیائے ضروریہ
میں نفاست پیدا کرتا ہے۔ غاروں میں رہائش اور کچا گوشت کھانے سے لے کر آج شیشے کے
محلات اور انواع و اقسام کے کھانے اسی جذبے کا نتیجہ ہیں۔
اسی طرح تیسری اہم خصوصیت جو انسانیت کا جوہر
ہے، رائے کلی یا مفاد عامہ کی سوچ ہے۔ انسان اپنے دل میں فطری طور پر انسانی
ہمدردی و خیرخواہی اور ظلم و زیادتی کے خلاف نفرت کا ایک فطری جذبہ رکھتا ہے،
انسان کسی دوسرے انسان کو زخمی دیکھے یا تکلیف میں دیکھے تو اس کا دل فطری طور پر
اس کی مدد کرنے کو تڑپتا ہے۔
خنجر
چلے کسی پر تو تڑپتے ہیں ہم امیر سارے
جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
یہی اجتماعی سوچ اور سارے جہاں کا درد پالنا،
انسان کی جبلت میں شامل ہے، جسے امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے رائے کلی سے تعبیر
کیا ہے، تہذیب کا آغاز اسی رائے کلی سے ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں رائے جزی یا صرف
مفاد پرستی کی سوچ ہے۔ اگرچہ ہر انسان میں ذاتی فائدے کی سوچ پائی جاتی ہے، جو کہ
فطری ہے، اور اسی سے ترقی کا دروازہ کھلتا ہے، لیکن یہ ذاتی فائدہ اجتماعی فائدے
کے مطابق اور اجتماعیت سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ اس کے مقابلے میں مفادپرستی کی سوچ
انسان کو اس کے مقام انسانیت سے گرا کر اغراض کا بندہ بنا دیتی ہے، جس میں وہ ذاتی
فائدے کی خاطر اجتماع کو نقصان پہنچانے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ انسانیت فطری طور پر
مفادپرستی کی مخالف ہے، اسے رائے کلی کہا جاتا ہے۔
لیکن ڈارون کی حیاتیاتی تھیوری کی بنیاد پر
یورپین مفکرین میں یہ خیال پیدا ہوگیا کہ چوں کہ انسان جانور/حیوان کی ارتقائی شکل
ہے، اس لیے یہ دیگر جانوروں سے کچھ خاص ممتاز نہیں۔ جوہری طور پر اس میں اور دیگر
جانوروں کے رویوں میں فرق نہیں، جس طرح جانور محض پیٹ پالتے یا جنسی خواہش پوری
کرتے ہیں، اسی طرح انسان کا دائرہ حیات بھی ہے، حیوانی زندگی میں طاقت کے زور پر
ذندہ رہنے کا اصول ہے، اسی طرح وہ انسانی معاشرے میں صرف طاقت ور کے زندہ رہنے کو
جائز سمجھتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظریہ زندگی جو وحشی قسم کی
مفادپرستی کے زیراَثر گھڑا گیا، اس کو اخلاقی بنیادیں فراہم کرنے کی غرض سے ڈارون
کی بائیولوجیکل تھیوری کو سوشل تھیوری بنایا گیا۔ اور یوں اِنفرادیت پسندی کو
بنیادی انسانی جبلت قرار دینے کی مذموم کوششیں شروع کی گئیں۔ کارل مارکس کے بہ قول
یورپ میں مفاد پرست قسم کے بکے ہوئے فلاسفر پیدا کیے گئے اور فنڈنگ کر کے دنیابھر
میں ان کے لٹریچر کو فروغ دیا گیا۔ تاکہ دنیائے انسانیت کو یہ باور کرایا جا سکے
کہ انسان جانور سے کوئی مختلف چیز نہیں اور جو کچھ جنگل کی زندگی میں ہوتا ہے،
یعنی جانوروں کے درجے کے قوانین ہیں، وہی قوانین انسانی معاشرے پر بھی لاگو ہونے
چاہیے ہیں۔
سرمایہ دارانہ فلسفے کا نمائندہ اس وقت امریکا
ہے۔ وقتاً فوقتاً امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ دنیابھر میں بنیادی انسانی حقوق کے حوالے
سے اپنی فکرمندی کا اِظہار کرتا رہتا ہے۔ بنیادی انسانی حقوق میں وہ اِنفرادیت
پسندی پر بہت زیادہ زور دیتا ہے اور فرد کو اجتماع اور سٹیٹ کے مقابلے میں طاقت ور
بنانا چاہتا ہے،بلکہ ریاست کو طاقت ور افراد کے تابع، بلکہ ان کے ہاتھ میں کھلونا
بنانے کو بنیادی حق گردانتا ہے۔ یہ اِنفرادیت پسندی کیا ہے؟ جس کو ڈارون کی تھیوری
سے بنیادیں فراہم کی جارہی ہیں؟ اس کی مثال یوں سمجھیے کہ ایک انسان جس کے پاس
گندم کے گودام بھرے پڑے ہیں، کوئی قانون، ادارہ، ریاست یا انسانی اجتماع اس کو اس
بات پر مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ یہ رزق اپنے اردگرد بھوک سے مرتی مخلوق پر خرچ
کرے۔ یہ اس کا اِنفرادی حق ہے۔ چاہے باقی لوگ بھوک سے ہی کیوں نہ مرجائیں۔ یہی
معاملہ زمین، انڈسٹری اور دیگر وسائل کے متعلق بھی ہے۔
اس وقت دنیا کا سب سے بڑا روگ سرمایہ پرستی پر
مبنی عالمی نظام اور اس کے زیراَثر مختلف ممالک میں گماشتہ سرمایہ دارانہ نظام ہے۔
جس نے ہمارے ملک سمیت دنیابھر کے انسانوں کو فکری، سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل
سے دوچار کر رکھا ہے۔ عالمی سرمایہ دار طبقات انسانیت سے عاری وحشی سوچ کے تحت دنیابھر
کے انسانوں کو لوٹ رہے ہیں اور اس لوٹ مار کو قانونی جواز اور پیچیدہ طریقہ کار
بخشا گیا ہے۔ انسانیت کو اس روگ سے نجات دلانے کا واحد راستہ دین اسلام کا دیا گیا
انسانیت دوست فکر و نظریہ ہی ہے، جس کی روشنی میں انسان دوست سیاسی، معاشی اور
سماجی نظام قائم کیا جا سکتا ہے۔ نوجوانوں کو اِنفرادیت پسند اور سرمایہ پرستانہ
سوچ و مرعوبیت سے نکال کر انسان دوست نظریے پر منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ اعلیٰ فکر
پر منظم جماعت ہی سرمایہ پرست نظام کو چیلنج کرکے اس کو تبدیل کرسکتی ہے۔
ہر ایک اولی الامر کو صدا دو کہ اپنی فرد عمل سنبھالے
اٹھے گا جب جام سرفروشاں پڑیں گے دار و رسن کے لالے
کوئی نہ ہوگا کہ جو بچا لے جزا سزا سب یہیں پہ ہوگی
یہیں عذاب و ثواب ہوگا یہیں پہ روز حساب ہوگا