سماجی تشکیل نو کا حقیقی تصور اور طریقہ کار - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سماجی تشکیل نو کا حقیقی تصور اور طریقہ کار

    اس آرٹیکل میں "سماج کی تشکیل نو "کو شاہ ولی اللہ کے نظریہ "فک کل نظام" اور سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں اجاگر کیا گیا ہے۔

    By Qamar ud din khan Published on Jan 08, 2025 Views 119

    سماجی تشکیل نو کا حقیقی تصور اور طریقہ کار

    تحریر : انجینئر قمر الدین خان۔راولپنڈی


    اِنسانی سوسائٹی اجتماعیت کا نام ہے، جس کو  ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے مضبوط عادلانہ نظام کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ نظام اس بات کا ضامن ہوتا ہے کہ اس کے زیرِ اَثر تمام لوگوں کو بلاتفریق رنگ، نسل، مذہب، علاقہ اور زبان سب کو سیاسی آزادی، معاشی خوش حالی اور عدل و انصاف میسر ہو۔ لیکن اِس کے برعکس اگر کوئی سوسائٹی غلامی، معاشی جَبر وظلم کا شکار ہے تو یقیناً اس پر نافذ نظام اِنسانیت دشمن ہے۔ ایسا فرعونی نظام انسانی سوسائٹی کے لیے سرطان جیسا ہوتا ہے، جس کا نتیجہ اِنسانیت کی تباہی و ہلاکت کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس لیے انسانیت کی بقا کے لیے ایسے نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا اور اس کی جگہ عادلانہ نظام قائم کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ نظام کی اس مکمل تبدیلی کو سماجی "تشکیل نو" کہا جاتا ہے۔


    پاکستان میں نافذ نظام کا اگر بہ غور جائزہ لیں تو  معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظام اپنی عوام کو خوراک، صحت، تعلیم اور امن وغیرہ جیسے بنیادی انسانی حقوق دینے سے قاصر ہے۔ عدل و انصاف کی یہ حالت ہے کہ انصاف حاصل کرنے کے لیے بےپناہ مالی وسائل کے استعمال کے ساتھ ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے، جس میں کئی نسلیں گزر جاتی ہیں ، لیکن انصاف نہیں ملتا۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ مملکتِ پاکستان کا عوام الناس کو عدل وانصاف فراہم کرنے کے حوالے سے دنیا میں 139واں نمبر ہے۔ 

    معاشی بدحالی کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ملک کی قریباً نِصف آبادی  خطِ غربت کو چُھونے لگی ہے اور امن و امان کی صورتِ حال یہ ہے کہ گھر سے نکلنے والا شہری صحیح سلامت  گھر واپس پہنچنے کی گارنٹی نہیں رکھتا۔ آئے روز قتل وغارت،  چوری وڈکیتی، لوٹ مار اور دہشت گردی نے انسانی خون کو سستا بنا دیا ہے۔ آج امن و امان کے حوالے سے پاکستان دنیا میں 128 ویں نمبر پر ہے۔

    اِن اَعداد وشمار کو سامنے رکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ  انتہائی زوال یافتہ ہے، جس کا ذمہ دار پچھلے 77 سالوں سے  پاکستان پرمُسلط  انگریز کا  غلامانہ سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام ہے، جس کی وجہ سے آئے روز عوام کے لیے مسائل  کم ہونے کے بجائے زیادہ ہو رہے ہیں۔ مسائل میں دَھنسی پاکستانی عوام اَب اس امر پر غور کرنےلگی  ہے کہ ان کے مسائل کا ذمہ دار یہ طبقاتی نظام ہے اور اس نظام کو  تبدیل ہونا چاہیے۔ عوام میں نظام کی تبدیلی کی سوچ  کا پیدا ہونا ایک خوش آئند بات ہے۔ لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ عوام تبدیلی نظام  کے پروگرام اور طریقہ کار سے بالکل ناواقف ہے۔ اس کے لیے یا تو وہ کسی لیڈر کے پیچھے لگ کر الیکشن کے ذریعے نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں یا پھر وہ امام خمینی جیسی شخصیت کے پیدا ہونے کے لیے دُعا گو ہیں جو  اِن کو اِس نظامِ ظلم سے نجات دِلاسکے۔

    مندرجہ بالا سوچ سے پتہ چلتا ہے کہ بے شعوری وبےعملی کی یہ سوچ  اس نظام کی  پیدا  کردہ ہے اور یقیناً  اس کے نتائج بھی اسی نظام کے حق میں نکلتے ہیں۔ اس لیے تبدیلی نظام کی ایسی سوچ اگر پوری قوم میں ہی کیوں نہ پیدا ہو جائے، تب بھی حقیقی تبدیلی ممکن نہیں، جب تک کہ تبدیلیِ نظام کے پورے پروگرام ، طریقہ کار اور حقیقی مفہوم کو سمجھنا انتہائی ضروری  اور  دَور کا تقاضا ہے۔

    1۔ سماجی تشکیل نو کامفہوم

    سماجی تبدیلی کا مطلب ہے نظام  یعنی مکمل تبدیلی۔ امام شاہ  ولی اللہ دہلویؒ  اس کو "فک کُلِ نظام" یعنی نظام کی مکمل تبدیلی  کہتے ہیں۔

     2۔طریقہ کار

     دُنیا کا ایک اصول ہے کہ کسی بھی پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک سوچ یعنی  فکر و فلسفہ کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ پھر اس فکر وفلسفہ پر ہم فکر لوگوں کی جماعت پیدا کر کے اگلے درجے میں اس پروگرام کو عملی جامہ پہنانا ہوتا ہے۔ سماجی تبدیلی  کے بھی یہی مراحل ہیں، یعنی ایک فکر وفلسفہ پر طے شدہ  لائحہ  عمل پر جماعت کی تیاری اور اگلے مرحلے میں نظامِ ظلم کو ختم کر کے اس کی جگہ عادلانہ نظام  قائم کرنا ہے۔ اس لیے نظام کی تبدیلی اور عدل کے نظام  کا قیام تربیت یافتہ جماعت کے ذریعے ہی ممکن ہوتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ ایک فرد (چاہے وہ کتنا ہی باصلاحیت کیوں نہ ہو) تنہا تبدیلی پیدا کرلے گا، خلافِ عقل وتجربہ ہے۔ نہ ہی اس پر تاریخ سے کوئی مثال ملتی ہے۔ نبوت ملنے کے بعد نبی پاک ﷺ اپنے مِشن(لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ) کی تکمیل کی خاطر رُفقائے کار کو تلاش کر کے اُن کی "دَارِ اَرقَم" میں نظامِ ظلم کے خلاف اور نظامِ عدل کے قیام کے حوالے سے تربیت اور ذہن سازی کرتے ہیں۔  مکہ  میں جماعت سازی کا مرحلہ انتہائی مشکل اور کٹھن حالات میں تیرہ سال تک  جاری رہا اور  لگ بھگ 80  سے 100 صحابہ کِرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی جماعت تیار ہوئی، جو اگلے مرحلے میں مدینہ ہجرت  کرکے  ریاست مدینہ کی صورت میں سماج کی تشکیل نو کرتی ہے-تھوڑے ہی عرصے میں یثرب (بیماریوں کاشہر)مدینہ منورہ (تمدن کا شہر) بن جاتا ہے اور اگلے آٹھ سال میں سماج  کی مکمل تشکیل تکمیل پذیر ہوتی ہے۔ مکہ میں نظام ظلم کا سورج  غروب ہوتا ہے - اگلے دور میں جماعتِ صحابہ ؓ پوری دُنیا میں قرآنی فکر پر عادلانہ نظام قائم کرتی ہے۔ 

    ہم مسلمان  ہیں اور ہمارے لیے ہمارے پیارے نبی ﷺ کی سیرت مثالی اورعملی نمونہ ہے۔ اس لیے ہمیں سماج کی تشکیل نو کے فلسفے اور طریقہ کار کو سمجھنے کے لیے نبیؐ کی قائم کردہ سماجی تبدیلی  کے طریقہ کار اور مراحل کو سمجھنا ہوگاکہ تبدیلی نظام کا طریقہ کار اور اس کے  مراحل کیا ہیں؟

    یہ امر توجہ طلب ہے کہ خواہشات کبھی نتیجہ پیدا نہیں کرتیں، جب تک  اس کےساتھ درست عمل  شامل نہ ہو۔ انقلاب جذباتیت پر مبنی یا اچانک ہو نے والا عمل نہیں، بلکہ اس کے لیے شعوری جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ پہلے درجے میں اعلیٰ فکر پر جماعت کی تیاری اور اگلے مرحلے میں عوام کی حمایت سے نظام کی تبدیلی ہوتی ہے۔ دنیا میں آنے والی ہمہ گیرتبدیلیاں چاہے وہ نبویؐ جدوجہدسے ہو یا کوئی اور اسے لائے، وہ فرد واحد کا کمال نہیں، بلکہ ان کو قائم کرنے والی ایک جماعت ہوتی تھی۔ اگرچہ لیڈر نے رہنمائی اور نمائندگی کا کردار ضرور ادا کیا، لیکن سماجی تبدیلی کی عملی شکل جماعت کے ذریعے ہی ممکن ہوئی۔

    آج وطنِ عزیز کے نوجوان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ  تبدیلی نظام کا ایک مُسلمہ طریقہ ہے اور نبویؐ عمل رول ماڈل ہے۔ نبویؐ سماجی تبدیلی کے فلسفے کو سمجھ کر شُعوری جدوجہد کے لیے اپنے آپ کو پیش کرنا ہوگا۔ شعور کے بغیر جذباتی عمل کا نتیجہ ہمیشہ نظام ظلم کے حق میں نکلتا ہے۔ اگر آج ہمارا نوجوان مثبت  کردار ادا کرنے سے پیچھے ہٹے گا تو پھر اس کو یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ  مسائل سے چھٹکارا  بھی ایک خواب  ہی رہے گا۔

    ضرورت اس اَمر کی ہے کہ ہمارا نوجوان دینی سماجی تبدیلی کے حقیقی تصور اور طریقہ کار کو سمجھے اور نظامِ ظلم کی پیدا کردہ نام نہاد انقلابی اور دیگر مذہبی و سیاسی جماعتوں سے بَراءت کا اعلان کر کے شعور کی بنیاد پر اپنی تنظیم پیدا کرنے میں کردار ادا کرے۔یقیناً وہ دن دُور نہیں، جب پاکستان میں  بھی نظام ظلم کا سورج غروب ہوگا اورنظامِ عدل کی صبح ہوگی۔

    Share via Whatsapp