جمہوریت،آمریت اور سرمایہ دارانہ جمہوریت
جمہوریت کا تصور ایک فطری تصور ہے۔لیکن سرمایہ دارانہ جمہوریت حقیقی جمہوریت نہیں ہے۔اس میں جمہوریت کا ظاہری ڈھانچہ تو ہے مگر اس کی روح نہیں۔
جمہوریت، آمریت اور سرمایہ دارانہ جمہوریت
عمیر ظفر۔راولپنڈی
جمہوریت کا لفظ "جمہور" سے نکلا ہےاور لغت میں جمہور کے معانی "لوگوں کا بڑا گروہ" ہے۔ علم سیاسیات میں جمہوریت کی سب سے آسان تعریف یوں کی جاتی ہے: "کسی ریاست میں تنظیم کی وہ شکل جہاں لوگوں کے پاس اقتدار ہوتا ہے اور لوگ اپنے فیصلے خود کر سکتے ہیں۔"
یہ بات تو بالکل مسلم ہے کہ تمام لوگ ایک ساتھ فیصلے نہیں کر سکتے یا تمام لوگ ایوانِ اقتدار میں نہیں جا سکتے اس لیے وہ اپنے چند نمائندے منتخب کرتے ہیں جو ان کی نمائندگی کرتے ہیں۔
کسی قوم پر حکومت کرنے کا اختیار کس کو ہے؟ اس کی تین صورتیں ممکن ہیں ۔اول تو یہ کہ اللہ تعالٰی اس کا فیصلہ کر دیں۔ لیکن یہ صورت اَب ممکن نہیں، دوسرا یہ کہ بندوق کے زور پر کوئی اقتدار پر قبضہ کر لے۔ اس کو کوئی بھی سلیم الفطرت شخص درست اور جائز نہیں کہہ سکتا۔تیسری اور آخری صورت یہی ممکن ہے کہ لوگ خود فیصلہ کریں کہ ان کی نمائندگی کون کرے گا۔ یہی صورت عقل کے قریب تر ہے اور اس میں تمام لوگوں کی رائے کو بھی برابر حیثیت دینی ہو گی، ورنہ سوسائٹی کا ایک حصہ احساس کمتری کا شکار ہو جائے گا۔ البتہ یہ ضرور کیا جا سکتا ہے کہ ایوانِ نمائندگان میں جانے کے لیے اہلیت کے کچھ معیار مقرر کر لیے جائیں۔لیکن ان لوگوں کا انتخاب بلاتفریق رنگ،نسل اور مذہب تمام لوگوں کا حق ہے۔
قرآن مجید کی سورہ شوری میں اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کو ان کی اجتماعی حیثیت سے مخاطب کیا اور کہا کہ "ان کے معاملات باہمی مشورے سے طے پاتے ہیں۔"(1)یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ "ان سے مشورہ کیا جاتا ہے۔"ان دونوں جملوں کی تاثیر میں جو فرق ہے اہل علم اس سے خوب واقف ہیں۔ دوسرے جملے کے مفہوم میں یہ بات داخل ہے کہ مشورہ لینے والے کو اختیار و رد کا حق حاصل ہے۔ جب کہ پہلے جملے میں (جو حکم قرآن ہے) یہ مفہوم داخل ہے کہ کوئی مشورہ لینے والا نہیں ہے۔ سب کی حیثیت مساوی ہے۔ جو اس بات پر پابند کرتا ہے کہ معاشرے کے تمام افراد اس مشورے میں برابر حیثیت سے شریک ہوں گے۔جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے کہ تمام لوگ ایوانِ اقتدار میں نہیں جا سکتے، اسی لیے حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلوی ؒنے سب سے پہلے ایوان نمائندگان کی بات کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ "چند ارباب فہم و دانش کی پارلیمنٹ مل کر یہ فریضہ سر انجام دے۔" (2)
اس کے برعکس اگر ہم آمریت کے نظریے پر نظر ڈالیں تو وہ انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالٰی یا اس کے مقرر کردہ کسی بندے کے سوا کسی کو حق حاصل نہیں کہ وہ لوگوں پر ان کی مرضی کے خلاف حکومت کرے۔ جو حکومت لوگوں کی مرضی یا رائے کے بغیر وجود میں آئے گی وہ لوگوں کے حقوق کی کبھی ضامن نہیں ہوسکتی ۔ انسان طبعاً آزاد پیدا ہوا ہے۔اس لیے اس کی صلاحیتوں کا اِظہار اسی وقت ممکن ہے جب وہ آزاد ماحول میں زندگی گزارے۔
اَب اگر ایک نظر ہم آج کل کی جمہوریت یا سرمایہ دارانہ جمہوریت پر ڈالیں تو وہ لوگوں کی رائے یا مرضی سے قائم ہونے والی حکومت کا نام نہیں۔ بلکہ سرمایہ داری نظام درحقیقت حقیقی جمہوریت کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ جیسا کہ امام شاہ ولی اللہ دہلوی نے معاشی حوالے سے یہ بات کی تھی کہ ایک مزدور اگر مجبوریوں کی وَجہ سے کم اُجرت پر کام کرنے پر راضی ہو جائے تو اس کی یہ رضا مندی حقیقی رضا مندی نہیں ۔ اسی طرح سرمایہ داری نظام میں ایک ووٹر کی رضامندی بھی حقیقی رضامندی نہیں۔ اس کو سرمائے کی طاقت سے اکثر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ کسی خاص امیدوار کو ووٹ ڈالے۔ سرمایہ داری نظام میں سرمائے کو سب سے بڑی حیثیت حاصل ہے۔ ایک سرمایہ دار اپنے سرمائے کے زور پر با آسانی ایوانِ اقتدار میں آسکتا ہے۔اس کے لیے وہ مختلف حربے استعمال کر سکتا ہے۔وہ پروپیگنڈا کر سکتا ہے۔مخالف فریقوں پر الزامات لگا کر یا بے تحاشا رقم خرچ کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے دوسرے طریقے ہیں جنھیں سرمایہ دار اختیار کر کے با آسانی ایوان نمائندگان میں جا سکتا ہے۔
اَب رہا یہ سوال کہ آج ہم کیسا نظام بنائیں؟ جو کہ جمہوری بھی ہو اور اس میں جاگیرداری اور سرمایہ داری لوگوں کی رائے پر اثر انداز نہ ہوں۔ تو اس کے لیے تحریک آزادی کے مجاہد مولانا عبید اللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ نے 1924ء میں آزاد ہندوستان کے لیے ایک دستوری خاکہ مرتب کیا تھا۔اس میں انھوں نے ہندوستان کے لیے آزاد جمہوری حکومت کا تصور دیا، لیکن اس کے ساتھ انھوں نے یہ تجویز بھی دی:
"ملک کے بڑے طبقوں یعنی کاشت کار، مزدور اور دماغی محنت کرنے والوں کوچھوٹی صنفوں یعنی سرمایہ دار اور زمین دار کی طرح جمہوری حکومت کے ہر شعبے میں نمائندگی کا حق ان کی تعداد کے مطابق دے کر محفوظ کر دیا جائے۔" (3)
یعنی محنت کشوں کا حق اسمبلیوں میں ان کی تعداد کے لحاظ سے محفوظ کر دیا جائے۔اور ان نمائندوں کا انتخاب لوگوں کے ذریعے کروایا جائے۔مولانا عبید اللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی کے ساتھ اقتصادی نظام بھی ایسا رکھنے کی تجویز دی، جس سے سرمایہ داری نظام کی کمر ٹوٹ جائے ،تا کہ سرمایہ کسی طرح بھی لوگوں کی رائے پر حاوی نہ ہو جائے۔
الغرض میں اپنی بات کا خلاصہ اس طرح سے کروں گا کہ کسی شخص کو یہ حق نہیں کہ وہ بندوق کے زور پر لوگوں کی مرضی کے خلاف ان پر حکومت کرے۔ اسی طرح چند سرمایہ داروں کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ سرمائے کے زور پر سرمایہ دارانہ آمریت قائم کر کے اس کو جمہوریت کا نام دیں۔ لوگوں کو آزادانہ ماحول دیا جائے اور پھر ان کی رائے کے مطابق فیصلہ کیا جائے کہ ان کا حکمران یا نمائندہ کس کو بنایا جائے۔
حوالہ جات
1۔سورہ شوری آیت 38
2۔شعور و آگہی مولانا عبید اللہ سندھی
3۔خطبات و مقالات،مولانا عبید اللہ سندھی