مذہبی جماعتیں اور کیمونزم
ہمیں یہ پتہ نہیں چلا کہ پاکستانی اسلام مشرف با کمیونزم ہوگیا یا کمیونزم مشرف با پاکستانی اسلام ہوگیا
مذہبی جماعتیں اور کیمونزم
تحریر: نور وہاب، دبئی
چائنہ کمیونسٹ پارٹی کی صد سالہ تقریبات کروا رہاہے ۔ اور اپنی قوم میں زندگی کی نئی روح پھونک رہا ہے۔ پاکستان کی مذہبی جماعتوں کے رہنما،چائنہ کی کمیونسٹ پارٹی سے اپنے تعلقات پر فخر کرتے ہیں۔ چائنہ کی قیادت،ویژن اور مظلوم انسانوں کے لیے ان کی کاوشیں اور ون روڈ ون بیلٹ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔ وہ چینی قیادت کی ایسی تعریفیں کرتے ہیں، جیسے وہ کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کے حلیف ہیں ۔ بعض جماعتیں جو چالیس سال سے کمیونزم کی مخالفت کرتی آرہی ہیں ، کمیونزم کے خلاف ان کے قائدین کی تقریریں اور تحریریں اَب بھی سنی اور دیکھی جاسکتی ہیں کہ انھوں نے پاکستان میں ہر ترقی پسند اور سرمایہ دارانہ نظام کے مخالف پر کمیونسٹ ہونے کے فتوے لگائے اور کالج اور یونیورسٹی میں اسلحہ کے زور پر ان کا راستہ روکنے کی کوشش کی ۔ ایک اسلامی جماعت کے امیر بھی چائنہ کمیونسٹ پارٹی سے 2009 ءسے تعلقات کو فخر کی نظر سے دیکھتے ہیں اور کمیونسٹ پارٹی کے چیئرمین کو عزت مآب جیسے الفاظ سے یاد کرتے ہیں اور چینی کمیونزم کو ہر قسم کی خدمات پیش کرنے کی آرزو، خواہش اور تمنا کرتے ہیں ۔
چالیس لاکھ پختونوں کے قتل کرنے، افغانستان اور پاکستان کی تباہی،پچاس لاکھ افغانوں کو بے گھر،سو سال افغانستان اور ستر اسی سال پاکستان کو ترقی کے راستے سے پیچھے رکھنے، اسی فی صد پاکستان اور افغانستان کو انتہا پسند، شدت پسند اور ذہنی طور پر پس ماندگی اور جنگ کے راستے پر ڈالنے ، لاکھوں افغانوں اور پختونوں کو ہیروئن اور اسلحہ تھمانے کے بعد اسلام اور کمیونزم آپس میں ایسے بغل گیر ہوگئے، جیسے ان کی آپس میں کوئی دشمنی ہی نہیں تھی ۔ کمیونزم کمیونزم ہے چاہے وہ روسی کمیونزم ہو یا چینی کمیونزم۔ اگر کمیونزم اتنا ہی عمدہ نظام ہے تو دس سال تک افغانستان میں روسی کیمونزم سے لڑنے کی کیا ضرورت تھی؟ لاکھوں لوگوں کو اس آگ میں دھکیلنے کی کیا ضرورت تھی؟ افغانستان اور اس کے نتیجے میں پاکستان کو تباہی میں ڈالنے کی کیا ضرورت تھی؟
بتلایا گیا کہ روس گرم پانی تک رسائی چاہتاہے، اسے روکنا ضروری ہے ۔ اسی گرم پانی پر چائنہ کو رسائی دی گئی۔ اَب اسی روس کو گرم پانی تک رسائی کی دعوت دی جارہی ہے ۔اسی مذہبی جماعت کے مرکزی رہنما ماسکو جاکر فرماتے ہیں کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے سے انسانیت کا بہت بڑا نقصان ہوا۔اَب اگرکمیونزم اتنا ہی اچھا نظام ہے تو سرمایہ داری نظام کی جگہ اس نظام کو کیوں نہیں رائج کرلیتے ؟ان تضادات سے سوالات تو جنم لیتے ہیں کہ وہ کیمونزم کی مخالفت تھی یا سرمایہ داری نظام کی آلہ کاری اور مفادات کا حصول؟
اسلحہ کی معیشت کے حامل،سر مایہ دارانہ نظام کی بقا،جنگوں میں ہے ۔روس کے ساتھ جنگ کے بعد امریکا نے کمزور اور چھوٹے ملکوں پر جنگیں مسلط کرکے ان کے وسائل کو لوٹنے اور ہڑپ کرنے کی کوشش کی ۔ عراق، افغانستان، لیبیا اور شام کو بہت بڑا دشمن دکھا کر ان پر جنگیں مسلط کیں،ان کے وسائل بے دردی سے لوٹ لیے اور لاکھوں لوگوں کاقتل کیا، نام نہاد مسلم عسکریت پسند گروہوں، جنھیں مذہبی سیاسی پارٹیوں کی فکری اور اخلاقی تائید حاصل رہی، نے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ اَب سامراجی قوتوں کی ترجیحات بدل گئیں۔جنھیں جھکنے کی عادت پڑچکی ہوتو وہ جھکنے کے لیے نئے بت تراش لیتے ہیں۔تیسری دنیا کی عوام کو پون صدی کمیونزم سے ڈرا کر سرمایہ دارانہ نظام کی جکڑ بندیوں میں باندھ کر رکھا گیا۔ یہ کتنی بڑی منافقت رہی کہ سرمایہ دارانہ نظام کی موجودگی میں قوم کو کمیونزم سے ڈرایا جاتا رہا۔
چاہیے تو یہ تھا کہ تیسری دنیا پر مسلط سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کی جاتی ۔ دینی فکر کی اساس پر سماج کی تشکیل کی تعلیم دی جاتی ۔ لیکن نوجوانوں کی توانائی سرمایہ دارانہ نظام کے بجائے کمیونزم کے خلاف استعمال کی گئی، جس سے سرمایہ دارانہ نظام کو مذہبی پشت پناہی ملی اور اس نظام کی زندگی طویل ہوگئی۔حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام ہی انسانوں کی حقیقی کامیا بی کا ضامن ہے، جس میں بلاتفریق رنگ، نسل اور مذہب ہر ایک کے لیے سیاسی امن، سماجی عدل ، معاشی خوش حالی کی ضمانت موجود ہے …