سامراجی سیاست - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سامراجی سیاست

    ایک مسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سرچ کرے کہ اسلام کا سیاسی نظام کیا ہے، اسلام کا معاشرتی نظام کیا ہے، اسلام کا اقتصادی نظام کیا ہے،

    By محمدجنیدزاہد Published on Aug 11, 2021 Views 1300
    سامراجی سیاست
    تحریر؛ محمد جنید۔چشتیاں 

    سیاست عربی زبان کا لفظ ہے، جس کا مقصد لوگوں کو ایک لڑی میں پرو کے رکھنا ہے۔سیاست کے معنی راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرکے صراطِ مستقیم پر چلنا ہے۔ لغت میں سیاست کے معنی حکومت چلانا اور لوگوں کی امر و نہی کے ذریعہ اصلاح کرنا ہے۔ اصطلاح میں : فن حکومت اور لوگوں کو اصلاح سے قریب اور فساد سے دور رکھنے کو سیاست کہتے ہیں۔ 

    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا مفہوم ہے کہ بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیائے کرام علیہم السلام کرتے تھے۔چناں چہ اس حدیث سے پتہ چلا کہ سیاست انبیائے کرام علیہم السلام کا منصب ہے ، جوظلم کا خاتمہ کر کے عدل و انصاف قائم کرتے ہیں۔
    آج بدقسمتی ہے کہ مسلمان زوال میں ہیں اور سیاست کا جو حقیقی مفہوم ہے کہ عدل و انصاف قائم کیا جائے اور لوگوں کے مسائل حل کیے جائیں ۔ امن، عدل اور خوش حالی پیدا کی جائے۔وہ اب کسی بھی سمت دکھائی نہیں دےرہا۔
     اس زوال کے دور میں ایک سچے مسلمان اور ایک سچے پاکستانی ہونے کے ناطے ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش کے ماحول کا بہ غور تجزیہ کرے اور نبوی سیاست اور سامراجی سیاست میں فرق اور تمیز پیدا کر ے۔

     موجودہ دور کی سامراجی سیاست کو دیکھا جائے تو اس میں مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں ۔ یہی وَجہ ہے کہ بھوک افلاس ڈرخوف والی کیفیت ہے ۔ اس صورتِ حال میں ایک مسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ معلوم کرے کہ اسلام کا سیاسی نظام کیا ہے، اسلام کا معاشرتی نظام ، اقتصادی ، عدالتی ، تعلیمی نظام اور اسلام کا دفاعی نظام کیا ہے ۔حتی کہ زندگی کے ہر شعبے کے حوالے سے مکمل رہنمائی حاصل کرے۔اسی میں دین و دنیااور آخرت کی فلاح ہے۔

    ایک انگریز سیاست دان اپنے بچے سے پوچھتا ہے کہ کیا آپ سیاست سیکھنا چاہتے ہو؟ تو اس کے بیٹے نے کہا جی! میں سیاست سیکھنا چاہتا ہوں تو اس کے والدنے اسے ایک مرغی خانہ بنا کر دیا اور کچھ دنوں کے بعد اس نے اس سے پوچھا کہ جب آپ مرغیوں کو دانا دنکا ڈالنے جاتے ہو ،پانی دینے جاتے ہو تو کیا مرغیاں آپ کے اردگرد اکٹھی ہوتی ہیں؟ تو اس نے جواب دیا کہ بالکل بھی نہیں ہوتیں ۔
     اس کے والد نے اسے کہا کہ آپ کچھ دنوں کے لیے ان کی خوراک بند کردو جو پہلے دانا ڈالا ہوا ہے، اس پر مرغیوں کو گزارا کرنے دو۔ اس نے اپنے والد کی بات مانی اور اس پر عمل کیا جب دانا دنکا اور پانی ختم ہو گیا ، چوبیس گھنٹے 36 گھنٹے یا 3دن گزر گئے ۔تو ان مرغیوں نے شور مچانا شروع کر دیا ۔ پھر اس کے والد نے دوبارہ اپنے بیٹے کو اجازت دی کہ جاؤ اور اَب دانا ڈالو ۔ تو اس کے بیٹے نے اس پر عمل کیا جب وہ واپس آیا تواس کے والد نے پوچھا کہ اب تم دانہ ڈالنے گئے تھے تو کیا دیکھا کیا مشاہدہ ( Observe) کیا ؟ اس نے جواب دیا اس بار مرغیاں میرے اردگرد اکٹھی ہو گئی تھیں ہرمرغی چاہتی تھی کہ پہلےاسے دانا دنکا ملے۔
    اس پر اس کے والد نے اس سے کہا کہ اَب غور کرو کہ جب ان کو خوراک اور پانی مل رہا تھا۔ انھیں کسی چیز کی فکر نہیں تھی، آرام سے کھا پی رہے تھے تو اس لیے تمھارے پاس اکٹھی نہیں ہو رہی تھیں۔لیکن جیسے ہی تم نے اس کی روٹی کا مسئلہ پیدا کیا تو وہ فورا تمھارے اردگرد اکٹھا ہونا شروع ہوگئیں۔ تو اس پر اس انگریز نے اسے سمجھایا کہ عوام کو بھی اسی طرح مرغی ہی سمجھنا ہے ،کیوں کہ اگر آپ ان کے مسائل ان کے (Door Step) پر ہی حل کر دو گے تو وہ تمھاری عدالتوں میں تمھاری ڈھیروں سفارش لے کر نہیں آئیں گے۔ اس لیے جان بوجھ کر مسائل پیدا کرو عوام کو ڈرا کر رکھو تاکہ ان پر حکومت قائم ر ہے۔

    اس ساری تعلیم و تربیت سے جو اس انگریز سیاست دان نے اپنے بیٹے کو سکھائی اس سے پتہ چلتا ہے کہ سامراجی نظام انسانیت کے مسائل کا حل پیش نہیں کرتا ، بلکہ مسائل پیدا کرتا ہے اور لوگوں کو آپس میں لڑوا کر وسائل پر قبضہ کرتا ہے۔ 

    آج ہم اپنے ملک پاکستان کا بہ غور تجزیہ کریں تو 74 سال سے اسلامی نظام نافذ نہیں ہو سکا۔کہنے کو تو اسلام کے نام پر ملک لیا گیا، لیکن یہاں اسلام کے مطابق نہ معیشت ہے اور نہ معاشرت ۔نہ تعلیم ، نہ سیاست ، نہ پارلیمنٹ اور نہ عدالت۔ تاکہ ملکی عوام کو امن ، عدل، خوش حالی اوربنیادی ضروریات باآسانی حاصل ہوتیں ۔
     لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جو انگریز برصغیرمیں تجارت کے بہانے آیا تھا ۔ اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی بنا کر یہاں کی سیاست مذہبی امور اور معاشی امور میں دخل اندازی کرنا شروع کردی اور اپنے ناپاک عزائم کے لیے یہاں لوگ خریدے اپنے ایجنٹ پیدا کیے، مال و دولت دے کر مسلمانوں اور مقامی لوگوں کےخلاف نفرتیں پیدا کیں اور ان غداروں کے ذریعے سے پورے برصغیر پر قبضہ کرلیا۔
    دو قومی نظریہ کی بنیاد بھی یہاں کی مقامی طاقت کو کمزور کرنا اور ان کو تقسیم کرکے ان پر اپنی اور اپنے آلہ کاروں کی حکومت قائم کرنا تھی ،اس مشن کے لیے اس نے شدت پسند ہندوؤں اور انتہا پسند مسلمانوں کو استعمال کیا، جس کے نتیجے میں باہمی نفرت پیدا ہوگئی ۔بھوک اور افلاس ڈر اور خوف کی کیفیت پیدا ہو گئی لوگ ایک دوسرے کے دشمن بن گئے ۔ حتی کہ مسلمانوں نے علیحدہ ملک کا مطالبہ کر دیا، جس کے پیچھے بھی انگریز سامراج کی چال تھی ۔
    اَب اگر ہم موجودہ دور میں دیکھیں تو انگریز سامراج آج بھی "لڑراؤ اور حکومت کرو"کے مشن پر کام کر رہا ہے۔
    تو اَب ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ دور کا نوجوان اپنے گردوپیش کے مسائل پر نظر رکھے اور ولی اللہی جماعت کی رہنمائی میں سامراجی سیاست کو سمجھے۔
    اللہ تعالی ہمیں سچی اور علمائے حق کی انقلابی جماعت سے استقامت کے ساتھ جوڑے رکھے۔ آمین ثم آمین!
    Share via Whatsapp