اعمال و نتائج کا باہمی تعلق اور تصور مہدی
تحریر ؛ محمد عقیل وٹو ، اسلام آباد
انسانی زندگی کا مرکز و محور ارواح ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح دُنیا میں آنے سے پہلے بچہ ماں کے پیٹ میں وقت گزارتا ہے، وہ ایک زندہ وجود کے طور پر گزارتا ہے۔ لیکن انسان سمجھنے میں آسانی کے لیے زندگی کی گنتی ، بچے کے دُنیا میں آنے کے وقت سے شمار کرتا ہے۔ اسی وجہ سے " میثاقِ الست " اللہ اور ارواح کے مابین ہوا۔
انسانی زندگی کا اختتام حقیقت میں نہیں ہے ۔ یہ دُنیا بھی بالکل ویسا ہی ایک مرحلہ ہے، جیسے ماں کے پیٹ میں گزرا وقت ، لیکن اس دُنیا میں آنے کے لیے ماں کے پیٹ میں وہاں کی زندگی کا اختتام ضروری ہے ۔ ایسے ہی دُنیاوی زندگی کے اختتام پر انسانی زندگی اپنے اگلے اور یقینی مرحلے میں داخل ہو جاتی ہے ۔ اسی حقیقت کو امام شاہ ولی اللہؒ انسانی زندگی کی وحدت کا نام دیتے ہیں۔
ذات باری تعالیٰ نے جب کائنات تخلیق کی تو کائنات کا نظام چلانے کے اصول ، انصاف کے تقاضے کے مطابق پوری انسانیت کے لیے مساوی قرار دیے۔
ان اصولوں میں سے ایک اصول یہ ہے کہ ہر عمل کا ایک یقینی نتیجہ ہوتا ہے ۔ جہاں اعمال بدلتے ہیں، وہاں حالات و واقعات بدلنے لگتے ہیں۔ وضاحت کے لیے مندرجہ ذیل احادیث سے مدد لی جا سکتی ہے۔
حدیثِ مبارکہ ہے : جو شخص ایک مرتبہ سبحان اللہ العظیم وبحمدہ پڑھتا ہے تو اس کے نتیجے میں اس شخص کے نام جنّت میں ایک درخت لگا دیاجاتا ہے ۔
( جامع ترمذی : ج ؛ 2 / 184 )
قرآن کریم میں انفاق فی سبیل اللّٰہ ( صدقہ و خیرات ) کے نتیجے میں 700 گنا اور نیت کے خلوص کے موافق اس سے بھی زیادہ کا اجر بتلایا گیا ہے ۔ (البقرہ ؛ 261 )
احادیث فتن کی روشنی میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ دجّال کا وجود حضرت نوح علیہ السلام کی قوم سے لے کر اس کے ظہور تک آنے والی تمام قوموں کی بداعمالیوں کا نتیجہ ہے اور ہر برے عمل سے دجّال کا جسم پھلتا پھولتا ہے۔ اس دُنیا میں جو بھی اعمال انسان کرتے ہیں ان سب کی جزا سزا (نتیجہ) آخرت میں ضرور سامنے آئے گی، لیکن یہ ضابطہ صرف آخرت سے تعلق نہیں رکھتا، بلکہ اِس دُنیا میں بھی کار فرما ہے۔ کیوں کہ انسان جو بھی عمل کرتا ہے وہ خدا کے سامنے پیش ہوتا ہے اور اپنا ایک وجود مانگتا ہے۔ اچھا عمل ہو تو اچھا وجود ہوتا ہے جب کہ برا عمل ہو تو برا وجود ۔
ولی اللّٰہی فکر میں اعمال کے فیصلے رائے كلی ( اجتماعی مفاد ) کی بنیاد پر پرکھے جاتے ہیں ۔ انفرادی اعمال کا نتیجہ انفرادی سطح پر اثر پیدا کرتا ہے اور اجتماعی اعمال کا نتیجہ اجتماعی سطح پر اپنا اثر پیدا کرتا ہے۔ یہی اصول نیوٹن اپنے حرکت کے تیسرے قانون میں دہراتا ہے کہ ہر عمل کا ردِعمل ہوتا ہے اور عمل کی شدت سے رد عمل میں بھی شدت آتی ہے۔ نیوٹن نے یہ بات صرف طبیعیات کے تناظر میں کہی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس پوری کائنات میں عمل اور نتیجے کا قانون کار فرما ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس اصول کا ہماری انفرادی یا اجتماعی زندگی سے کیا تعلق؟ تو جواب یہ ہے کہ :
انسانی معاشرے کے عناصر
انسانی معاشرے کا وجود اور بقا تین بنیادوں پر منحصر ہوتا ہے۔ 1. نظریہ 2. سیاسی نظام 3. معاشی نظام۔
اَب اگر ہم پاکستان کے نظام کا جائزہ لیں تو ہمارا نظریہ کہنے کو تو اسلام ہے، لیکن ہمارے ملک میں سامراج کا استحصالی سرمایہ دارانہ نظام ہماری قوم کا خون چوس رہا ہے۔ دین کو ہم نے سیاست سے الگ کر رکھا ہے اور انگریز کے نافذ کردہ 200 سال پرانے نظام کو قائم و دائم رکھا ہوا ہے، جس کے نتیجے میں ہمارے گلے میں معاشی غلامی کا پھندا کسا ہوا ہے ۔ اور یہ سب نتائج ہماری اجتماعی غلطیوں، انفرادیت پسندی، ملکی سطح پر غلط پالیسیاں بنانے، نااہل حکمران مسلط ہونے، غلط نظام کو قبول کرنے اور عقل و شعور سے دوری کے ہیں۔ اگر آپ کا بجٹ آئی ایم ایف بنائے گا تو اس کا نتیجہ مہنگائی و بیروزگاری میں اضافے اور قرضوں کی معیشت کا ہوگا۔
الحاصل
جب تک نوجوان صالح دینی فکر کو نہیں سمجھیں گے، سیاست اور معیشت کو نہیں سمجھیں گے، بلکہ ملک کی باگ ڈور نا اہل اور جاہل حکمرانوں اور سیاست دانوں کے حوالے کیے رکھیں گے تو ایسے اعمال کے پھر یہی نتائج سامنے آئیں گے۔ امام مہدی کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ امام مہدی کم از کم ہماری زندگیوں میں تو ظاہر نہیں ہونے والے ! کیوں کہ خدا کا قانون ہے کہ وہ کسی قوم کے حالات اس وقت تک نہیں بدلتا۔ جب تک وہ خود اپنے حالات سنوارنے کے لیے اپنا کردار ادا نہ کریں ( الرعد ؛ 11 ) جب میثاقِ ا لست میں اللہ کی وحدانیت کا اقرار ہر روح نے کیا تھا تو دُنیا میں آکر اللہ کا دیا ہوا نظام قائم کرنے کے لیے اپنا کردار کیوں ادا نہیں کیا جارہا؟ وقت کے رہنما امام کو تلاش کر کے اجتماعیت قائم کیوں نہیں کی جارہی؟ امام مہدی بھی ایک باشعور جماعت کے ساتھ مل کر ہی ظلم کے نظام کا خاتمہ کریں گے تو پھر یہ عمل کیوں اختیار نہیں کیا جا رہا !
ایک غلط فہمی کا ازالہ
یہ غلط فہمی ہمارے ذہنوں میں باقاعدہ ایک بیرونی سازش کے تحت بٹھائی گئی ہے کہ حضرت امام مہدی اکیلے سب کا مقابلہ کریں گے ۔ مغربی ہیرو ازم کے تحت یہ سوچ ہمارے ذہنوں میں راسخ کی گئی کہ کوئی " فرد واحد پوری قوم کی بقاء کا ضامن ٹھہرتا ہے " ۔
ہمارے نوجوان کو فاسد نظام تعلیم کے ذریعے بےاعتمادی اور نا اُمیدی کا ایسا زہر پلایا گیا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو پہچاننے اور اُنہیں بروئے کار لانے کی کوئی تدبیر نہیں کرتا۔ وہ تقدیر کے نام پر ہاتھ پر ہاتھ رکھے کسی معجزے کے ظہور کا انتظار کرتا ہے۔
معجزات کی حقیقت
ایسے میں یہ بات سمجھنی بہت ضروری ہے کہ معجزات کے اسباب میں اولولعزم انبیا/ اولیا اور ان کی جماعت کی ہمتیں اور اعمال نتیجہ خیزی میں شامل ہوتے ہیں۔ یہاں ہر شخص یہ بات کرتا ہے کہ نظام خراب ہے، لیکن صالح نظام کیا ہے ؟ اور کیسے رائج ہو سکتا ہے ؟ اس پر کوئی شخص بات نہیں کرنا چاہتا۔ جب کہ طاغوتی طاقتیں مسلسل اپنی تخریب کاری جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کائنات کے اہم اصول (اعمال کے نتائج) کے مطابق طاغوت ہم پر حکمرانی کر رہا ہے۔
ہمارے کرنے کا کام :
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے 1000 سالہ دور عروج کا مطالعہ کریں، تاکہ ہم صالح نظام کو سمجھ سکیں اور 200 سالہ غلامی کے دور کا مطالعہ کریں تاکہ ہم غلامی کے اسباب جان کر وہی غلطیاں دہرانے سے رک جائیں۔
علمائے حق کی قربانیوں اور کاوشوں کو جان کر ہمارے اندر آزادی و حریت کا جذبہ بیدار ہو ، ناامیدی اور بے اعتمادی کی فضا ختم ہو تاکہ ہمارے اندر اپنے وقت کی اجتماعیت اور اس کی امامت سنبھالنے کی صلاحیت پیدا ہو۔
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اجتماعیت قائم کرنے اور عدل و انصاف کا نظام قائم کرنے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔ آمین!