اجتماعی اخلاق اور نظام حکومت کا کردار - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • اجتماعی اخلاق اور نظام حکومت کا کردار

    ہمارے اجتماعی اخلاق ہمارے اوپر رائج نظام حکومت کے عکاس ہوتے ہیں برے اخلاق برے نظام کا نتیجہ ہوتے ہیں اور اعلی اخلاق اچھے نظام پر منحصر کرتے ہیں

    By Tahir shaukat Published on Jun 26, 2021 Views 1435
    اجتماعی اخلاق اور نظام حکومت کا کردار
    تحریر: طاہر شوکت، لاہور

    اکثر ہم میں سے یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ گزرے زمانے کے لوگ اچھے تھے، ان کے اخلاق بلند تھے، وہ مہمان نواز تھے، ملنسار تھے۔ لیکن آج کا انسان خود غرض ہے، مطلب پرست ہے، دولت کا پجاری ہے، اخلاقی طور پر تنزلی کا شکار ہے وغیرہ وغیرہ۔ 
    اَب اہل عقل کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کبھی اس دنیا میں اعلیٰ اخلاق بلندی پرواز ہوتے ہیں تو کبھی انسان اپنے جیسے انسانوں کو جانوروں سے بدتر سمجھتا ہے۔ اس کی کیا وَجہ ہو سکتی ہے؟ آخر وہ کون سے عوامل ہیں، جن کی وَجہ سے انسانیت کے اخلاق بدلتے رہتے ہیں۔ 
    اخلاق ماحول سے بنتے ہیں اور ماحول حکومتی و معاشی نظام سے بنتا ہے۔ اگر اس دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات ہم پر آشکار ہوتی ہے کہ انسان اس دنیا میں چھ سے سات ہزار سال پہلے آیا تھا اور مختلف ادوار میں مختلف رحجانات رہے ہیں، جیسے بنی اسرائیل کے حالات فرعون کے زمانے میں اَور تھے اور جب حضرت موسی علیہ السلام نے ان کو آزادی دلائی تو ان کے اخلاق میں نمایاں تبدیلی نظر آتی ہے۔ 
    قریش عرب کے حالات کا اگر مطالعہ کیا جائے تو وہاں پر بھی ہمیں یہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ قبل از اسلام ان کے اخلاق گراوٹ کا شکار تھے وہ مختلف سماجی اور معاشی بدکاریوں میں مبتلا تھے، لیکن اسلام کے بعد ان کے اخلاق دنیا کے لیے نمونہ بن گئے اور نہ صرف اپنے بلکہ غیروں نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ عرب اسلام کے بعد دنیا کی رہنمائی کےلیے موزوں ترین تھے۔ 
    اسی طرح برصغیر کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات ہم پر آشکار ہوتی ہے کہ مسلمانوں کے دور حکومت میں یہاں کے لوگ اعلیٰ اخلاق، بہترین معاشرتی روایات کے حامل تھے۔ پنجاب کی تاریخ رہی ہے کہ یہ خطہ صداقت و راست گوئی، مہمان نوازی اور ملنساری میں اپنی مثال آپ ہے، لیکن جیسے جیسے زمانہ گزرتا جا رہا ہے۔ بتدریج یہ روایات بھی دَم توڑتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ شہروں میں تو یہ بہت ہی نایاب ہو چکی ہیں۔ ہمارا ملک پاکستان آج عدل و انصاف، راست گوئی، ایمان داری میں کیا مثال رکھتا ہے وہ بھی آج ہمارے سامنے حقیقت ہے۔
    اَب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسا کیسے ہوا کس طرح ایک قوم کے اخلاق پستی سے بلندی کی طرف لے گئے ان میں کیا تبدیلیاں لانی پڑیں۔ دراصل ہمارے اخلاقی رویے تابع ہوتے ہیں، حکومتی نظام کے اگر ہمارا نظام حکومت انسان دوستی اور خدا پرستی کے نظریے پر بنا ہے تو ہمارے اجتماعی رویے انسان دوستی کے ہوتے ہیں۔ اگر ہمارا نظام حکومت سرمایہ پرستی اور ہوس دولت کے نظریے پر بنا ہو گا تو ہمارے اجتماعی رویے دولت کے حصول کے ہوں گے۔ حتی کہ ہماری رشتہ داریاں بھی دولت کی بنیاد پر بنتی ہیں۔ 
    یہاں پر یہ چیز بھی دیکھنا ضروری ہے کہ نظام حکومت ہے کیا چیز؟ اس کو چلاتا کون ہے؟ تو نظام حکومت بنیادی طور پر تین بڑے ادارے مل کر چلاتے ہیں اور وہ یہ ہیں۔ 
    1۔ مقننہ یعنی قانون ساز ادارہ، جسے پارلیمنٹ بھی کہا جاتا ہے، جس کا کام ملک کو چلانےکے لیے قانون سازی کرنا ہے۔
    2۔ عدلیہ یعنی عدالت، جس کا کام قانون کی تشریح کرنا ہوتا ہے اور ملکی قوانین کے مطابق عوام کی رہنمائی کرنا ہوتا ہے۔ 
    3۔ انتظامیہ یعنی بیوروکریسی جس کا کام قانون پر عمل درآمد کرانا ہوتا ہے۔ یہ حکمت عملی تیار کرتے ہیں۔ 
    اگر ایک ملک کی اجتماعی حالات کا جائزہ لینا ہو تو آپ ان تین اداروں کا مطالعہ کر لیں آپ کو معلوم ہو سکتا ہے کہ اس ملک کے حالات کیسے ہوں گے۔ اگر ایک ملک کی اجتماعی حالت خستہ ہے، لوگوں کو روٹی کے لالے پڑے ہیں۔ بےایمانی عروج پر ہے تو اس میں قصوروار یہ ادارے ہوں گے کہ یہ عوام دوست نظام حکومت قائم کرنے میں ناکام ہیں۔ کیوں کہ حضرت عمر فاروق رض جب کسی گورنر کو مقرر کرتے تو اس کو پہلے کہتے تھے کہ جس علاقے میں جا رہے ہو وہاں تمھارے پاس ایک چور آئے تو کیا کرو گے اس کے ساتھ تو گورنر جواب دیتا، میں اس کا ہاتھ کاٹ دوں گا۔ اس پر حضرت عمر فاروق اس گورنر کو بہت اعلی تنبیہ کرتے تھے کہ ایک بات یاد رکھو کہ اگر کوئی شخص تمھارے علاقے سے غربت سے مجبور ہوکر میرے پاس آیا تو میں تمھارے ہاتھ کاٹ دوں گا۔ جب یہ نظام حکومت تھا تو ملک شام سے ایک عورت مع زیورات مدینہ جاتی ہے اور راستے میں کوئی اس کو چھونے کی بھی جسارت نہیں کر سکتا تھا۔
    ایک ملک کا اگر نظام حکومت انسانیت دوست ہو گا تو اس ملک کے لوگوں کے اخلاق بھی اعلیٰ درجے کے ہوں گے۔ اگر ایک ملک کا نظام حکومت مفادپرست ہو گا تو اس ملک کے عوام کی سوچ،اخلاق بھی مفاد پرست ہوں گے۔ اس بات سے یہ بات تو طے ہو گئی کہ ہمارے اجتماعی اخلاق ہمارے حکومتی نظام کے تابع ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر ہم اپنے ملک کی حالت بہتر کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں ضروری ہے کہ اپنا نظام حکومت خدا پرستی اور انسان دوستی کا بنائیں۔ تبھی جا کر ہمارے رویے،معاشرت بہتر ہوں گے ورنہ کچھ بھی کر لیں یہ حالت نہیں بدلنے والی۔
    اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ صحیح شعور اور علم نافع عطا کرے۔ آمین!
    Share via Whatsapp