جمہور کےجھنڈے کی تلاش
جھنڈا آزادی اور وقار کی علامت ہوتا ہے لیکن سامراجی طاقتوں کے زیرِ اثر ملک و قوم حقیقی آزادی کی بجائے انتشار کی علامت بن جاتیں ہیں
جمہور کےجھنڈے کی تلاش
تحریر؛ ڈاکٹر محمد عارف۔ بہاولپور
1945ء میں دنیا سے جنگوں کے اختتام اور امن کے قیام کے لیے ایک عالمی ادارے اقوام متحدہ کا قیام عمل میں لایاگیا۔اقوام متحدہ کا جھنڈا ہلکے نیلے رنگ کا ہے جو اعتماد اور طاقت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ جھنڈے کے بیچ سفید رنگ کا لوگو ہے، جس میں زیتون کی دو شاخیں ہیں جو امن کا نشان ہیں، شاخوں کے بیچ دنیا کا نقشہ ہے۔ یہ جھنڈا پوری دنیا کے لوگوں کے حقوق کا علم بردار ہے۔ اقوام متحدہ کے قیام کا مقصد ایک خوب صورت سلوگن"امن،عظمت اور مساوات ایک صحت مند سیارہ پر" سے واضح ہوتا ہے،یعنی اقوام عالم کے درمیان بلارنگ،نسل،مذہب کے امن و مساوات کا نظام پیدا کرنا ۔
کیا دنیا کے جھگڑوں کےحل اور امن کے حصول کے لیے جواصول اپنائے گئے وہ وضع کردہ مقصدیت پر پورا اترتے ہیں یاسوالیہ نشان ہیں؟خطوں کی آزادی کی تحریک کے مقابلے پر خطوں کی تقسیم کو قبول کیا گیا۔ اس طرح کے جغرافیائی حل پیش کیے گئے کہ ہزاروں سال سے اکٹھے رہنے والی اقوام میں تنازعات کھڑے ہوگئے اور 75سال گزرنے کے بعد بھی اقوام باہم دست و گریبان ہیں۔
ان میں سے ایک خطہ برصغیر ہے،جس میں رنگ، نسل،زبان، مذہب کے اعتبار سے سینکڑوں قومیں آباد ہیں۔ دسمبر 1906 ءمیں آل انڈیا مسلم لیگ کے سبز ہلالی پرچم نے جنم لیا، جس نے پاکستان بنایا۔ دسمبر 1947ءمیں اس پارٹی کو ختم کر دیا گیا۔پھر جھنڈے بننے کا عمل شروع ایسا ہوا کہ آج لوگوں کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہوگیا ہے کہ کون سا جھنڈا کس کا ہے؟جھنڈا کسی بھی قوم کی عزت و وقار کی علامت ہوتا ہے۔ کسی بھی قوم کو متحد کرتا ہے۔اگر رنگ، نسل، مذہب، زبان کے فرق کو بنیاد بنا کر تفریق پیدا ہو جائے تو کیا یہ اس جھنڈے کی توہین نہیں؟
انگریزی استعمار نے "تقسیم کرو اور حکومت کرو"کی بنیاد پر اس خطے کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے شروع کردیے۔ تقسیم بھی جغرافیائی ناواقفوں کے ہاتھوں میں ہوئی، جنھوں نے تقسیم کی لکیریں ا س طرح کھینچیں کہ ایک ہی گھر کے کمرے پاکستان میں تو صحن ہندوستان میں تھا۔اس تقسیم کے بعد خطے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ جھنڈے وجود میں آنے لگے۔ آل انڈیا مسلم لیگ ،1947ء میں مسلم لیگ بن گئی ۔ 1948ءمیں مشرقی پاکستان میں آل پاکستان عوامی مسلم لیگ بن گئی۔1949 ءمیں مغربی پاکستان میں جناح مسلم لیگ بنی ۔ 1950ءمیں ان دونوں کو ضم کرکے جناح عوامی مسلم لیگ بن گئی۔یوں پارٹیاں بنتی گئیں، جھنڈے بھی بدلتے گئے۔ 1970ءکے الیکشن میں 28جماعتوں کے جھنڈے لہرا دیے گئے۔اس دور میں ابھی حق رائے دہی پوری قوم کو حاصل نہ تھی، صرف صاحب جائیداد اور ٹیکس دہندگان یا بیسک ڈیموکریٹک کی اصطلاح پر اُترنے والا ووٹ ڈالنے کی اہلیت رکھتے تھے۔ حال آں کہ جھنڈے کو اُٹھانے والوں کی اکثریت کوبھی اس بنیادی حق سے محروم رکھا گیا۔ مسلم،اسلام،عوام،وطن،مذہب کے خوب صورت نعروں کی گونج میں یہ جھنڈے لہرائے گئے۔ 1988ءکے انتخابات میں 38 جماعتوں نے حصہ لیا۔ 1997ءکے الیکشن میں یہ تعداد 79 ہوگئی۔ ابھی بہت سے تو بچارے اس دوڑ میں شامل ہونے سے بھی محروم رہے اور آج الیکشن کمیشن آف پاکستان کی لسٹ میں 130 جماعتیں ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ جماعتوں کے جھنڈے تو اقتدار کی ہوس میں باہم گریباں تھے ہی۔ انہی اختلافات کی وَجہ سے آج قوم بھی ان کی حمایت و مخالفت میں بے راہ روی کا شکار ہے۔ جھنڈے اُٹھانے والوں کی اکثریت کو تو اپنے اپنے جھنڈے کے رنگ کی نسبت بھی معلوم نہیں، نظریہ تو دور کی بات ہے۔ جھنڈے کا رنگ کس مقصد کو واضح کرتا ہے، کوئی معلوم نہیں۔ صرف ایک ہاتھ میں پرچم تھامے بلند آواز سے نعرے لگاتے کسی اَور کی آواز سنائی نہ دیتی۔ دوسرے کے جھنڈے کو روندتے ہوئے جلانے جیسے غیرمہذب عمل پر فخر کیا جانا شروع ہوا ۔کارکنوں کے ہاتھ میں جھنڈے پکڑانے والےخود اس جھنڈے کے سایہ میں نہیں ہوتے ۔ علم برداروں کے ہاتھ میں جھنڈے اور ڈنڈے تھما کر ڈنڈے کھانے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ تو اپنی ایک الگ جنت میں رہتے ہیں اور خواہشات کے جھنڈے تلےکارکنوں کا سودا کر آتے ہیں۔ کارکن کی بودو باش اور لیڈر کی بودو باش بھی امتیازات رکھتی ہے۔ جمہور محروم ہے، جمہوریت کے راگ الاپنے والے اربوں،کھربوں کے مالک ہیں، جس قوم میں حقوق کی بات اتنے سارے پلیٹ فارموں سے اٹھتی ہو، وہاں خود حقوق مانگنے والے باہم دست و گریبان ہو جاتے ہیں۔ جھنڈے پکڑا نے والےخود غائب ہو جاتے ہیں۔
آزادی کے وقت تھمایا گیا، جھنڈا کدھر گیا؟جب یہ لیڈر باہم شیرو شکر ہوں تو پھران کارکنوں کے ہاتھ میں کشمیر،افغانستان، برما یا فلسطین کا جھنڈا تھما دیا جاتا ہے۔کبھی ہل تو کبھی تلواروں ، کبھی چاند تاروں کے نشان والے جھنڈے تھمائے گئے، لیکن جس جھنڈے کو اُٹھانے سے حقیقی آزادی ملنا تھی، عوام کی قسمت بدلنا تھی، اس جھنڈے کا رنگ و علامت ہی معلوم نہیں۔ جس مقصد کے لیے جنم بھومی،عزیز و اقارب، قیمتی املاک کو قربان کیا وہ مقصد حاصل کیوں نہیں ہوا؟
جن جھنڈوں کا رنگ پھیکا پڑتا ہے، وہ کالعدم قرار دے دیے جاتے ہیں ۔ جھنڈے کی تقسیم گھروں میں بھی نظر آتی ہے، جس کی وَجہ سے ہر گھر میں انتشار کا ماحول پیدا ہوا آج عالمی جھنڈے کے کردار پر سوالیہ نشان بنتا ہے۔ امن،اتحاد،عظمت کا ماحول کس حد تک موجود ہے؟ یہ بات کسی سے چھپی ہوئی نہیں ۔ حال آں کہ جب ان عالمی اداروں نے اپنی رٹ قائم کرنا چاہی تو کوئی طاقت ان کا راستہ نہ روک سکی۔ حالیہ وَبا کے کنٹرول کے نام پر ہونے والے اقدامات کسی کے پسندیدہ تھے یا نہیں، لیکن منوائے گئے۔ ان کی کسی ملک کو ضرورت تھی یا نہیں، لیکن عمل کروایا گیا ۔آج عالمی سطح پر موجود تنازعات ان عالمی اداروں سے حل کی بات کرتی ہیں، لیکن تنازعات حل نہیں ہوتے ۔ان عالمی جھنڈوں کی سربراہی میں قوموں کے اندر اتنے جھنڈے پیدا ہوئے، لیکن نہ تو مذہب کو ٹھیک طرح سے عزت ملی ،نہ کسی بھی درجے میں مساوات کا نظام قائم کیا جا سکا۔ آج پاکستانی معاشرے میں حقوق حاصل کرنے کی جدو جہد میں بہت سے جھنڈے گاڑے جا چکے ہیں، لیکن صرف ایک خاص قسم کا طبقہ عزت و احترام کے ساتھ حقوق سے مستفید ہوتا نظر آتا ہے ۔جمہور اپنے حقوق سے محروم بھی ہے اور نا واقف بھی ہے۔ ایک قوم ایک منزل کی جو بات کہی گئی وہ پوری کیوں نہیں کی گئی؟ آج دنیا میں ہر جھنڈے کا ایک مقام موجود ہے، لیکن جب پاکستان کی بات کی جاتی ہے تو جواب کافی شرمندہ کر دینے والا ہوتا ہے۔ کہیں بھکاری،تو کہیں انتہا پسندی کے لیبل لگائے جاتے ہیں آج قومی حادثوں میں جمہور کی قربانیاں نظر آتی ہیں، لیکن ان جھنڈے پکڑانے والے لیڈروں کو اگر چوری،بدعنوانی جیسے مقدمات میں سزائیں بھی دی جاتی ہیں تو عوام سے کئی سو گنا بہتر ماحول انسانی حقوق کے نام پر دیا جاتا ہے ۔ سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ قربانی لیڈروں کو دینی چاہیے یا عوام کو؟ کیا ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر ہجرت کرنا قربانی ہے یا جنھوں نے سینکڑوں میل کی مسافت وزن اٹھا کر طے کی؟
کیا مسلم کے نام پر جھنڈے نے اسلام نافذ کیا؟ کیا پیپلز کے نام پر بننے والے جھنڈے نے عوام کو خوش حالی دی؟ کیا انصاف کے نام پر بننے والے جھنڈے تلے انصاف مل گیا؟ کیا کسی بھی مسلم لیگ کے آجانے سے مسلمانوں پر ہونے والا ظلم بند ہوگیا ؟ ان تمام کا کسی کے پاس تسلی بخش جواب ہے تو پیش کرے ۔ تاکہ اسی راہ کو اپنا کر ترقی حاصل کریں۔ آج ضرورت ہے کہ ان تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے جو جھنڈے اُٹھانے اور بنانے والوں کے فرق کو واضح کرے۔آخر کب تک یونہی پرائے جھنڈے اُٹھائے جاتے رہیں گے اور عوام باہم دست و گریباں ہوتے رہیں گے؟ان سینکڑوں جھنڈوں کے درمیان ہمیں اس جھنڈے کی شناخت حاصل کرنی ہے جو ہمارے حال و مستقبل دونوں کو عزت والا بنا دے۔