سوشل میڈیا پر قرآنی آیات اور احادیث کا ابلاغ اور ہماری ذمہ داری
سوشل میڈیا پر قرآنی آیات اور احادیث کا ابلاغ بغیر سوچے سمجھے اور فہم و ادراک، تصدیق اور شعور کے بغیر کیا جاتا ہے ۔جوکہ غلط ہے۔
سوشل میڈیا پر قرآنی آیات اور احادیث کا ابلاغ اور ہماری ذمہ داری
تحریر :محمد شہزاد ، گوجرانوالہ
قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ ہمارے دین متین کی ترجمان ہیں اور تعلیمات اسلامی کو سمجھنے اور شعور حاصل کرنے میں بنیادی کردار کی حامل ہیں۔ان آیات و احادیث کو اگر ان کے حقیقی مقاصد اور درست مطالب و مفاہیم کے تناظر میں پڑھا اور سمجھا جائے تو یقیناً ہم اپنے عہد کے سیاسی، معاشی، اقتصادی، سماجی اور دیگر مسائل کو حل کرنے کے لیے درست رہنمائی حاصل کر سکتے۔
یہ رہنمائی ہمیں ذہنی غلامی سے نجات اور وحدت فکری عطا کرے گی، لیکن اگر ان آیات و احادیث کو محض عقیدت،برکت اور ثواب کی نیت سے پڑھا اور بیان کیا جائے گا اور ان کے مقاصد کو نہیں سمجھا جائے گا اور انسانی مسائل کے حل میں ان سے آج کے دور میں کیا رہنمائی ملتی ہے، اس کے بغیر آیات و احادیث کے پرچار سے یقیناً ان کی افادیت انسانیت کے لیے محدود ہو کر رہ جائے گی اور نظریاتی اور فکری انتشار پیدا ہوگا، جس کے نتیجے میں ہر آدمی کا اپنا ہی دینی نظریہ ہو گا،جس سے فرقہ واریت جنم لے گی اور دین کی ایک سوچ ختم ہو جائے گی۔
حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
بلّغوا عنّی ولو اٰیۃ
ترجمہ: اگر تمھیں میری طرف سے ایک آیت بھی ملے تو اسے آگے پہنچا دو۔
اس حدیث پر عمل کرنے کی غرض سے ہم آیات و احادیث کو ایک سے دوسرے تک منتقل کرتے ہیں۔ اخبار سے اٹھا کر، سوشل میڈیا سے اٹھا کر غرض کسی بھی غیر مستند ذریعے سے لے کر بغیر تحقیق کے آگے منتقل کر دیتے ہیں۔
اس حدیث میں بلّغوا کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس کا مطلب ہے "ابلاغ کرنا ۔"
"ابلاغ" کرنے سے مراد ہے کہ بیان کرنے والے کو :
*اس آیت اور حدیث کے بارے میں مکمل یقین ہو کہ یہ واقعی قرآن کی آیت ہے یا حضور ﷺ کی حدیث ہے۔
*اس حدیث کی صحت (ثقہ،ضعیف،صحیح وغیرہ) کا علم ہو۔
*اس آیت یا حدیث کا درست مطلب، مفہوم اور مقصد معلوم ہو۔
*آج کے دور میں اس آیت یا حدیث سے ہمارے لیے عمل کی کیا راہ متعین ہوتی ہے اور ہمارے رویّوں میں کیا تبدیلی آنی چاہیے، اس سے واقف ہو۔
*ایسے احسن انداز سے بیان کرےکہ اس آیت یا حدیث کا مطلب، مفہوم، مقاصد اور تقاضے مخاطب کے ذہن میں اتر جائیں۔
حضور ﷺ نے فرمایا کہ کسی آدمی کے دوزخ میں جانے کے لیے اتنی بات ہی کافی ہے کہ وہ میری طرف ایسی بات منسوب کرے جو میں نے نہ کہی ہو۔
اگر ایک عام آدمی M.B.B.S کی کتابوں میں سے کوئی عبارت پڑھ لے ،کسی بیماری کے علاج کے لیے دوا تجویز کی گئی ہو پھر وہ لوگوں کو یہ علاج بتانا شروع کر دے تو صاحب عقل لوگ اس کے اس نسخے پر بالکل یقین نہیں کریں گے۔ کیوں کہ وہ ڈاکٹر نہیں ہے۔ اور ڈاکٹر بیماری کے علاج کے لیے مریض کا مزاج، بلڈ پریشر، شوگر لیول، عمر اور میڈیکل ہسٹری وغیرہ دیکھ کر دوا تجویز کرتا ہے اور وہ اس شعبے کا ماہر ہوتا ہے۔ اس لیے لوگ اس پر اعتماد کرتے ہیں۔
ہاں اگر نسخہ بتانے والا یا کوئی بھی عام آدمی اس دوا کے استعمال سے پہلے مستند ڈاکٹر سے مشورہ کر لے اور ڈاکٹر اس کو اجازت دے دے تو وہ استعمال کر سکتا ہے۔
لیکن افسوس! ہم آیات و احادیث کو بغیر اجازت و سند اور تصدیق، آگے منتقل کر دیتے ہیں۔ ہم نہ ہی قرآن و حدیث کے ماہرین سے مشورہ کرتے ہیں اور نہ تصدیق۔
جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ آیات و احادیث کے ترجمے اور ظاہری الفاظ کی روشنی میں اپنے اخذ کئے ہوئے مطالب اور مفاہیم بیان کر دیتے ہیں جو کہ ان آیات و احادیث کے اصل مقاصد اور تقاضوں سے بہت دور ہوتے ہیں۔
آج ہمیں اپنے معاشرے میں خصوصاً سوشل میڈیا پر رائج اس رویے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر ہر کوئی فقیہ، سکالر، داعی قرآن وحدیث، شیخ الحدیث اور شیخ القرآن بنا نظر آتا ہے۔
اس صورتِ حال پر ہم ذراغور کریں کہ اس سے وحدت فکری اور سماجی اقدار اور رویوں میں کس قدر منفیت فروغ پذیر ہے ۔اور ہم اپنی آئندہ نسلوں کے لیے گمراہی کا سبب تو نہیں بن رہے ہیں۔