برموقع وبلاموقع
کائنات کی فطرت میں فرصت یا اس سے ملتی جلتی کوئی چیز شامل نہیں ہے ۔اس فطرتی نظام میں آپ کو خلا نہیں ملے گا جس کو آپ اپنے کسی فعل سے بھر دیں۔
بر موقع وبلا موقع
تحریر نقاش علی عباسی۔ لاہور
کائنات کی فطرت میں فرصت یا اس سے ملتی جلتی کوئی چیز شامل نہیں ہے ۔اس فطرتی نظام میں آپ کو خلا نہیں ملے گا،ایک ایسا خلا جس کو آپ اپنے کسی فعل سے بھر دیں، ایک ایسی بے رنگی جسے آپ اپنی خواہش اور اپنےرنگ میں رنگ دیں ۔
جب دھوپ ہوتی ہے تو بارش کا موقع نہیں ہوتا اور بادل بنتے ہیں تو بارش برس جاتی ہے جب دن نہیں ہوتا تو رات ہو تی ہے اور اگر رات نہ ہو تو دن ہوتا ہے اور اس تنوع وتبدل کے سلسلے میں ہر نوعیت اور تبدیلی مسلسل کوشش اور جدوجہد کے بعد ہی فطری نظام میں کردار ادا کرنے کے قابل ہوتی ہے، کسی بھی عنصر کو کردار ادا کرنے کا موقع اس بنیاد پر نہیں ملتا کہ فطری نظام کو اس کردار کے لیے فرصت ہے یعنی ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ دن نہیں تھا تو اس لیے رات ہوگئی بلکہ یہ کہا جائے گا کہ رات کے اندھیرے کے زمانے میں سورج نے ابھر آنے کی پھرپور کوشش کی،ایک دور مکمل کرنے کے بعد روشنی اندھیرے پر غالب آ گئی۔ اب جس طرح کائنات کی ہر چیز کوشش اور جدوجہد سے اپنے ابھرنے کے مواقع پیدا کرتی ہے اوراس کے بغیر اس کو ابھرنے کا موقع نہیں ملتا بلکل اسی طرح دنیا میں انسانوں اور اقوام کا بھی یہی معاملہ ہے ۔ دنیا میں کسی قوم کے ابھر آنے کی بھی یہی ترتیب ہے۔
ایسا نہیں ہوسکتا کہ اقوام عالم کے درمیان اپنی حیثیت اور صلاحیت منوانے کے لیے آپ کو کسی منعقدہ پروقار تقریب میں پرفارم کرنے کے لیے بلایا جائے اور آپ باآسانی سٹیج تک پہنچ جاہیں،جبکہ اقوام عالم آپ کو پرفارم کرتا دیکھنے کے لیے بے قرار ہو ۔بلکہ آپکوخود اپنی جگہ بنانی پڑے گی،اور اس کے لیے مسلسل جدوجہد اور کوشش کرنی پڑے گی ،
آپ کردار کے کتنے ہی پاکیزہ اور اعلی معیار پر ہوں آپ کی اچھائی کی وجہ سے اقوام عالم کے درمیان آپ کوجگہ نہیں ملے گی۔
کیونکہ اس دنیا میں برتری کی دوڑ میں حصہ لینے والی قوتیں مسلسل کوشش کرتی ہیں ۔اور ہر حصہ دار اپنے متضاد مفادات کی بنیاد پر غالب آنا چاہتا ہے ۔آپ کو اپنے موقع کا انتظار کسی دوسرے کردار کے خاتمے تک نہیں کرنا ،بلکہ جدوجہد کو جاری رکھتے ہوئے خود ہی راستہ نکالنا ہے
یہ ایک ایسا سٹیج ہے جس پر آپ نے غالب آنا ہے یہ سٹیج نہیں دراصل ایک اکھاڑا ہے جس میں بہت سے مضبوط اور توانا پہلوان ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں،
آپ نے کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا ہے تو کسی کے مفاد کو مستقبل کے فائدے کے لیے باقی رکھنا ہے،یہی موقع ہے جسے گنوا دینا آپ کو دہائیوں اور صدیوں کا خسارہ ہو گا
کیونکہ اس ترتیب میں سستانے اور آرام کرنے کی فرصت نہیں۔ آپ حالیہ سیاست کو دیکھ لیں کہ ایران محنت اور کوشش کر کہ اس مقام پر آیا کہ وہ امریکہ کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر ایسی ڈیل کر گیا جو امریکہ کے لیے گلے کا کانٹا بن گئی،اس نے انتظار کیا مگر جدوجہد کے ساتھ موقع کی پیدائش نہ چھوڑی ۔اسے اس سٹیج پر پرفارم کرنے کے لیے بلایا نہیں گیا بلکہ وہ امریکہ کی مجبوری بنا اور یورپ کی ضرورت بنا۔
پاکستان میں چین کو پاؤں رکھنے کی جگہ امریکہ کی مجبوری کی وجہ سے ملی،سامراج کی اس مجبوری سے فائدہ اٹھا نا ہی موقع ہے یہی کردار ہے جس کے مواقع ہم نے خود پیدا کرنے ہیں ۔
ایک مدت کے شب و روز لہو روتے ہیں
طشت میں رکھ کر قیادت نہیں دی جاسکتی