پاکستانی سیاست کے معاشرے پر اثرات - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • پاکستانی سیاست کے معاشرے پر اثرات

    سیاست کسی بھی سوسائٹی کا انسانی حقوق کے چارٹر کو لاگو کرنے کا طریقہ کار ہے جس کی بنیاد اک صالح اور غیر صالح نظریہ پر ہو سکتی ہے جن کے نتائج مختلف ہیں

    By Adil Badshah Published on Aug 06, 2021 Views 2372

    پاکستانی سیاست کے معاشرے پر اثرات

    تحریر؛ عادل بادشاہ، مانسہرہ


    دنیا کی ہر سوسائٹی کسی نہ کسی نظریے کے تحت وجود پاتی ہے ۔ یہ نظریات انسان دوست بھی ہوسکتے ہیں اور انسان دشمن بھی، جن پر سوسائٹی کے معاشی، سیاسی اور معاشرتی ڈھانچے کو تشکیل دیا جاتا ہے ۔ بدقسمتی سے ہمارا معاشی، سیاسی اور معاشرتی ڈھانچہ انسان دشمن نظریہ سرمایہ داری اور جاگیرداری پر قائم ہے۔ یہی وَجہ ہے کہ ہماری سیاست بھی انسان دشمن اصولوں پرقائم ہے اور ایک اقلیتی طبقے کے مفادات کے لیے اکثریت کو بلی چڑھایا جاتا ہے ۔ اسی طرح یہ بات بھی اہم ہے کہ اگر نظام کی فکر کا دائرہ محدود ہے تو وہاں جمہوریت یا ڈکٹیٹرشپ معیشت ہو یا سیاست صرف سوسائٹی کے ایک اقلیتی طبقے کے گرد گھومے گی۔

    سیاست کسی بھی نظام میں انسانی حقوق کو سوسائٹی میں لاگو کرنے کا طریقہ کار ہوتا ہے ، جس کے لیے ریاست میں عدلیہ ، مقننہ اور انتظامیہ کا ایک ڈھانچہ کھڑا کیا جاتا ہے اور سیاسی نظام کو مختلف طریقوں یعنی پارلیمانی، صدارتی (جمہوریت )، فوجی ڈکٹیٹرشپ یا بادشاہت (شخصی حکومت ) وغیرہ کے ذریعے سوسائٹی میں انسانی حقوق کے چارٹر کو اوپر بیان کیے گئے اداروں کے ذریعے لاگو کیا جاتا ہے ۔جمہوری طریقہ کار میں الیکشن یا ریفرنڈم وغیرہ سے لوگوں کی سیاسی نظام میں شمولیت کو یقینی بنایا جاتا ہے ۔ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ نظام کی تبدیلی سے مراد ایک جامع فکر پر ملک کا معاشی، سیاسی اور سماجی ڈھانچہ نئے سرے سے کھڑا کرنا ہوتا ہے۔مثلاً عرب سپرنگ جسے مغربی میڈیا میں ایک انقلاب کے طور پر پیش کیا گیا، حقیقت میں وہاں نظام کو تبدیل نہیں کیا گیا، بلکہ نظام کو چلانے کے طریقۂ کار کو تبدیل کیا گیا، یعنی محدود فکر پر قائم سرمایہ داری نظام میں رہتے ہوئے بادشاہت سے جمہوریت کے طریقہ کار کو اپنایا گیا۔ اسی طرح پاکستان میں بھی لوگوں کےمنہ کے ذائقے کو تبدیل کرنے کے لیے ڈکٹیٹرشپ اور جمہوریت کے طریقہ کار اپنائے جاتے ہیں، جن کے ذریعے بے شعور عوام میں سےانقلاب جذبے کو بے اَثر کر دیا جاتا ہے۔ 

     قرآن وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُو (آل عمران آیت ۱۰۳ ) " اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو مل جل کر اور تفرقے میں نہ پڑو" کی بنیاد پر ایک انسان دوست نظریہ دیتا ہے ۔ یعنی ہر ایسی فکر جو انسانیت کو فرقوں، قوموں، زبانوں اور علاقوں میں تقسیم کر کے آپس میں لڑائے باطل ہے ، اس کے مقابلے میں قرآن ایک ایسی فکر دیتا ہے، جہاں انسانیت ایک کنبہ کی طرح رہ سکتی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ رائے کلی یعنی اجتماعیت کے مفاد کی رائے رکھنا انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ ہر سلیم الفطرت انسان اجتماع میں رہنا پسند کرتا ہے اور اپنے علاوہ انسانی اجتماع کی بھلائی چاہتا ہے ۔ وہ اپنی فطرت کا اظہار انسانی اجتماع کے لیے ایک صالح نطام قائم کر کے ایک کنبے کی طرح رہنے کی صلاحیت پیدا کرکے کرتا ہے۔ 

    اللہ تعالی نے اس دنیا میں تمام انسانوں کے زندہ رہنے کے لیے وسائل کا بندوبست کر رکھا ہے، جیسا کہ قرآن کہتا ہے "هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا" ترجمہ : وہی ہے جس نے پیدا کیا تمھارے واسطے جو کچھ زمین میں ہے سب (2 :29 ) اس لیے سیاسی جمہوریت سے پہلے معاشی جمہوریت کا ہونا ضروری ہے ۔ معاشی نظام میں حقِ معیشت میں مساوات یعنی ملکی وسائل سے ہر انسان بغیر رنگ، مذہب ، نسل کی تقسیم کے استفادہ کرسکتا ہے۔ اس لیے اسلام معاشی ڈکٹیٹرشپ کا انکار کرتا ہے ۔جب کہ دوسرا اصول درجاتِ معیشت میں تفاوت یعنی صلاحیت کی بنیاد پر سوسائٹی میں درجات پیدا ہو سکتے ہیں، لیکن سرمائے کی بنیاد پر طبقات نہیں ہوں گے۔ جب تک سرمائے کی بنیاد پر سوسائٹی میں طبقات ہوں گےتو سیاست پر بھی وہی طبقہ قابض رہے گا جو ملک کے وسائل پر قابض ہے ۔ امام شاہ ولی اللہؒ کے الفاظ کے مطابق جب سوسائٹی چاردرجات(عدالت،طہارت،سماحت،اخبات)کی بنیاد پر ازسرِ نو تشکیل پائے گی تو پارلیمنٹ میں بھی لوگ اہلیت کی بنیاد پر آئیں گے نہ کہ سرمائے کی بنیاد پر۔ 

     آج اگر ہم ملکی وسائل کا تجزیہ کریں تو ایک رپورٹ کے مطابق پانچ فی صد جاگیر دار طبقہ 73 فی صد زمینوں پر جاگیرداری نظام کے ذریعے قابض ہے۔ اسی طرح ایک اور رپورٹ کے مطابق ملک کا ایک فی صد طبقہ 85 فی صد وسائل کا مالک ہے ۔یہی وَجہ ہے کہ سیاست بھی اسی طبقے کے مفادات کے گرد گھومتی ہے ۔ مولانا عبیداللہ سندھی ؒ نے فرمایا تھا کہ جب بھی الله پاک کسی قوم پر عذاب مسلط کرتا ہے تو اس کا سیاسی شعور سلب کر دیتا ہے ۔ 

    جاگیردار اور سرمایہ دار طبقہ کبھی ہمیں انقلاب کے نا م پر ڈی چوک میں نچوا رہا ہوتا ہے اور کبھی شریعت کے نام پر باجماعت نماز پڑھا رہا ہوتا ہے۔ اس فرسودہ نظام کے شراکت دار سرمایہ دار،جاگیردار ، بیوروکریٹ اور نظام سے بے شعور طبقے کے پاس ہمارے مسائل کا کوئی متبادل حل نہیں سوائے دیدہ زیب اور پرفریب اسلامی، انقلابی اور تبدیلی والے نعروں کے کیوں کہ اس فرسودہ نظام سے ان طبقوں کے مالی مفادات جڑے ہیں ۔ اگر ہم مختصر طور پر سیاست کے شعبے کا جائزہ لیں تو سیاست کے د و پہلو ہیں، ایک فرعونی سیاست ہے یعنی غلط نظریے پر قائم نظام کی سیاست جو تقسیم کرو اور لڑاؤ کی پالیسی پر اپنی بنیاد رکھتی ہے، جس میں اقلیتی طبقہ ملکی وسائل پر اپنے استحصالی نظام کے ذریعے قابض ہوتا ہے ۔وہ لوگوں کو قوموں ،فرقوں ،زبانوں ،علاقوں اور طبقات میں تقسیم کر کے ان کے معاشی ،سیاسی اور سماجی حقوق کو غصب کر لیتا ہے اور ایک سودی اور غلط معاشی نظام کے ذریعے ملکی وسائل پر قابض ہوجاتا ہے، جہاں دولت کی گردش صرف اقلیتی طبقے میں رہتی ہے اور اکثریت غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں سسک رہی ہوتی ہے اور سوسائٹی میں ایک اقلیتی طبقے کی ترقی ہو رہی ہوتی ہے ، سیاست کے اسی ماڈل کے نفاذ کی وَجہ سے آج شریف لوگ سیاست سے کنارہ کشی کو بہتر سمجھتے ہیں ۔

    سیاست کا دوسرا پہلو قرآنی سیاست ہے، جس میں سوسائٹی کو ایک جسم مان کر اس کی سیاسی ،معاشی اور سماجی نشوونما کی جاتی ہے، یعنی کل مخلوق کو اللہ کا کنبہ سمجھ کر اس کے سیاسی ،مذہبی ،سماجی اور معاشی حقوق کو پورا کیا جاتا ہے اور ایک ایسا سیاسی نظام جو رحمت للعالمین اور رب للعالمین کی تشریح ہو، جس سے تمام مخلوق فائدہ اٹھائے، بنایا جاتا ہے۔ ایک ایسا معاشی نظام قائم کیا جاتا ہے، جہاں دولت کی گردش پوری سوسائٹی میں ہوتی ہو اور ارتکاز دولت ، اکتناز دولت اور احتکار دولت جیسی سماجی بیماریوں کی جڑ کا سدباب کیا جاتا ہو، تاکہ کوئی فرعونی طبقہ پیدا نہ ہو سکے اور پوری سوسائٹی ترقی کرے۔ایسے سماج میں اہلیت کی بنیاد پر درجات کا فرق تو ہوگا ،لیکن اپنی دولت یا سرمائے کی بنیاد پر کوئی بھی فرد یا گروہ کسی دوسرے فرد یا گروہ کا استحصال نہیں کر سکے گا اور نہ امیر اور غریب کے درمیان اتنا فرق ہوگا کہ ایک طرف امارت کی انتہا ہو، اور دوسری طرف غربت کی انتہا ہو، بلکہ ایک متوازن معاشرہ ہو ، جہاں تمام افراد مل کر سوسائٹی کی ترقی میں حصہ ڈالیں اور اس ترقی کے ثمرات سے فائدہ اٹھا سکیں ۔

     سیاست کے ان دونوں پہلوؤں کو ایک نظام کے ذریعے سے ہی کسی بھی سوسائٹی میں نافذ کیا جاسکتا ہے، برطانوی سامراج نے ہماری سوسائٹی میں جاگیرداری نظام کے ذریعے ایک اقلیتی جاگیردار طبقے کو جنم دیا جو ملکی وسائل کے 85فی صد کا مالک بن گیا اور اپنے وسائل کو بچانے کے لیے "لڑاؤ اور تقسیم کرو " کی پالیسی پر سیاسی نظام تشکیل دے کر عوام کا سیاسی، معاشی اور سماجی استحصال اور اپنے آقا برطانوی اور امریکی سامراج کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو قدرتی وسائل کی لوٹ مار کو قانونی جواز دینے لگا، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے استحصالی اداروں سے بھاری قرضے لے کر ملک کو سامراج کے ہاں گروی رکھ دیا گیا، جہاں آج ہم اپنی گیس اور بجلی کی قیمتوں کا فیصلہ بھی خود نہیں کر سکتے، چہ جائے کہ ہم اپنے ملک کے اہم فیصلوں میں آزاد ہوں ۔

    امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے فرمایا تھا کہ "اخلاق ماحول سے بنتے ہیں " اور ہمارا ماحول ملک میں قائم نظام بناتا ہے ، اصل طاقت نظام کی ہوتی ہے جو انسان کے اخلاق بنانے کا ایک سانچہ ہوتا ہے ۔ ہمارا نظام برطانیہ نے عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے نہیں بنایا تھا، بلکہ اپنی لوٹ مار کے لیے بنایا تھا۔ اور آج ہم نے اسی غلامی کے نظام کو اجتماعی مسائل کا حل سمجھ لیاہے ۔ آج ضرورت اس چیز ہے کہ ا علیٰ نظریے کا شعور حاصل کریں، جس پر ہم اپنا معاشی، سیاسی اور معاشرتی نظام قائم کر سکیں جو اجتماعی مسائل کا حل ہو، نہ کہ ایک اقلیتی طبقے کا نمائندہ ہو۔


    Share via Whatsapp