ملکی مسائل اورآلہِ کار استحصالی نظام
آج ہمارے نوجوان کے لیے اس حقیقت کا سمجھنا انتہائی اہم ہے کہ ہمارے انفرادی و علاقائی مسائل کا تعلق اجتماعی و قومی نظام کی خرابی سے منسلک ہے۔
ملکی مسائل اور آلہ کار استحصالی نظام
تحریر ؛ محمد عثمان بلند ، کہوٹہ ، راولپنڈی
آج ہمارے نوجوانوں کے لیے اس حقیقت کا سمجھنا ضروری ہے کہ ہمارے انفرادی و اجتماعی مسائل کا تعلق قومی نظام کی خرابی سے منسلک ہے ۔ہمارے نوجوان شعوری طور پر ان مسائل کی حقیقی وجوہات تلاش کریں اور اپنی تمام تر توانائیاں قومی مسائل کے حل پر صرف کریں ۔ کامیابی کا یہی واحد راستہ ہے مایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔
اجتماعی نظام کی خرابیاں
1- ہمارا اجتماعی نظام قومی تقاضوں کے مطابق استوار نہیں کیا گیا بلکہ
بین الاقوامی قوتوں کے مفادات اور ان کے تحفظ کے تناظر میں تشکیل دیا گیا ۔
مثلاً ملکی وسائل کے درست استعمال پر قومی معیشت کو استوار کرنے کے بجائے معاشی نظام کو آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا یرغمال بنا دیا گیا اور ملکی معیشت پر غیر ضروری اخراجات کا بوجھ ڈال دیا گیا۔
2- برطانوی سامراج کے دور میں پیدا کی گئی نفرت کی خلیج کی وجہ سے خطے کو علاقائی تنازعات اور بے مقصد جنگوں میں الجھایا گیا۔ جو سرمایہ ملکی ترقی اور قومی خوشحالی کے لیے صرف ہونا چاہیے تھا وہ لاحاصل خون ریزی میں جھونک دیا گیا ۔
نتیجتاً ملکی معیشت بیرونی امداد ، قرضوں اور درآمدات کی مرہونِ منت ہو گئی ، جس کی بدولت زراعت ، صنعت و تجارت کو شدید نقصان پہنچا۔ غربت و بےروزگاری ، روپے کی قدر میں گراوٹ اور مہنگائی اسی کا نتیجہ ہیں ۔
3- معاشی محرومی کی وجہ سے جنم لینے والے جرائم کی روک تھام کے لیے قومی تقاضوں سے ہم آہنگ عدالت اور پولیس کا نظام تشکیل دینے کے بجائے ، 1860ء اور 1861ء کا برطانوی عہد کا نظام نافذ کیا گیا جو کہ1857ء کی جنگِ آزادی میں مقامی قوتوں کی بظاہر ناکامی کی صورت میں انگریز سامراج نے اپنے خلاف اٹھنے والی ممکنہ تحریکات کو دبانے اور غلامی کا شکنجہ مزید مضبوط کرنے کے لیے نافذ کیا تھا ۔ جس کی فرسودیت اب ڈھکی چھپی نہیں رہی ۔
4- تعلیم اور صحت کو تو کبھی بھی ریاستی سرپرستی نہیں ملی جس کا اندازہ ان شعبہ جات کے لیے مختص بجٹ سے لگایا جا سکتا ہے ۔ آج حالت یہ ہے کہ اس میدان میں بھی بین الاقومی مفادات اور ان کے آلہ کار مافیا کا تسلط ہے ۔ تعلیم پر ریاستی توجہ کے فقدان اور نجی مافیا کے تسلط کی وجہ سے قومی فکری وحدت پارہ پارہ ہو چکی ہے ۔ صحت کے نظام کی نجکاری کے ذریعے بھی انسانی جان کو سرمائے کی بڑھوتری کا ذریعہ بنا لیا گیا۔
5- ملکی سیاسی کیفیت بھی باقی اداروں اور شعبہ جات کی طرح دگرگوں رہی ہے۔ قومی سوچ کے حامل نوجوانوں کو ملکی قیادت کی ذمہ داری سونپنے کے بجائے سامراجی آلہِ کار ، فرقہ وارانہ مذہبی اور گروہی سیاسی قیادت کو ملکی نظام پر مسلط کیا گیا ۔
حاصل گفتگو
نتیجتا ملک کے حقیقی مسائل اور ان کے حل پر آج تک قانون سازی نہ ہوسکی بلکہ اس کے برعکس ذاتی ، گروہی اور بین الاقوامی مفادات کے تحفظ کے حوالے سے ہر دور میں خاصی پیش رفت ہوئی ۔مادرِ وطن کے معرضِ وجود میں آنے سے لےکر آج تک اس پر مسلط مافیا نے اپنے عالمی آقاؤں کی سرپرستی میں گھناؤنے کردار ادا کیے جس کی بدولت ملک مسائل کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ مسلکی اختلافات کی بنیاد پر فرقہ وارانہ فسادات ، عالمی طاغوت کی خوشنودی کے لیے نام نہاد افغان جہاد میں لاکھوں معصوم انسانوں کا خون اور پھر انہی مجاہدین کو امریکی ایماء پر دہشت گرد قرار دے کر ہزاروں جانوں کا خاتمہ اس کی واضح مثالیں ہیں۔
ان سیاسی فرعونوں، معاشی قارونوں اور علمی ہامانوں نے اپنی نفسانی خواہشات کے تابع قوم کو غلامی کے عمیق گڑھے میں دھکیل دیا اور اس پر ظلم یہ کہ اگر قوم کا نوجوان اس گڑھے سے نکلنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو یہ مافیا ایک نئی شکل میں نوجوانوں کی قیادت کا دم بھرتا نظر آتا ہے ۔ نت نئے نعروں اور وعدوں کی آڑ میں اسے پھر سے اسی گڑھے میں دھکیل دیتا ہے ۔
اصل کام !
ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان حقائق تک رسائی حاصل کرنے کے لیے تجزیاتی سوچ اپنائیں ۔ جذباتی اور تخیلاتی طرز فکر سے کنارا کشی اختیار کریں ، شخصی سحر سے نکلیں ، تاریخ کا اجتماعی نقطۂ نظر سے مطالعہ کریں ۔
باشعور اور منظم اجتماعیت کی بدولت ہی فرسودہ نظام سے جان چھڑائی جا سکتی ہے وگرنہ : -
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا