انسان کی تقدیر اور اس کے عملی تقاضے
انسان کی تقدیر اور اس کے عملی تقاضے
انسان کی تقدیر اور اْس کے عملی تقاضے
تحریر؛عزم اعجاز لاہور
انسان اگر کائنات کی حقیقت پر غور کرے تو اللہ تعالی کی بنائی ہوئی اِس کائنات کا وجود اِس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اِس کائنات میں موجود ہر چیز اپنی مقرر کردہ تقدیر پر پابندی کے ساتھ عمل کر رہی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اِس کائنات کا وجود کب کا ختم ہو چکا ہوتا۔ اِس سے اللہ تعالی کی کار سازی کا تعین مزید پختہ اور گہرا ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ اِس نظم و ضبط کے ساتھ حرکت کے نتیجے میں کائنات کا نظامِ شمسی کس طرح اپنا وجود بر قرار رکھے ہوئے ہے۔سورج کی مرکزیت سے لے کر نیپچون(Neptune ) اور پلوٹو(pluto )کی دوریوں تک ہر ایک سیارہ اپنے محور میں مسلسل نظم و ضبط کے ساتھ حرکت پذیری کے عمل سے گزر رہا ہے۔چناں چہ قرآن حکیم بھی اِسی مشاہدہ کی تصدیق کرتا ہے:-
لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ۚ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ
ترجمہ: نہ تو سورج ہی سے ہوسکتا ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے آسکتی ہے۔ اور سب اپنے اپنے دائرے میں تیر رہے ہیں۔ سورۃ یَس آیت 40
اگر ایک منٹ یا سکینڈ کے لیے حرکت کا یہ عمل تعطل کا شکار ہو جائے، تو دن رات کا سارا نظام درہم برہم ہو کر رہ جائے گا اور اِس طرح کائنات کا وجود بھی ختم ہو کررہ جائے گا۔ آج کے دور میں یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کو کسی دلیل سے ثابت کرنے کی ضرورت نہیں۔سائنس کی یکے بعد دیگرے اختراعات و ایجادات اور انسانی ذہن کی تگ و دونے انسان کو یہ باور کرانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی کہ دنیا میں کوئی چیز بغیر کسی نظام اور ڈسپلن کے اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی۔اِس عالمگیر نظام کی ہر چیز تقدیر ِ ربِ کائنات کےساتھ حرکت پذیری سے ہٹ کر فنا کے گھاٹ اتر سکتی ہے۔کائنات کے بارے میں یہ سائنسی تجزیہ ہمیں یہ باور کرانے میں مدد دیتا ہے کہ اِس کائنات میں موجود ہر چیز ایک مقرر کردہ تقدیر کے تحت کام کر رہی ہے اور یہ ایک ایسا قانونِ فطرت ہے کہ جس کے بغیر اِس دنیا کا وجود بے معنی اور غیر ضروری ہو کر رہ جاتا ہے۔
انسان اِس دنیا کی معزز ترین مخلوق ہے کہ جس کے وجود کی بدولت کائنات کی دوسری اشیاء وجود پذیر ہوئیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی تمام اشیاء حضرتِ انسان کے لیے مسخر کر دی گئی ہیں ۔ ایسی صورت میں جبکہ قانونِ فطرت کائنات کے پورے نظام میں جاری و ساری ہے۔ اِس سے بھلا حضرتِ انسان کس طرح باہر رہ سکتا ہے۔ اللہ پاک نے اِس کائنات کی ہر شے کے لیے اْس کی ساخت کے اعتبار سے راستہ متعین کیا ہے ۔ جو بھی اْس راستہ پر چلے گا، وہ ترقی کی منازل طے کرے گا اور جو کوئی بھی اْس راستہ سے انحراف کرے گا ، وہ ناکام اور نامراد ہی ہو گا۔ اِس قانونِ فطرت یا راستہ کو ہی تقدیر کہتے ہیں ۔ حضرت شاہ ولی اللہ اِس کی وضاحت اِس طر ح فرماتے ہیں کہ شیر کی تقدیر گوشت کھانا ہے، اگر وہ گھاس کھائے گا تو یقینا بیمار ہو گا۔ اِس طرح بکری کی تقدیر گھاس کھانا ہے، اگر وہ گوشت کھائے گی تو بیمار ہو گی۔ اِس سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں، ایک یہ کہ انسان کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ اللہ پاک کے بتائے ہوئے راستے یعنی شریعت پر عمل کر ےتاکہ فلاح حاصل کرے کیونکہ شریعت ہی انسان کی تقدیر ہے جس پرعمل کر کے انسان جسم اور روح کے تقاضوں کو پورا کر سکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ انسا ن جیسا بھی عمل کرے گا ویسا ہی نتیجہ اْسے ملے گا۔ یہ اللہ کی سنت ہے کہ ہر چیز اپنا اثر رکھتی ہے۔ مثلا اگر کوئی زہر کھائے گا تو زہر اپنا اثر دکھائے گا اور وہ انسان مر جائے گا۔ قرآن پاک میں اللہ پاک فرماتےہیں :
سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلُ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا
ترجمہ : (یہی) خدا کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے۔ اور تم خدا کی سنت کبھی بدلتی نہ دیکھو گے۔ سورۃ الفتح آیت 23
یعنی اِس کائنا ت کی کوئی چیز بھی خواہ وہ انسان ہو یا حیوان ، وہ اْس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک وہ اْس تقدیر کے مطابق عمل اور جدوجہد نہ کرے جو اِس کائنات کے رب نے اْس کے لیے متعین کر دی ہے۔ مزید براں یہ کہ اللہ پاک کا بنایا ہوا یہ نظامِ کائنات و ارض و سماء ایک منظم طریقے سے اپنے فرائض کو نبھا رہا ہے، اور اللہ جل شانہ کی شان نہیں کہ وہ اپنے بنائے ہوئے نظام / سنت میں کوئی تبدیلی کرے ۔کیونکہ عدل کا تقاضا یہی ہے کہ جو چیز جیسا عمل کرے وہ ویسا نتیجہ پائے۔ یہی اللہ کی سنت ہے، اِسی لیے اللہ پاک نے انسانو ں کی رہنمائی اور ہدایت کے لیے اول دن سے اْسے اپنے عمل کا مکلّف بنایا اور انسا ن کے لیے اْس کی تقدیر کے موافق زندگی گزارنے کا مکمل نظام دیا ہے۔اب یہ انسا ن پر ہے کہ وہ اللہ پاک کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق اپنے انفرادی اور اجتماعی مسائل کو حل کرنے کی جدوجہد کرتا ہے یا اپنے نوعی تقاضوں کے برعکس عمل کرتا ہے۔قرآن پاک میں اللہ پاک فرماتا ہے:
وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىۙ
ترجمہ : اور انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرے۔ سورۃ النجم آیت 62
اِ ن آیاتِ کریمہ کو پیش ِ نظر رکھتے ہوئے ہم پر یہ بات لازم ہوتی ہے کہ ہم اپنے مقصد حیات کو سامنے رکھیں اور اللہ کی بنائی ہوئی شریعت / قانونِ فطرت پر عمل / جدوجہد کریں۔ آج ہماری سوسائٹی میں تقدیر کو موضوع بنا کر کم ہمتی اور بے عملی پیدا ہو چکی ہے، اِس حوالے سے اگر ہم نے انفرادی اور اجتماعی طور پر صحیح سمت میں جستجو نہیں کی تو ہم بحیثیت قوم اجتماعی پستی کی اِس کیفیت سے کبھی باہر نہیں نکل سکیں گے۔بنی نوع ِ انسان جو اِس کائنات کا مرکز ہے ، اگر آج وہ اپنی تقدیر {جو اْس کی مادی اور روحانی ترقی کے لیے لازمی ہے } سے ناواقف رہی تو وہ کبھی بھی حقیقی معنوں میں ترقی نہیں کر پائے گی۔