ایک نیا عمرانی معاہدہ (A New Social Contract)
ایک نیا عمرانی معاہدہ (A New Social Contract)
ایک نیا عمرانی معاہدہ
( A New Social Contract)
عرفان یونس بٹ۔لاہور
کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ دنیا میں کتنی قومیں آئیں، ترقیات حاصل کیں، دنیا پر چھا گئیں اور پھر تنزلی کا شکار ہونا شروع ہوئیں اور پھر ایسے زوال کا شکار ہوئیں کہ آج ان کا نام بھی کوئی نہیں جانتا۔ تاریخ کا مطالعہ کیجیے، ایسی بے نام ہوجانے والی قوموں کی ایک ختم نہ ہونے والی فہرست آپ کی منتظر ہوگی۔
آخر کیا وجہ ہے معاشروں کی ترقی و بقا اور زوال کی؟
اور ہم کیوں سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو اس حوالے سے ہر حال میں استثنیٰ حاصل ہے؟
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ معاشرے کو سمجھا جائے۔ معاشرے کے اجزائے ترکیبی کیا ہوتے ہیں؟
معاشرہ تین چیزوں سے بنتا ہے۔
1- فکر و فلسفہ،
2- اس فکر وفلسفہ کی بنیاد پر سیاسی نظام
3- اور معاشی نظام۔
فکر اس معاشرے میں وحدت کا باعث بنتا ہے اور اس کو ایک لڑی میں پروتا ہے کہ جس کو قرآن پاک نے بھی کہا کہ تفرقہ میں نہ پڑو اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو۔ یہاں رسی سے مراد قرآن پاک کا وہ فکر ہے جو معاشرے میں کوئی فرقہ نہیں بننے دیتا اور کوئی انتشار نہیں ہونے دیتا۔
معاشی نظام کسی بھی معاشرے میں خوش حالی کا باعث ہوتا ہے جو اس معاشرے میں رہنے والے تمام افراد کا بلا رنگ نسل مذہب بنیادی انسانی حقوق پورے کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
سیاسی نظام معاشرے کو پرامن بنانے کی ضمانت دیتا ہے۔ اس میں رہنے والے افراد کی جان، مال عزت آبرو کی حفاظت سیاسی نظام کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
اب اس معاشرے میں رہنے والے کچھ افراد کو یہ نظام چلانے کے حوالے سے ذمہ داری دی جاتی ہے۔ جنھیں ہم حکمران کہتے ہیں۔ اس معاشرے کے باقی افراد اپنے ہی جیسے انسانوں کو اپنے اوپر حکمران تسلیم اور ان کے بنائے ہوے قوانین کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہی صرف اس لیے ہیں کہ وہ انھیں فکری وحدت، معاشی خوش حالی اور سیاسی امن فراہم کریں گے۔ اور بدلے میں عوام ان کو ٹیکس وغیرہ ادا کریں گے اور اپنی مکمل وفاداری کا یقین دلائیں گے۔
اسی بندوبست کو سوشل سائنس میں عمرانی معاہدہ کہا جاتا ہے۔
جسے فرانسیسی انقلابی ادیب روسو نے سوشل کنٹریکٹ کا نام دیا۔ اور حضرت عمر رض نے اپنے مشہور قول کے ذریعے سے اپنی ریاست و حکومت کی پالیسی واضح کی کہ تم نے کب سے انسانوں کو اپنا غلام بنانا شروع کر دیا جب کہ ان کی ماؤں نے تو انہیں آزاد جنا تھا۔ یعنی کہ علمی، سیاسی اور معاشی حوالے سے کسی کو بھی غلام نہیں بنایا جا سکتا۔
جب تک اس سوشل کنٹریکٹ کے دونوں فریق معاہدے کی پاسداری کرتے رہتے ہیں تو معاشرے ترقی کی منازل طے کرتے رہتے ہیں۔ اب اگر فکر ایسی وضع کر لی جائے جو معاشرے میں بگاڑ کا باعث بننے لگے اور معاشی نظام خوش حالی کے بجائے معاشی بدحالی کا باعث بننے لگے اور سیاسی نظام بجائے امن قائم کرنے کے معاشرے میں رہنے والے افراد میں خوف کی فضا قائم کرنے لگے اور لوگوں میں اپنی جان مال عزت آبرو کو بچانے کا خوف دلوں میں بیٹھ جائے تو اس عمرانی معاہدے کی خلاف ورزی ہوتی ہے جو اس معاشرے کے افراد اور حکمرانوں کے درمیان ہوا تھا۔ پھر زندگی کے ہر شعبے میں بگاڑ شروع ہو جاتا ہے اور یہاں تک بگاڑ پھیلتا ہے کہ قرآن پاک کی زبان میں خشکی و تری ہر جگہ فتنہ و فساد پھیل جاتا ہے۔ جس کی ایک مثال ہمارا آج کا معاشرہ ہے کہ جہاں اس سوشل کنٹریکٹ کی خلاف ورزی عرصہ دراز سے جاری ہے۔ اور آج ہم زوال کا شکار ہو چکے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورت حال میں ہمیں کرنا کیا چاہیے؟ سب سے پہلے تو یہ سوچنا چاہیے کہ جب فرد و ریاست کے معاملات بہت زیادہ پیچیدہ ہوجائیں تو دوبارہ سے اس بندوبست کی بنیادوں کی طرف رجوع کیا جائے۔ یہ ہمارے ہی جیسے انسان ہیں جن کو ہم نے حکمران بنایا ہے۔ معاہدے کی خلاف ورزی پر ہمیں پورا حق ہے کہ ہم ان کو ریاستی معاملات سے علاحدہ کر دیں۔
اگر آپ انبیائے کرام علیہم السلام اور معاشروں میں سماجی تبدیلی لانے والی تحریکوں کا مطالعہ کریں تو آپ کو نظر آئے گا کہ انہوں نے معاشروں میں تبدیلی کے لیے جب دعوت دیناشروع کی تو جس طبقے نے سب سے پہلے یہ دعوت قبول کی، وہ نوجوان طبقہ تھا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ نوجوان کسی بھی معاشرے کا واحد ایسا طبقہ ہوتا ہے کہ جس کی فطرت اس زوال شدہ معاشرے نے ابھی مسخ نہیں کی ہوتی بلکہ اس میں کچھ کر گزرنے کا حوصلہ ہوتا ہے۔ وہ مایوس نہیں ہوتا۔ وہ لالچی اور مفاد پرست نہیں ہوتا۔ اس میں سیکھنے کا جذبہ ہوتا ہے اس لیے جب اس کو ایک نیا مقصد سمجھا دیا جاتا ہے تو وہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔
خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو سب سے پہلے نوجوانوں نے قبول کیا اور اس دعوت کے عملی نظام کو قائم کرنے کے لیے ڈٹ کر کھڑے ہوگئے۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ اس وقت کے مخالف رجعت پسند طبقے کے خلاف بھی سینہ سپر ہو گئے۔ اور آخر میں انہوں نے اللہ کے فضل سے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کی۔ آپ خود سوچیں کہ آج تاریخ میں کس کا نام زندہ ہے۔ ان نوجوانوں کا جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے تھے یا وہ رجعت پسند طبقہ جو اس نظریے کی مخالفت میں کھڑا تھا۔
اس لیے آج ہم نے اس چیز پر سوچنا ہے کہ اس سوشل کنٹریکٹ میں بہتری کےحوالے سے ہم اپنا کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اپنے اردگرد اس سوشل کنٹریکٹ کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے مکالمے کا آغاز کریں۔ اپنے اندر اور دوستوں میں اس حوالے سے مزاحمتی شعور پیدا کریں۔ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے محنت کریں، انفرادیت کو ترک کر کے اجتماع کا حصہ بنیں، اپنی صلاحیت بڑھائیں، باصلاحیت افراد کی صحبت اختیار کریں، سب سے بڑھ کر اپنے آپ کو منظم کریں، جتھوں اور غیر منظم گروہوں سے کوئی نتیجہ پیدا نہیں ہوتا۔ تھوڑے اور منظم افراد کا رعب ہوتا ہے اور وہ نتیجہ پیدا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔
ہمارے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ اس سرمایہ دارانہ نظام نے ہمیں انفرادیت میں لگا دیا، بہت ہوا تو ہیرو ازم کا شکار کردیا کہ کوئی آئے اور ہمارے مسائل حل کرے۔ ہمیں اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا۔ اجتماع میں رہ کر کام کرنے اور کروانے کی صلاحیت ختم کر دی۔ اس لیے ہمیں اپنے اندر اجتماعیت کے قیام کا جذبہ بےدار کرنا ہوگا اور اپنے آپ کو اس کا بہتر جز بننے کے لیے آمادہ کرنا ہو گا۔