ہیرو اِزم کاتصور اور سماجی تبدیلی کی حقیقت - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • ہیرو اِزم کاتصور اور سماجی تبدیلی کی حقیقت

    آج کے نظام کا سب سے بڑا دھوکہ ہیروازم ھے جس کو نوجوان نے شعوری طور پر سمجھنا ھے

    By Adil Badshah Published on Jan 28, 2021 Views 3006

    ہیرو اِزم کاتصور اور سماجی تبدیلی کی حقیقت

    تحریر:عا دل بادشاہ- مانسہرہ


    ملک کے سیاسی نظام میں کارپوریٹ میڈیا کے ذریعے سماجی تبدیلی جیسے اجتماعی عمل کو دھوکہ فریب سے عوام کوگمراہ کیا جاتا ہے۔ ہر چند سال بعد کسی نہ کسی کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ تأثر یہ دیا جاتا ہے کہ یہ فرد بڑا سمجھدار اور مخلص ہے۔یہ ملک کی اچھی ترجمانی کرے گا، یہی ایک فرد سب کچھ ٹھیک کرسکتاہے۔جو تمام مسائل حل کرکے دودھ کی نہریں بہا دےگا۔ ماضی کی تمام محرومیوں کا ازالہ کردے گا۔ ان دعووں کی حقیقت کیا ہوتی ہے؟ اجارہ دار طبقہ کا ایک نیا روپ؟ یا بوسیدہ نظام کو چلانے کی ایک بھونڈی حکمت ِعملی؟ اس طرح کی مثالیں ماضی میں موجود  ہیں۔کبھی یہ نظام کسی کو امیرالمؤمنین کے روپ میں مذہبی لبادہ اوڑھا کر سامراجی مقاصد پورے کرتا ہے اور کبھی روٹی کپڑا مکان کے نعرے میں سرمایہ دار اور جاگیردار ملک کو لوٹ رہا ہوتا ہے، کبھی ملک سنوارو، قرض اتار و کے نام پر لوگوں کو بے وقوف بنایا جا رہا ہوتا ہے اور کبھی انقلاب اور تبدیلی کے نام سے اس فرسودہ نظام کو سہارا دیا جاتا ہے، لیکن یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ اس کے ساتھ ٹیم وہی پرانے پاپیوں کی ہوتی ہے، یعنی الیکٹیبلز مراعات یافتہ طبقے (جاگیردار اور سرمایہ دار) اور انگریز کی فرسودہ فکر یعنی کالونیلزم پر تربیت یافتہ بیوروکریسی ۔ برطانیہ نے 1793ء کے land Settlement Act کے تحت جاگیردار طبقہ پیدا کیا اور پھر ان کی تربیت کے لیے ایچی سن، ایڈورڈ جیسے تعلیمی ادارے قائم کر کے فرسودہ کالونیل فکر پر ان کی تربیت کی اور آج بھی وہی طبقہ یعنی جاگیردار، سرمایہ دار اور بیوروکریٹ برطانیہ کے قائم کردہ جاگیرداری نظام کے ذریعے ملکی وسائل پر قابض ہےاور برطانوی اور امریکی سامراج کی اس ریجن میں نمائندگی کر رہا ہے۔ 

    یہ ملک کا ایک فی صد طبقہ الیکشن کے ڈرامے میں عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتاہے ۔ علی بابا کی تبدیلی کا رجحان بناتا ہے باقی چالیس چوروں کی کابینہ اور تربیت یافتہ بیوروکریسی وہی رہتی ہے۔پارلیمنٹ میں پہنچنے کے لیے اہلیت قابلیت کے بجائے پیسہ ٹھہرتا ہے۔ وسائل اور کاروبار پر قابض طبقہ آسانی سے پارلیمنٹ میں پہنچ جاتا ہے۔ پس ماندہ طبقہ ، مڈل کلاس یا لوئر کلاس جو ملک کی آبادی کا 99٪ ہے، اپنے میں سے کوئی نمائندہ اسمبلی میں نہیں بھیج سکتا بلکہ وہ اپنی مرضی کا ووٹ دینے کاشعور نہیں رکھتا۔یوں جاگیردار اور سرمایہ دار بالادست طبقے کے حقوق کی ہی حفاظت کرتے ہیں۔ ان کی پالیسیاں اور فلاح و بہبود اسی ایک فی صد طبقے کے گرد گھومتی ہے۔ 

    فرسودہ نظام سے بے شعور عوام ہر دفعہ ان ہی شعبدہ بازوں سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ حقیقت میں یہ طبقہ ٹوٹل آبادی کا ایک فی صد بھی نہیں، لیکن ملک کے پچاسی فی صد وسائل کے مالک ہیں۔ اسی طبقے کو قومی فیصلے کرنے کااختیار ہے جو  99٪ غریب عوام کو IMF, WB, WTO کے ہاں گروی رکھ کر  44 ہزار ارب سے زیادہ قرضہ لے کر ہڑپ کرچکا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ ملکی وسائل کو ملٹی نیشنل کے پاس گروی رکھوا کر خود کمیشن مافیا کا روپ دھار چکا ہے۔ غیرملکی استحصالی ادارے قومی وسائل کوبے دردی سے لوٹ رہے ہیں، جس پر ملک کے رہنے والوں کا حق مسلمہ ہے۔ غریب عوام کو تو صرف ووٹ دینے کا حق دیا گیا ہے،قومی معاملات کا شعور نہیں۔ جمہوریت ہو یا ڈکٹیٹرشپ حکومت کی مشینری یہی ایک طبقہ چلاتا ہے۔ 

    اگر تمام مشینری وہی ہو صرف ایک بندہ ہیرو کے طورپر متعارف کروایا جائے تو کیا وہ نظام کی تمام مشینری کو ٹھیک کر لے گا یا وہ اس کرپٹ نظام کی مشینری کا آلہ کار ہوگا؟وہ کس کے لیے کام کرے گا، عوام کے لیے؟ یا اپنے الیکٹیبلز کے لیے؟  فرسودہ نظام کی مشینری سے تو وہی نتیجہ ملے گا، جس مقصد کے لیے برطانیہ نے اسے ڈیزائن کیا تھا۔ اس وقت اس کو ڈیزائن کرنے کا مقصد برصغیر پر اپنا کنٹرول مضبوط کرنا تھا جو ابھی تک قائم ہے۔اس نظام سے خطے کی عوام کی فائدہ ناممکن ہے۔ 

    کیا ہربار ایک نیا چہرہ ایک ہیرو کے طور پر متعارف کروانے سے استحصال ختم ہوجائے گا؟ البتہ اس ظلم کو نئی طاقت ملے گی جب تک سوسائٹی کا سیاسی، معاشی اور معاشرتی پرانے ڈھانچے کے متبادل نیا ڈھانچہ جس پر ایک ٹیم بھی تیار کی گئی ہو، تبدیل نہیں کیا جائے گا تبدیلی ممکن نہیں۔چہرے اور حکومت کی تبدیلی سے توصرف عوام کا ذہن  بدلہ جاتا ہے، بلکہ جمہور کا غصہ جلسے، جلوسوں اور الیکشن کے ذریعے نکال دیا جاتا ہے، معاشی،سیاسی، تعلیمی عدلیہ کا نظام بدستور قائم رہتا ہے۔

    اگر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا جائزہ لیں کہ یہ اپنے ورکرز کے لیے کیا کوئی تربیتی پروگرام رکھتی ہیں؟ سیاسی شعور دیتی ہیں؟ جلسے جلوسوں میں کھیل تماشے کے علاوہ کوئی سنجیدہ ماحول دیکھنے کو نہیں ملتا۔ قومی سیاسی پارٹیاں کسی نہ کسی خاندان کے قبضہ میں ہیں۔ سرمایہ دار خاندان الیکشن کے نام پر سرمایہ کاری کرتے ہیں اور پھرحکومت میں آکر چوگنا منافع وصول کرتے ہیں۔ کبھی آٹے کا بحران تو کبھی چینی کا، کبھی ایک شے کی قیمتوں میں اضافہ تو کبھی دوسری میں، کبھی بجلی مہنگی تو کبھی گیس،بنیادی ضروریات زندگی تک پہنچ مشکل ہوچکی ہے۔بہتر مستقبل کے دعویٰ کے ساتھ ہر حکومت  کے دور میں ملکی قرضوں میں ہوش رُبا اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہاں کا سرمایہ دار طبقہ انٹرنیشنل اجارہ دارطبقے کا نمائندہ بن جاتاہے جو ملٹی نیشنل کمپنیوں کی صورت میں غریب ممالک سے اپنا حصہ وصول کرتا ہے۔تیسری دنیا کا حکمران تو ان کمپنیوں کا نمائندہ بن کر جمہور کو ایک گاہگ کی طرح ڈیل کرتا ہے۔ 

    جمہور ایک چہرے سے تنگ آ جائیں تو وہ کسی اَور مقبول شخصیت کو ایک نئے ہیرو کے طور پر میڈیا کے ذریعے عوام میں مقبول بنا دے یا اسے کسی پرانی جماعت کے لیڈر کو ہیرو کے طور پر پیش کردیں ۔ سماجی حقیقت تو یہ ہے کہ تبدیلی کبھی بھی ایک بندہ نہیں لاسکتا۔ اس کے لیے تربیت یافتہ جماعت کی ضرورت ہوتی ہے،جس طرح  موجودہ سسٹم کی تربیت یافتہ جماعت بیوروکریسی اور الیکٹیبلز ہیں جن کی تربیت جاگیردارانہ استحصالی نظام پر ہے، یہی الیکٹیبلز مختلف پارٹیوں میں تقسیم ہوکر پانچ سال پورے کرتے ہیں اور اسی طرح نعروں اور چہروں کی تبدیلی کا عمل جاری رہتا ہے۔ حضرت مولانا عبیداللہ سندھی ؒفرماتے ہیں کہ سماجی تبدیلی کے لیے تین عناصر کا ہونا ضروری ہے۔

    ١- فلسفہ /نظریہ/واضح نصب العین

    ٢- تربیت یافتہ جماعت /پارٹی 

    ٣- تبدیلی کا پروگرام / لائحہ عمل

    غرض سماجی تبدیلی کے لیے ایک ایسی جماعت چاہیے ہوتی ہے جو جاری سسٹم کی خامیوں کو جانتی ہو اور متبادل سسٹم کی سمجھ بوجھ پر مکمل عبور رکھتی ہو اس کو نافذ کرنے اور چلانے کی پوری مہارت رکھتی ہو۔ جواپنے نصب العین پر پارٹی کا ایک مضبوط داخلی نظام رکھتی ہو۔ جو اسی قومی خمیر سے ہو اور اپنے جمہور سے جڑی ہوئی ہو۔

    Share via Whatsapp