سورہ فاتحہ کی روشنی میں حق والی جماعت کی پہچان
سورہ فاتحہ انسانی جماعتوں کے مقاصد بتانے کے ساتھ ساتھ پہلے سے موجود جماعتوں میں سے حق جماعت کی پہچان کرنے کے مسلمہ اصول و ضوابط فراہم کرتی ہے
سورہ فاتحہ کی روشنی میں حق والی جماعت کی پہچان
تحریر : طاہر شوکت۔لاہور
انسان کو جو خصوصیات کائنات کی دیگر مخلوق سے ممتاز کرتی ہیں ان میں سے ایک ہے :
انسانی امتیاز
انسان اجتماع میں رہتا ہے ۔ وہ تنہا زندگی نہیں گزار سکتا ۔ جب کسی جگہ بہت سے انسان اکٹھے رہنے لگتے ہیں تو قانون فطرت کے تحت ہر ایک کی نفسیات دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں جس کی وجہ سے انسانوں میں کسی ذمہ داری کی ادائیگی کے حوالے سے مختلف آراء پیدا ہو جاتی ہیں اس وجہ سے انسانوں میں اختلاف کا پیدا ہو جانا فطری عمل ہے ۔
ایک دانا کے بقول :
معاشرے میں انسانوں کے درمیان اختلاف رائے کا ہونا ، کمزور خیالات ختم کرنے کا موقع دیتا ہے
لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک رائے کو کچھ لوگ اختیار کر لیتے ہیں ، اس کے برعکس کسی دوسری سوچ کو چند دیگر افراد اختیار کر لیتے ہیں پھر بعض اوقات نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ ان کے درمیان اختلاف پیدا ہو جاتا ہے اور اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ لڑائی کی نوبت آ جاتی ہے ۔ اب ان میں سے وہی کامیاب ہوتا ہے جس کے پاس ایسے افراد ہوں جو مناسب حکمت عملی سے دوسرے پر غالب آنے کا ہنر رکھتے ہوں ۔ یہ لوگ پھر جماعت بن جاتے ہیں اور معاشرے پر حکمرانی قائم کر لیتے ہیں ۔ ان کے مقابلے پر ایک اور تربیت یافتہ جماعت ہوتی ہے اور وہ اسے مغلوب کر کے عدل و انصاف پر مبنی نظام قائم کر لیتی ہے ۔ اس طرح مختلف جماعتوں کے درمیان مقابلے چلتے رہتے ہیں ۔ اب اگر کسی ملک میں کئی جماعتیں ہوں تو سوال یہ ہے کہ
ہمیں کیسے پتہ چلے کہ کونسی جماعت بہتر ہے اور اس کے بہتر ہونے کی پہچان کیا ہے ؟ اس بارے میں قرآن پاک کی *سورہ فاتحہ* ہماری رہنمائی کرتی ہے ۔
پہلا سوال
جب کسی جماعت کا ذکر ہمارے سامنے ہوتا ہے تو سب سے پہلے یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ وہ جماعت کیوں بنائی گئی ہے ، اس کے بنائے جانے کا نظریہ و مقصد کیا ہے ؟
سورہ فاتحہ کہتی ہے ( الحمدللہ رب للعالمین ) یعنی اس جماعت کا نظریہ و مقصد سب سے برتر ذات ؛ اللہ تعالٰی کی بندگی کرنا اور انسانیت کی بھوک و افلاس دور کرنا ہے ۔ سادہ الفاظ میں خدا پرستی اور انسان دوستی اس کا نظریہ ہو گا ۔
دوسرا سوال
اس جماعت کی کامیابی یا ترقی کے کیا اصول ہیں ؟
سورہ فاتحہ اس کے جواب میں کہتی ہے ( الرحمن الرحیم ) یعنی یہ جماعت کسی کو خاندانی نسلی یا دولت کی بنیاد پر ترقی نہیں دے گی بلکہ اس کی ترقی ہر اس انسان کے لیے ہو گی جس میں الرحمن کی صفت پیدا ہو یعنی وہ کمال کے حصول کے لیے کوشاں ہو ۔ چاہے اسے مشکلات کیوں نہ اٹھانی پڑیں ۔
الرحیم یعنی جب اس میں کمال پیدا ہو جائے گا تو اسے انعام کی صورت میں قلبی سکون ملے گا ۔
تیسرا سوال
اگر وہ جماعت معاشرے میں غلبہ حاصل کر لیتی ہے تو وہ کیسا نظام معاشرے میں قائم کرے گی ؟
سورہ فاتحہ کہتی ہے( ملك یوم الدین ) یعنی جب قرآن حکیم کو ماننے والی جماعت کو غلبہ ملے گا تو وہ عدل و انصاف کا نظام معاشرے میں نافذ کرے گی ۔
چوتھا سوال
عدل و انصاف قائم کرنے والی جماعت کو جب مخالفین کا سامنا ہوتا ہے تو وہ کس سے مدد مانگتی ہے اور کون اس کی ضروریات پوری کرتا ہے ؟
سورہ فاتحہ کہتی ہے ( ایاک نعبد و ایاک نستعین ) یعنی جماعت کا جو مقصد ہوتا ہے ، جس ہستی کی خوشنودی کے لیے وہ کام کرتی ہے ، اسی سے وہ مدد مانگتی ہے ۔
سرمایہ دار اگر جماعت کی مالی امداد کرتا ہے تو وہ اس سے اپنے فائدے چاہتا ہے ۔ حق والی جماعت کا نظریہ اگر خدا پرستی اور انسان دوستی کا ہو گا تو وہ اللہ تعالی سے مدد مانگے گی ، سرمایہ داروں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے گی ۔
پانچواں سوال
اس جماعت کی اپنے نظریہ پر راہنمائی کے حصول کی کیا حکمت عملی ہے ؟
سورہ فاتحہ کہتی ہے ،( اھدنا الصراط المستقیم ) یعنی اس جماعت کی پالیسی طے شدہ ہے وہ اس پر حکمت عملی مرتب کرکے عمل کرتی ہے اوراپنے نظریات کے تحت بنائی گئی پالیسی تبدیل نہیں کرتی .
چھٹا سوال
ایسی جماعت کو ماننے سے کیا ہو گا ؟
سورہ فاتحہ کہتی ہے ( صراط الذین انعمت علیھم ) یعنی اس جماعت کا جب نظام قائم ہو گا تو معاشرے کی اجتماعی حالت خوشحالی و فارغ البالی کی ہو جائے گی کسی کی کوئی پریشانی نہیں رہے گی .
ساتواں سوال
ایسی جماعت کو نہ ماننے اور اس کا ساتھ نہ دینے پر کیا ہو گا ؟
سورہ فاتحہ کہتی ہے ( غیر المغضوب علیھم و لا الضالین ) یعنی اگر اس جماعت کا ساتھ نہ دیا تو ہم غضب الہی میں مبتلا ہوں گے ، معاشرے کی اجتماعی حالت تنزلی کا شکار ہو جائے گی خوف کے سائے منڈلاتے رہیں گے اور پھر ہم گمراہی کی دلدل میں بھی پھنس جائیں گے ۔
ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟
اپنے ملک پاکستان میں جتنی بھی مذہبی یا سیاسی جماعتیں موجود ہیں انہیں سورہ فاتحہ کے ان اصولوں کی روشنی میں پرکھنا چاہیے ، حق والی جماعت کی پہچان کرنی چاہیے ، اس کی کامیابی کے لیے پوری ہمت و استقامت کے ساتھ جد و جہد کریں اور اللہ تعالی سے دعا بھی کریں کہ اللہ تعالٰی ہمیں اس کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔