مذہبی جماعتوں کی ناکامی کے اسباب - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • مذہبی جماعتوں کی ناکامی کے اسباب

    حالیہ الیکشنز میں مذہبی جماعتوں اور اتحادوں کی شکست ان جماعتوں سے روز بروز بڑھتی بے زاری اور مایوسی کی نشاندہی کرتی ہے۔

    By عبدالرحمن Published on Dec 15, 2018 Views 1912
    مذہبی جماعتوں کی ناکامی کے اسباب

    تحریر:- ڈاکٹر راءو عبد الرحمن

     مسلمانوں کے ہزار سالہ عروج کی تاریخ شاہد ہے کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم   اور جماعت صحابہ کے  اسوہ پر عمل پیرا ھمارے دینی راہنما  ہمیشہ اجتماعی انسانی حقوق کے لئے کوشاں رہے۔ بنی نوع انسان  کی دنیا کو احسن  کرکے اپنی آخرت سنوارنے کا تصور ہی  ان کے فکروعمل کا محور رہا ہے۔ یہ بزرگان دین ہمیشہ سادہ زندگی بسر کرتے  اور عوام الناس خصوصا معاشرے کے پسے ہوئے طبقات سے  اپنے معیار زندگی کو ہم آہنگ رکھتے۔  انسانی  خدمت  کو خدا کے حصول کا ذریعہ اور  دولت کو ہاتھ کی میل تصور کرنے والے یہ بزرگ ہمیشہ عوام الناس کی آنکھوں کا تارا رہتے۔برصغیر میں اشاعت دین کی تاریخ اس کا بین ثبوت ہے ۔
    حتی کہ زوال کے دور میں بھی انسانی خدمت اور حقوق کے تحفظ کی اہمیت ہمیشہ علماء حق کی اجتماعیت کے پیش نظر رہی ہے۔چناچہ تاریخ شاہد ہے کہ آزادی وطن کے شعور کی آبیاری ،اور خطے کے انسانوں کو غلامی سے نکال کر آزادی سے ہمکنار کرنے کی عملی جدوجہد اور قربانیوں میں علماء ہند ہمیشہ ہراول دستے کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔   

    حالیہ الیکشنز میں مذہبی جماعتوں اور اتحادوں کی شکست  ان جماعتوں سے روز بروز بڑھتی بے زاری اور مایوسی  کی نشاندہی کرتی ہے۔ووٹ دینے پر  جنت کی بشارت  اور  نہ دینے والوں پر جہنم کا وجوب جیسے نعرے بھی عوامی رجحان کو تبدیل  کرنے میں ناکام ٹہرے۔ حتی کہ ایک مذہبی اتحاد کے اپنے انتخابی نشان، کتاب کو ہی آلکتاب قرار دے ڈالنے  کا حیلہ بھی  کار گر نہ ہو سکا۔  نتیجہ واضح ہے  کہ ان جماعتوں کے گنتی کے امیدوار ہی اسمبلیوں کا رخ کرنے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔
     ایک ایسا ملک جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہو، جس کے عوام کی اسلام کے لئے جدوجہد کی  ایک طویل تاریخ ہو ،جہاں عوام کی بڑی تعداد  آج بھی دینی نظام کے نفاذ کو ہی  مسائل کا حل تصور کرتی ہو ، جہاں دینی مدارس کی تعداد سرکاری سکولوں کے بعد  دوسرے نمبر پر  ہو ، جہاں بیسیوں تبلیغی و اصلاحی جماعتیں مسلسل مصروف عمل ہوں ، اور جہاں منعقد ہونے والے مذہبی اجتماعات کا شمار دنیا کے بڑے اجتماعات میں ہوتا ہو وہاں الیکشنز میں مذہبی جماعتوں کی یہ عبرت ناک شکست قابل غور ہے ۔ ایسے دکھائ دیتا ہے کہ مذہبی رجحان کے حامل پاکستانی ووٹرز کی اکثریت  بھی ان مذہبی جماعتوں پر اعتماد کرنے سے گریزاں  ہے۔ مذہبی جماعتوں کی یہ شکست  قومی اور بین الاقوامی سطح پر اس تاثر کو تقویت بخشتی ہے کہ پاکستانی عوام نے مذہبی جماعتوں کو رد کردیا ہے۔  
    اس کے ساتھ ساتھ آج بھی دیگر سیاست دانوں کے مقابلے میں مذہبی راہنمائوں  کی  کرپشن کو زیادہ سنجیدگی سے  لیا جاتا ہے اور ان سے سنجیدہ اور معیاری طرز عمل کی توقع  کی جاتی ہے ۔عوام عام لیڈرز میں جو خرابیاں دیکھتے  ہیں ان سے مذہبی راہنمائوں کو مبرا چاہتے ہیں ۔آخرکیا وجہ ہے کہ  ان راہنمائوں سے نہایت اعلی طرز عمل کی توقع رکھنے والی عوام اپنے روزمرہ مسائل کے حل میں ان پر ذرہ بھر بھی اعتماد کرنے کو تیار نہیں ۔

     حضرت  مولانا عبیداللہ سندھی رح فرماتے ہیں کہ   دینی فکر کا انسانی تصور سے عاری ہو نا زوال کی جانب پہلا قدم  ہے جس  کے نتیجے میں ہی   گروہی تصورات تقویت پکڑتے ہیں۔اگر اس پہلو سے جائزہ لیا جائے تو  مروجہ  مذہبی قیادت کے  افکار  بھی سماج  کے اجتماعی تقاضوں کا احاطہ کرنے کی بجائے محض  مسلکی اور گروہی غلبے کے تصورات کو اپنائے  دکھائ دیتے ہیں  ۔  تقدس کے لبادوں میں ملبوس  یہ قیادت عوام کے حقیقی مسائل زیر بحث لانے اور عوامی مسائل کے حل کے لئے کردار ادا کرنا دنیا داری تصور کرتی ہے  ۔ایسا  دکھائی دیتا ہے کہ مذہبی راہنمائوں  کے نذدیک  دین اور دنیا کی تقسیم کا ایک واضح تصور موجود ہے اسی تصور کی بنیاد پر عوامی مسائل اور حقوق ان کے لئے ثانوی درجہ جبکہ مسلکی بالا دستی بنیادی حیثیت رکھتی ہے  ۔یہی وجہ ہے کہ ان جماعتوں میں سماجی مسائل کا گہرائ میں تجزیہ کرنے ،ان کے حل کے لئے شعبہ جاتی ماہرین پیدا کرنے اور  قومی ترقی کو یقینی بنانے کے دوٹوک اور واضح لائحہ عمل کا فقدان ہےنتیجتا ان جماعتوں  کی سیاست  دینی مقاصد سے زیادہ اپنے گروہی مقاصد کی تکمیل کے ایجنڈا کی صورت اختیار کرلیتی ہے ۔
    اسی طرز فکر وعمل کی وجہ سے حساس اور باصلاحیت نوجوان جو شعبہ جاتی مہارت حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور جو  معاشرتی ترقی میں  کردار کا خواہش مند ہے۔ وہ مروجہ مذہبی طبقے سے مایوس ہوتا چلا جارہا  ہے ۔وہ اس حقیقت سے بخوبی آشنا ہے کہ ان جماعتوں کی سیاست کا محور اپنی گروہ بندی کے ذریعے سے  بار گینگ میں محض بہتر پوزیشن کا حصول ہے۔ یہ مذہبی قیادت مسلکی اور فرقہ وارانہ سیاست کے ذریعے کامیابی کے خواب دیکھتی ہے  اور صرف اپنے  فرقے کے مخصوص عقائد میں سبھی کو ڈھال کر اپنے اپنے اسلام کو غالب کرنے کی جدوجہد کی جاتی ہے۔

      
    اس کے برعکس انبیا کرام کی سیرت پر نظر ڈالی جائے تو   ان کی جدوجہد بلا تمیز رنگ و نسل و مذہب ،مظلوموں اور محکوموں کو آزادی دلانے اور عدل و مساوات کانظام قائم کرنے کے مقاصد سے ہم آہنگ دکھائی دیتی ہے ۔ کل انسانیت کا یہ تصور ہی انبیا کرام کے پروگرام کو تمام انسانیت کے لئے قابل قبول بناتا ہے ۔انسانی خدمت کی اسی اہمیت کے پیش نظر حضرت سندھی رح اپنے پیش کردہ سرور اجی  منشور میں خدام خلق کی ایسی جماعت کی ضرورت پر زور دیتے ہیں جو اپنے ہم وطنوں  خصوصا غیر مسلموں کی خدمت کو پیش نظر رکھےاور ان کی عزت و ناموس کے تحفظ میں اپنی جان تک قربان کرنے سے بھی دریغ نہ کرے ۔چناچہ تقسیم ہند کے موقع پر انسانیت کے بہیمانہ  قتل عام کو روکنے  کے لئے جمعیت علماء ہند کی قیادت خصوصا حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رح  نے جو قابل قدر خدمات سر انجام دیں ان کا  اعتراف کرتے ہوئے حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری رح فرمایا کرتے تھے  کہ  میری تمام ریاضتوں کے بدلے اس چند روزہ خدمت  کا اجر اگر مجھے مل سکے تو میں سمجھوں گا کہ میں فائدے میں رہا۔
    ماضی کی دینی قیادت کے  طرز فکر و عمل سے انحراف کے سبب آج کی مذہبی قیادت  پر کرپشن کےسنگین الزامات ہیں۔ سامراجی مقاصد کے لئےجہاد کے مقدس نام پر  اختیار کی جانے والی دہشت گردی  اور مذہبی فرقہ واریت میں لاکھوں مسلمانوں کے خون سے آلودہ ہاتھوں کو اس قیادت نے  ڈالروں اور ریالوں کی برسات میں دھونے کی سعی ناکام کی ہے۔بیرونی سرمائے کے سیلاب نے سادگی پسند مذہبی طبقے میں سرمایہ پرستی اور طبقاتیت کو فروغ دیا  اور بالادست قوتوں کے مفادات سے ہم آہنگی نے کمزور اور پسے ہوئے طبقات کے مفادات سے لاتعلق  کردیا جس کے نتیجے میں خدمت انسانی کی اساس پر  سماجی کردار ادا کرنے کا تصور، جو کسی دور میں دینی قیادت کا طرہ امتیاز  تھا وہ ناپید ہوتا چلا گیا ۔ 
                       دین اسلام کی انسان دوست تعلیمات اور اسوہ پر کام کرنے والی اجتماعیت کے فکر و عمل سے اسی اغراض کا ہی نتیجہ ہے  کہ مذہبی جماعتیں عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کردار ادا کرنے  کی صلاحیت سے بے بہرہ دکھائ دیتی ہیں۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ  اس مسلسل ہزیمت اور پسپائ  کے پس پردہ عوامل کا درست تجزیہ کیا جائے اور  اپنےاجتماعی تصورات اور حکمت عملی کو  دین اسلام کے حقیقی پیغام سے ھم آہنگ کیا جائے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ دین اسلام کےترقی پسند اور انسان دوست تصورات کی اساس پر عوامی کردار ادا کرنے ،اور ہمہ گیر سماجی تبدیلی  کی صلاحیت رکھنے والی اجتماعیت کی تشکیل  اہم  ترین عصری تقاضا ہے اور اسی کے نتیجے میں درست سمت میں سماجی ارتقا  کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
    Share via Whatsapp