سم قاتل
برِ صغیر کے کثیرالمذاھب اور کثیرالقومی خطے میں فکری انتشار کا بیج برطانوی سامراج کے دور میں بویا گیا۔
سم قاتل
تحریر: محمد عثمان بلند۔ کہوٹہ راولپنڈی
کہتے ہیں کہ کسی فر د کے لیے انتشار ذہنی اور بے مقصد زندگی سم قاتل کی حیثیت رکھتی ہے اسی طرح قوموں کا سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ یہی ذہنی انتشار ہوتا ہے۔اس کے نتیجے میں یقین کے بجائے شک اور ہمت و حوصلے کی جگہ بے عملی اور خواہشات لے لیتی ہیں۔ یوں یہ کیفیت آہستہ آہستہ مایوسی اور بے شعوری میں بدل جاتی ہے ۔ دوسری جانب فکری انتشار کے نتیجے میں بھانت بھانت کی بولیاں سنائی دیتی ہیں۔عصری تقاضوں سے ناواقف، شہرت کے اسیر واعظ اور خطیب گروہی مفادات کے نقیب بن کر منظر پر چھانے لگتے ہیں۔ اس شور میں نہ کچھ سنائی دیتا ہے اور نہ کچھ سمجھ میں آتا ہےاور پوری قوم گروہیتوں اور فرقوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔
ہر فرقہ اور گروہ اپنے نظریات اور اس کے مطابق اپنے عمل کو درست اور مطلق سمجھتا ہے جب کہ دوسرے تمام نظریات اور اعمال کو باطل سمجھتا ہے جس کے نتیجے میں سوسائٹی میں انارکی پیدا ہوتی ہے۔جس کی بدولت انسانی سماج میں نفرت پر مبنی لا متناھی ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری و ساری رہتا ہے اور تقسیم در تقسیم کے اس مکروہ عمل کے اثرات سے معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان بھی بلآخر منتشر ہو جاتا ہے۔
قرآنِ مجید فرقانِ حمید نے اسی صورتِ حال کو فساد فی الارض کا عنوان دیا ہے۔ مذہبی و مسلکی منافرت، علاقائی، لسانی، نسلی اور خاندانی جھگڑے اسی فکر و عمل کے انتشار کا نتیجہ ہوتےہیں، جس کی واضح مثال ہمارا وطن عزیز ہے۔برِ عظیم ہند و پاک کہ جہاں مسلم اقلیت نے ۸۵۰ سال حکومت کی اور مذہبی یا گروہی تفریق کے بجائے انسانی اقدار کو فروغ دیا، جس کے نتیجے میں یہ کثیرالمذاھب اور کثیرالقومی خطہ وحدت و ترقی کی مثال بنا۔بیش تر مؤرخین اس پر متفق ہیں کہ فکری انتشار کا بیج برطانوی سامراج کے دور میں بویا گیا۔ انگریز سامراج نے اوائل میں برصغیر کی سیاسی وحدت کو منتشر کرنے کے لیے مسلم اور غیر مسلم نفرت کی بنیاد ڈالی۔ نام نہاد جمہوری آزادی اور اقتدار میں مساوی حقوق کے نام پر یہاں کی قومیتوں (بالخصوص غیر مسلموں جن میں مرہٹے اور سکھ قابلِ ذکر ہیں) میں مرکز گریز رویوں کو ابھارا۔
جنگِ آزادی 1857ء کی ناکامی کے نتیجے میں انگریز کو یہاں مکمل سیاسی کنٹرول حاصل ہوا۔ یہاں کی معاشی و اقتصادی لوٹ کھسوٹ جو اس کا اصل مطمعِ نظر تھا اور اپنے ناجائز تسلط کے خلاف اٹھنے والی قومی تحریکوں کو روکنے کے لیے اس خطے کی حریت پسند فکر پر حملے کیے گئے۔ ان فکری حملوں کا اصل ٹارگٹ یقینی طور پر مسلمان تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ بین الاقوامی اور بالخصوص برصغیر کی حکمرانی مسلمانوں کے پاس تھی۔ عالمگیر حکمرانی کا فکر و فلسفہ مسلمانوں کے پاس ہی تھا اس لیے ان کے فکروفلسفہ کو متنازعہ بنانا ضروری قرار پایا۔مسلم اور غیر مسلم منافرت کا بیج تو پہلے ہی بویا جا چکا تھا اب مسلمان نوجوان کو فکری انتشار میں مبتلا کرنے کے لیے درج ذیل اقدامات کیے گئے۔
۱۔ دین اور دنیا کی تقسیم کے نظریہ پر مسٹر اور ملا کے جدید و قدیم علاحدہ علاحدہ طبقے وجود میں لائے گئے۔
۲۔ مسلمانوں کے تاریخی ورثے میں مغالطے پیدا کر کے ان کو اپنی تاریخ سے کاٹا گیا۔
مندرجہ بالا طبقات میں مزید تقسیم پیدا کر کے نام نہاد مذہبی طبقات پیدا کیے گئے اور اس سب کے لیے مستشرقین کی مغالطوں پر مبنی تاریخ کو فروغ دیا گیا۔
لیکن اس سب کے باوجود آزادی اور حریت فکر کو ذہنوں سے نہ نکال سکااور خلوص و للہیت سے سرشار آزادی کے متوالوں کی مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں اسے اس خطے سے جانا پڑا۔
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی
ارادت ہو تو دیکھ ان کو
یدِ بیضا لیے پھرتے ہیں آستینوں میں
انگریز سامراج یہاں سے چلا تو گیا لیکن فکری انتشار کا جو بیج اس نے بویا تھا اس کے نتائج باہمی نفرت اور تنازعات کی صورت میں سامنے آئے یہ تقسیم آگے بڑھ کر جدید و قدیم کی سماجی تقسیم میں تبدیل ہوچکی ہے ۔اور یوں یہ گروہی سوچ عدم تحفظ کے احساس کو لسانی اور گروہی فرقہ وارانہ بنیاد منظم کرنے کا سبب بن گئی ہے۔ آج عدم استحکام کا شکار یہ خطہ برطانوی مفادات کے تحت کی گئی تقسیم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
پاکستان کا قیام اسی تقسیم کے نتیجے میں عمل میں آیا جس پر انہی سامراج زدہ عناصر کو مسلط کیا گیا اور آج حالت یہ ہے کہ ذاتی مفاد اور فکری انتشار کے حامل اس گروہ نے وسائل سے مالا مال ہمارے پیارے ملک کو ایسی دگرگوں کیفیت سے دوچار کر دیا ہے کہ مسائل ہیں جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔
مسائل کی وجوہات کیا ہیں ان کا خاتمہ کس طرح ممکن ہے کسی کو کچھ فکر نہیں۔ ہر کوئی اپنی اپنی بولی بول رہا ہے بھانت بھانت کے نظریات اور ان کی بنیاد پر طرح طرح کے فرقے اور گروہ وجود میں آرہے ہیں۔
پوری قوم بےیقینی اور خوف کی کیفیت سے دوچار ہے۔ معاشی مسائل، بدامنی، اخلاقی مسائل، انتظامی مسائل، بدعنوانی اور جرائم کا ایک سیلاب ہے جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ جب کہ ایسے میں مقتدر اشرافیہ، ان کے ہمنوا اور مفاد پرست مذہبی طبقہ اپنا الو سیدھا کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ سب کے سب بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ہمارے بعد آزاد ہونے والے ممالک زندگی کے ہر شعبے میں بین الاقوامی سطح پر اپنا لوہا منوا رہے ہیں جب کہ ہمارا مجموعی کردار اس کے برعکس ہے۔
ایسی صورت حال میں ملک کے نوجوان طبقے کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے اگر ہم نے واقعی اپنے پیارے ملک کو ان مسائل سے نکالنا ہے تو اپنی زندگی کو اس بلند اور اعلی مقصد سے ہم آہنگ کرنے کے لیے سوچنا ہوگا۔بے مقصد زندگی ہی وہ رکاوٹ ہے جسے دور کرنا ہے۔ حقیقی صورتِ حال کا درست ادراک اور یکسوئی کے ساتھ بلند مقاصد کے لیے عملی اشتراک وقت کی اہم ضرورت ہے۔قوموں کی زندگی میں یہ حالات آتے رہتے ہیں، لیکن باشعور نوجوان حالات کےسطحی مطالعے کے بجائے غور و فکر سے کام لے کر اپنی راہ عمل متعین کرتے ہیں اور اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے قدم بہ قدم آگے بڑھتے ہیں اور قومی استحکام و ترقی کی منزل تک پہنچتے ہیں ۔