انسانی سوسائٹی کے لیے درست نظریے اور عادلانہ نظام کی ضرورت و اہمیت
انسانی سوسائٹی کے لیے درست نظریے اور عادلانہ نظام کی ضرورت و اہمیت
انسانی سوسائٹی کے لیے درست نظریے اور عادلانہ نظام کی ضرورت و اہمیت
تحریر: زاہد عمران۔ لاہور
اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا، عقل اور غوروفکر کی صلاحیت دی اور اپنے نائب کے طور پہ دُنیا میں بھیجا کہ وہ دنیا سے ظلم کا خاتمہ کرے اور امن و عدل کا نظام قائم کرے۔ کائنات کے نظام اور اس کی تمام مخلوقات پہ غور کریں تو ہر چیز ہمیں پوری کائنات اور اس دنیا کے نظام کے بارے میں غوروفکر کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ جیسے کائنات ایک قانون اور نظام عدل کے مطابق چل رہی ہے، اسی طرح اس ارضی دنيا میں عدل کا نظام تشکیل دے کر نافذ کرنا اور انسانی ترقی کے عمل کو جاری رکھنا بہ حیثیت عاقل و عادل مخلوق ہونے کے، ہم انسانوں کی ذمہ داری ہے۔
ہمیں انسان کے داخلی جسمانی نظام پہ غور کرنا چاہیے کہ کس طرح سے یہ نظام انسان کو محفوظ رکھنے اور ترقی دینے کے لیے کام کررہا ہے۔ پانچ، چھے فٹ کا انسان اپنے اندر ایک پوری کائنات ہے۔ انسان کی مثال ایسی ہے جیسا کہ ایک ریاست۔ انسان اپنے آپ میں دُنیا کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ انسان میں موجود ہر ہر خلیے (Cell) کی مثال ایسی ہے جیسا کہ انسانی ریاست کا ایک فرد، ہر خلیے (Cell) کا اپنا ایک پورا نظام ہے جو پورے جسم کے باقی نظاموں کے ساتھ مربوط ہے اور ایک ہی مقصد کے لیے کام کر رہا ہے اور وہ مقصد ہے انسان کو محفوظ اور زندہ رکھنا۔ آج کی سائنس یہ کہتی ہے کہ ایک انسان کے جسم میں کم و بیش 37.2 ٹرلین خلیے (Cells) ہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ ایک انسانی ریاست (جسم) کی کُل آبادی کم و بیش 37.2 ٹرلین ہے جسے ہمارے جسم کا نظام اس طریقے سے منظم کرتا ہے اور ہر ہر فرد (خلیے) سے اس طرح سے انصاف کرتا ہے کہ پورا جسم صحت مند رہتا ہے اور خلیوں کی اتنی بڑی آبادی ہونے کے باوجود ہر ہر خلیے کا ایک ہی نظریہ اور مقصد ہے کہ ہم نے جسم انسانی کو زندہ و محفوظ رکھنا ہے۔ انسانی جسم کی اس ریاست میں ایک قسم کی وحدت فکری اور وحدت عملی ہے اور تمام خلیوں میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
یوں تو انسانی جسم کے بہت سے شعبے ہیں جو ایک نظام میں باہم مربوط ہیں اور اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ تمام شعبوں میں داخلی طور پہ کوئی انتشار اور تصادم نہیں، تمام شعبے تعاون باہمی کی بنیاد پہ اپنا اپنا کام سر انجام دے رہے ہیں. اس تناظر میں ہم یہاں بنیادی موضوع کو سمجھنے کے لیے چند بنیادی شعبوں کی بات کریں گے۔ کسی بھی ملک کے نظام حکومت میں تین بنیادی شعبے ہوتے ہیں:
۱۔ مقننہ (Parliament): جس کا بنیادی کام قومی ترقی، امن وامان کے بارے میں سوچنا، سمجھنا اور قانون سازی کرنا ہوتا ہے کہ ریاست کے لیے کیا مقاصد و اہداف ہیں، وہ مقاصد اہداف حاصل کرنے کے لیے کیا قوانین ہونے چاہییں وغیرہ وغیرہ ۔ انسانی جسم کی ریاست میں سوچنے سمجھنے، تحلیل و تجزیہ کرنے اور قانون سازی کا کام دماغ کرتا ہے۔ مثلا انسانی ریاست کا ایک مقصد اور ہدف ہے "اچھی صحت"، تو اچھی صحت کے لیے انسانی ریاست کو کیا کھانا ہے، کیا پینا ہے، کیا سرگرمیاں کرنی ہیں یہ سب کچھ انسانی ریاست کی مقننہ (دماغ) میں طے ہوتا ہے، علم اور سابقہ تجربات کی روشنی میں دماغ طے کرتا ہے کہ میں نے فلاں چیز کھائی تھی تو میرا معدہ خراب ہو گیا تھا لہٰذا اب میں فلاں فلاں چیز نہیں کھاؤں گا اور فلاں فلاں چیز کھاؤں گا۔
۲۔ انتظامیہ (administration): کسی بھی ریاست میں جودوسرا اہم شعبہ ہوتا ہے وہ انتظامیہ یا بیوروکریسی کا ہوتا ہے کہ جو وضع کردہ قوانین کو پاس کرتا، اُس پہ فیصلے کرتا ہے اور عمل درآمد کرواتا ہے۔ انسانی جسم کی ریاست میں یہ کام انسان کے ہاتھ اور پاؤں کرتے ہیں، فرض کیا اگر دماغ نے یہ قانون پاس کیا کہ آئندہ صرف گندم کی روٹی کھانی ہے تو ایسا نہیں ہوتا کہ ہاتھ اور پاؤں زہر خریدنے چل پڑیں اور وہ کھانا شروع کر دیں۔ دماغ، ہاتھ اور پاؤں بالکل ہم فکر اور ہم آہنگ ہوتے ہیں تو انسان صحت مند کھانا کھاتا ہے۔
۳۔ عدلیہ (judiciary): کسی بھی ریاست میں تیسرا اہم شعبہ عدلیہ کا ہوتا ہے جو یقینی بناتا ہے کہ کیا ریاست کے قوانین درست اور قومی اساس پر تشکیل پائے ہیں، عدلیہ کا شعبہ، جرائم پیشہ افراد اور شعبوں کی بازپرس کرتا ہے، انھیں سزا دیتا ہے کہ وہ ریاستی آئین اور قوانین کے مطابق کام کریں۔ انسانی جسم کی ریاست میں یہ کام انسانی جسم کی ریاست کا ہر شعبہ کرتا ہے، انسانی جسم کی ریاست کے ہر شعبے کی اپنی عدالت ہے، مثلاً نظام انہضام (Digestive System) اور مدافعتی نظام (Immune System) جیسے ہی دیکھتے ہیں کہ انسانی جسم کی ریاست میں کوئی فساد برپا ہوا ہے مثلاً طے تو یہ ہوا تھا کہ گندم کی روٹی کھانی ہے لیکن ہاتھوں اور پاؤں (انتظامیہ) نے کوئی "غلط حرکت" کی ہے کچھ اُلٹا سیدھا کھا لیا، تو فساد کی نوعیت کے مطابق جسم کا ہر متعلقہ شعبہ اور ہر خلیہ حرکت میں آجاتا ہے، انسانی جسم کی ریاست کا اطلاعات اور جاسوسی کا نظام فوری طور پہ جسم کے مرکزی نظام کو یہ اطلاع دیتا ہے کہ فلاں فلاں زہریلہ مادہ جسم میں داخل ہوا ہے جو فساد برپا کر رہا ہے، اس اطلاع پہ فوری طور پہ انسان کا مدافعتی نظام اور دیگر معتلقہ شعبے فوری طور پہ ایکشن لیتے ہیں، اگر تھوڑا بہت مسئلہ ہے تو کچھ اصلاح کردیتے ہیں ورنہ اگر غلطی اور جرم کی نوعیت انسانی جسم کے آئین اور دستور کے مطابق کسی جرم میں آتی ہے اور اُس پہ کوئی سزا لاگو ہوتی ہے تو اُس کے مطابق جسم کو سزا دی جاتی ہے مثلاً انسان قے کرتا ہے، یا اُس کے پیٹ میں درد ہوتا ہے، معدہ خراب ہوجاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ انسانی جسم کی ریاست کچھ اُلٹا سیدھا کھائے اور جسم انسانی کی "عدالت" اُسے سزا نہ دے، آپ غور کریں کہ اللہ تعالٰی کی بنائی ہوئی انسانی جسم کی ریاست کس قدر بہترین نظام رکھتی ہے ۔ان تمام مثالوں کی روشنی میں ہمارے ملک کے مجموعی نظام کا تحلیل و تجزیہ ہونا چاہیے:
کیا ہماری مقننہ ملک میں امن پیدا کرنے کے لیے قانون سازی اور نظام وضع کررہی ہے یا ہماری مقننہ نے بدامنی کا نظام بنایا ہواہے؟ کیا ہماری مقننہ ملک میں خوش حالی پیدا کرنے کے لیے انسان دوست معاشی پالیسیاں بناتی ہے یا انسان دشمن اور ذاتی مفادات کی بنیاد پہ معاشی پالیسیاں بناتی ہے؟ کیا ہماری مقننہ تعلیم و تربیت کے نظام کو بہتر بنانے کی پالیسی بناتی ہے یا جہالت کو فروغ دینے اور فرقہ واریت پیدا کرنے کی پالیسی بناتی ہے؟
اور پھر جو ٹوٹا پھوٹا قانون اور نظام موجود بھی ہے اُس پہ عمل درآمد کی کیا صورت حال ہے؟ ملک کے آئین میں تو لکھ دیا کہ امن ہو گا، انصاف ہوگا اور معاشی خوش حالی ہو گی لیکن کیا اُس کے مطابق حکمت عملی اور پالیسی بنائی؟ کیا اُس کے مطابق تربیت یافتہ جماعت اور افراد تیار کیے؟ کیا اُس کے مطابق ادارے اور طریقہ کار بنائے؟
آج ضرورت ہے کہ ہمارے مُلک کے تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے موجودہ ظالمانہ نظام کو توڑ کر اس کی جگہ پہ درست اور انسان دوست نظریات کی بیناد پہ نظام قائم کیا جائے جو انسانوں کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کرے بلکہ انسانوں کو ظلم سے بچائے، امن پیدا کرے اور معاشی خوش حالی پیدا کرے۔ اگر انسانی جسم کی ریاست کا "ریاستی نظام" 37.2 ٹرلین کی (خلیوں) کی آبادی کو سنبھال سکتا ہے تو پھر انسان صرف بائیس کروڑ کی آبادی کے لیے عادلانہ نظام کیوں نہیں بنا سکتا؟ یقیناً بنا سکتا ہے، بس اس کے لیے ہمیں ایک واضح اور دو ٹوک درست نظرے کی ضرورت ہے، اس نظرے پہ ایک تربیت یافتہ جماعت کی ضرورت ہے اور نظریہ کے مطابق درست حکمت عملی کے ذریعے درست نظام تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔