سانپ کو ماریے - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سانپ کو ماریے

    وطنِ عزیز میں زنا بالجبر کے گھناؤنے واقعات میں مُسلسل اِضافہ ہو رہا ہے. آخر اس کا حل کیا ہے؟ کیا پہلی بات مسلے کا دُرست حل ڈھونڈنا نہیں ہے؟

    By اشعر علیم Published on Sep 21, 2020 Views 1920

    سانپ کو ماریے 

    تحریر: اشعر علیم، راولپنڈی

     

    سانپ ڈس کر جا چکا ہے. مریض دم توڑ چُکا ہے. اور خلقتِ خُدا، بغیر سانپ کو پہچانے، کونسی دوا بہترین ہے، پر باہم دست و گریباں ہے. عجیب ماحول ہے. بھانت بھانت کی بولیاں سنائی دے رہی ہیں. سوشل میڈیا پر بغیر کسی دلیل، نظریہ، اور سمت کے گفتگو کرتی عوام، پنجابی کہاوت 'میرا کاں زیادہ چِٹّا ہے(میرا کوّا زیادہ گورا ہے) کا عملی نمونہ بنی ہوئی ہے. آئیے ہم اور آپ مل کے سب سے زیادہ  اشتہارات والے کچھ منجنوں کی افادیت پر غور کرتے ہیں. کیا خبر  تیرے دل میں اُتر جائے میری بات۔

    مرد اور صرف مرد

    ان سے ملیے، یہ کہتی ہیں کہ اس سب کا قصوروار مرد ہے. مرد کی یہ سوچ کہ وہ عورت سے بہتر ہے اور عورت اُس کے استعمال کی ایک شے ہے. یہ نفسیات ہی مسائل کی جڑ ہے. یہی اصل میں وہ سانپ ہے  جس کا زہر سب سے زیادہ مہلک ہے.آپ کی شکایت بجا ہے. آپ کا مُشاہدہ کافی حد تک دُرست ہے. لیکن کیا یہی حتمی حل ہے؟ہم اسے کیا کہیں کہ کرنل کی بیوی بھی ایک عورت ہی تھی. جس کو وُہ چیونٹی کی طرح روند کر چلی گئی، وہ ایک مرد ہی تھا. لیکن اُس کی مردانگی اُس کے کسی کام نہ آ سکی.ہم اسے کیا کہیں کہ زُلیخا بھی ایک عورت ہی تھی اور یوسف بھی ایک مرد ہی تھے. کیا تاریخ گواہ نہیں ہے کہ حق پر ہونے کے باوجود یوسف کو ہی جیل کاٹنی پڑی. نہیں میری بہن، عورت کو جب بھی موقع ملا وُہ بھی مرد کا استحصال کرنے سے نہیں چُوکی ہے. سانپ کہیں اور ہے.

    خواتین کا لباس

    اِن سے ملیے۔ یہ کہتے ہیں آج کی خواتین کے لباس اصل مسئلہ ہیں. یہ بے حیائی کو فروغ دیتے ہیں. مردوں کے جذبات کو اُبھارتے ہیں اور زنا بالجبر کے واقعات میں اِضافے کا باعث بنتے ہیں۔ایسے واقعات کے جنم لینےکایہ ایک اہم سبب ضرور ہے مگریہاں تو پورے جسم کو کفن میں لپیٹ کر منوں مٹی تلے سو جانے والی خاتون بھی محفوظ نہیں ہے۔آپ غورکیجیے کہ قصور کی زینب نے ایسا کون سا فحش لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔یہاں پہ جنسی بھیڑیوں سے بچے، بوڑھی عورتیں، خواجہ سرا اور یہاں تک کہ مرد بھی مکمل طور پہ محفوظ نہیں ہیں. نہیں میرے دوست، سانپ کہیں اور  ہے. کیا کہا؟ خواتین کو محرم کے بغیر نہیں نکلنا چاہیے. تو بھائی پھر سانحہ ساہیوال کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

    چلو چلو، فرانس چلو

    چلیں اِن کی بھی سُن لیتے ہیں، یہ بھائی مایوسی کی تصویر بنے ہوئے کہتے ہیں کہ اس مُلک کا اب اللہ ہی حافظ ہے. یہاں سے نکل جانا ہی عقل مندی ہے. یہ مزید فرماتے ہیں کہ اجتماعی زیادتی کا شکار ہونے والی خاتون خود بھی کسی نہ کسی درجے میں قصوروار تھی۔اتنی رات گئے گھر سے کیوں نکلی۔ وہ کیا سمجھ رہی تھی کہ وہ فرانس میں بیٹھی ہوئی ہے.اس میں شک نہیں کہ وطنِ عزیز میں آوے کا آوا ہی بگڑ چُکا ہے. لیکن آپ کو اگر یہ لگتا ہے کہ یہ سب پاکستان میں ہی ہو رہا ہے، تو یہ  غلط فمہی بھی دُور فرما لیجیے. یورپی ممالک بھی ان جرائم سے خالی نہیں ہیں. آپ کا پڑوسی مُلک بھارت تو خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے. اور جس فرانس کی بات کر رہے ہیں، اُس کے حالیہ تین چار سالوں کی ہی جُرائم کی خبریں مُلاحظہ فرما لیں.  جلد ہی آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ خاتون اگر واقعی فرانس سمجھ کر گھر سے نکلی تھی تو پھر تو سو فیصد قصور اُس کا اپنا ہی ہے۔اللہ کی بندی پہلے تحقیق تو کر لیتی کہ فرانس کس بلا کا نام ہے.

    نکاح کو آسان کرو۔

    ایک گروہ یہ کہتا نظر آتا ہے، کہ نکاح کو آسان کرو، جہیز کلچر ختم کر دو، مسئلہ حل ہو جائے گا. یہ تجویز قابل توجہ ہے. لیکن نکاح کا معیشت کے ساتھ جو تعلق ہے، اُسے آپ کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں. آپ غور کریں کہ اگر آپ بے روزگار ہوں یا صرف دس ہزار کما رہے ہوں تو آپ نکاح  کےبارے میں سوچیں گے؟ اگر آپ شادی کا فیصلہ کر بھی لیں توکسی بیٹی کے ماں باپ آپ کے ایسے حالات میں اپنی بیٹی آپ کو کیسے دیں گے ؟

    پھانسی کا پھندا

    ارے یہ ادھر کیا شور مچا ہوا ہے؟ پھانسی دو، پھانسی دو، عوام کے سامنے پھانسی دو. یہ جماعت کافی پُرجوش نظر آتی ہے.  تہتر سال کی تاریخ گواہ ہے، کہ ایسا  عوامی جوش ایک خبر کے آنے پر آتش فشاں کی طرح پیدا ہوتا ہے اور اس کو ختم کرنے لیے بننےوالی دوسری خبروں کے آتے ہی اپنا ہی درست خیال یا جذبہ و جوش وہم محسوس ہوتا ہے.پھردوسری طرف یہ وسوسے کہ اگر اس کیس کے مُجرم طاقتور نکل آتے ہیں تو آپ کو کیا لگتا ہے اُن کو پھانسی ہو جائے گی.اور اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے، تو جواب ملتا ہے کہ  یقیناً آپ کا بسیرا احمقوں کی جنّت میں ہے.غور طلب بات یہ ہے اگر مجرموں کا تعلق کمزور طبقے سے ہوا یا اصل مقتدر افراد کو بچانا مقصود ہوا تو یقینا ملزم جلد پھانسی کے تختے پرلٹکتےنظر آئیں گے.  یہ صورت صرف اس کیس کے متأثرین کو انصاف دلانے کی حد تک فائدہ مند ہو گی لیکن دیر پا حل ثابت نہیں ہو گی کیونکہ اصل سانپ کے گلے پہ چھُری تو ابھی بھی نہیں پھِرے گی.

    یہاں واضح رہے کہ راقم الحروف کا مدّعا قطعاً یہ نہیں ہے کہ اس کیس کے مجرم کو سزا نہ دی جائے۔مدّعا یہ ہے کہ وہ دیر پا حل ڈھونڈا جائے جو آئندہ ایسے رُوح فرسا واقعات کو ہونے سے روک دے. اُس سانپ کے زہر کا تریاق تلاش  کیا جائے جو تہتر سالوں سے اِس مُلک کی عوام کو ڈس رہا ہے. ایک اور بات بھی غور طلب ہے. جس مسئلے کو ایک خاص طبقہ اپنے مفادات کے تحت زور قلم سے "مرد و   زن"  کا مسئلہ قرار دیتا ہے، وُہ گہرائی میں جاتے ہی  کیسے رُوپ بدل کر امیر اور غریب کا مسئلہ بن جاتا ہے.

    ریاستی ذمّہ داریاں

    اس میں شک نہیں کہ انتظامِ تمدُّن کے لیے، امیر و غریب کی تخصیص کے بغیر سزاؤں کا نفاذ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے. لیکن کیا ریاست کی ذمہ داری یہاں ختم ہو جاتی ہے؟ہرگز نہیں، ریاست کی ذمہ داری تو ان محرکات کا بھی سدِباب کرنا ہے، جو انسانوں کے اجتماعی اخلاق کو اس حد تک تباہ و برباد کر دیتے ہیں کہ وہ معصوم بچوں کی آنکھوں کے سامنے اُن کی جنّت کو داغدار کرنے جیسی غیر انسانی حرکات کا ارتکاب کرتے ہیں. آج تیسری دُنیا میں ہونے والے زیادہ تر جرائم، عوام کی محرومیوں کا لازمی نتیجہ ہیں.یہ ریاست کی ذمہ داری ہے وہ ایسا نظامِ عدل تشکیل دے جو عوام کو خوراک، لباس، تعلیم، روزگار اور نکاح جیسی بُنیادی ضروریات،بلا تفریق فراہم کرے۔اُس کے بعد ریاستی اداروں کے ذریعے اُن کی عزت نفس بحال کر کے اُنہیں معاشرے کا مفید، اور فعال شہری بنائے. اُنہیں وہ ماحول مہیا کرے جو اُن کے اجتماعی اخلاق کی بہترین آبیاری کرے. کیونکہ بقول اِمام شاہ ولی اللہ مُحدّث دہلوی، '' اخلاق تعلیم سے نہیں ماحول سے پیدا ہوتے ہیں. 

    سانپ مِل گیا۔

    لہذا سانپ نہ تو محض عورت میں ہے نہ مرد کی نفسیات میں ہے. سانپ  نظام ظُلم میں ہے. اس کی دوا نہ تو محض پھانسی کی صورت میں ہے نہ ہی فرانس کو ہجرت میں ہے. دوا نظامِ عدل میں ہے.وُہ نظامِ ظُلم جو سرمایہ دارانہ بُنیادوں پر قائم ہے اور اس وقت دُنیا کی کئی ریاستوں میں فساد کا باعث بن رہا ہے. جو امیر کو نوازتا ہے اور غریب کو اُجاڑ دیتا ہے یعنی انسانی اقدار و روایات کو پامال کرتاہے .اخلاق کو برباد کرتا ہے کفر کی طرف لے جاتا ہے۔اس نظام کو جڑ سے اُکھاڑ کر پھینکناہے۔یعنی اپنی صلاحیتوں کو ایک نظریہ کے تحت منظم کرکے ایک نئے نظام کو قائم کرنے کے شعوری سماجی عمل میں شرکت ہی وقت کی سب سے بڑی نیکی ہے۔اور تاریخ انسانی کا سب سے بڑا سبق بھی ہے۔

    اِختتام ایک حدیث سے کرنا چاہوں گا.تم سے پہلے کی قومیں اس لیے برباد ہو گئیں کہ وہ کمزوروں کو سزا دیتی تھیں اور طاقتوروں کو معاف کر دیتی تھیں.اسی لیے تما م انبیاء علیہم السلام نے ان نظاموں کے خلاف جدوجہد کی اور عادلانہ نظام کے قیام کی دعوت دی ۔

    Share via Whatsapp