صحبت کے اثرات و نتائج
اس تحریر کا مقصد صحبت کے معاشرے پر اثرات کو بیان کرنا ہے
صحبت کے اثرات و نتائج
تحریر: حافظ طلحہ اختر ، ایگریکلچر یونیورسٹی۔فیصل آباد
انسان کے اخلاق کا اندازہ اس کے عمل سے ہوتا ہے اور عمل کی قوت، صحبت پر منحصر ہے، جیسی صحبت ھو گی ویسے اعمال اور اخلاق و رویے ھوں گے جیسے ایک درخت کی خوبی اس کی شاخوں اور پھل سےمعلوم ہوتی ہے۔اب اگر صحبت غلط ہے تو معاشرے میں اس کے نتائج بھی غلط ہی پیدا ہوں گے اور اگر صحبت صالح ہے تو نتائج بھی درست پیدا ہوں گے۔ صحبت چوروں کی ہے تو اثرات بھی وہی ہوں گے۔ صحبت سے استفادے کے لیے یکسوئی، اخلاص اور ہدف کا تعین ضروری ہے، صالح صحبت اور عمل سے اعلٰی سوسائٹی وجود میں آتی ہے۔
صحبت کی صورتوں میں سے ایک مؤثر صورت نظام کی بھی ہے۔نظام کےاثرات انسان کے معاش،سماج اور اخلاق پہ بہت گہرے ہوتے ہیں۔ جب آپ کا نظام ہی غلط ہے تو زندگی اعلیٰ مقاصد سے خالی نظر آتی ہے۔ صحبت کی تعلیم بھی نظام کے ذریعے سے دی جاتی ہے۔ دنیا کے اندر جتنے بھی علوم سیکھے جاتے ہیں وہ ایک صحبت کے زیراثر رہ کر سیکھے جاتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر پانچ سال پڑھنے کے بعد ہاؤس جاب کرتا ہے، اپنے سے زیادہ باصلا حیت ماہرین کی صحبت اختیار کرتا ہے۔
اگر آپ کے معاشرے میں سسٹم اعلٰی ماحول مہیا نہیں کرتا تو معاشرے میں رہنے والے لوگ غلط افکار اور صحبت کو اپنا لیتے ہیں اور پھر ان کی زندگی کے مقاصد بھی بالکل اسی طرح کے ہوتے ہیں اور معاشرہ برے اثرات سے دوچار ہوتا ہے۔ ہماری زندگی کے مقاصد کا تعلق ہماری اختیار کردہ صحبت سے گہرا ہوتا ہے اگر آپ کی صحبت پڑھنے والے لوگ ہیں تو آپ کو خیالات بھی اسی قسم کے آئیں گے اور آپ کے مقاصد بھی اسی قسم کے ہوں گے لیکن اگر آپ کی صحبت جاہلوں سے ہے تو خیالات بھی ایسے ہی آئیں گے اور اثرات بھی ۔ماضی میں ہمیں بےشمار ایسی مثالیں ملتی ہیں۔
عرب لوگ جو ان پڑھ اور امی تھے مگر اعلٰی صحبت کے نتیجے میں ان میں ایسی صلاحیتیں پیدا ہوئیں کہ وہ دنیا کے کامیاب حکمران بن گئے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرا باپ مجھے کہتا تھا کہ تجھے تو بکریاں بھی چرانی نہیں آتیں لیکن نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت نے آپ میں ایسی صلاحیتیں پیدا کر دیں کہ آپ لاکھوں مربع میل کی ریاست کے کامیاب ترین خلیفہ رہے۔
صحبت ہمیں سکھاتی ہے کہ اپنے ذاتی رویوں اور مزاجوں کو کیسے درست سمت اور رخ پہ ڈالا جاسکتا ہے۔جو غصیلے مزاج کے حامل ہیں ان کا مزاج ختم نہیں کیا جاسکتا مگر صالح صحبت کے نتیجے میں اس کے اسی مزاج کو درست مقاصد کی سمت دی جاسکتی ہے۔ اسلام سے قبل حضرت عمر رض کا غصہ مسلمانوں کے خلاف تھا لیکن جیسے ہی نبوت کی صحبت میسر آئی تو آپ نے جاکر حضور نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ اب ہم نماز چھپ کر نہیں پڑھیں گے۔ تو کیسے ایک مزاج کو صحبت کے ذریعے سے اعلٰی مقاصد کے حصول کی راہ پہ ڈالا گیا۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے:
((وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ)) [الکھف:۲۸]
’’اور اپنے آپ کو انہی کے ساتھ رکھا کر جو اپنے پروردگار کو صبح شام پکارتے ہیں اور اسی کی رضامندی چاہتےہیں تیری نگاہیں ان سے نہ ہٹنے پائیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اعلیٰ صحبت والے کون لوگ ہیں؟ یہ لوگ وہ ہوتے ہیں جو انسان کی دونوں جہانوں کی ترقی کے لیے کردار ادا کریں، ان کی صحبت کو نیک صحبت کہتے ہیں۔ حضور نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کے زیراثر جو جماعت تیار ہوئی اس نے دنیا میں انقلابات برپا کیے اور انسانیت کی دونوں جہانوں کی ترقی کے لیے ایک مکمل نظام قائم کیا۔
آج غلط نظام کی وجہ سے ہمارے ہاں صحبت صالح کا فقدان ہے ہماری زندگی اعلیٰ مقاصد سے خالی نظر آتی ہے وعظ ونصیحت صرف آخرت پر مبنی ہیں۔ دنیا کی زندگی جھوٹی منافقانہ صحبت میں گذرے اور آخرت میں جنت کی امید رکھیں تو یہ بے ربط اور بےجوڑ بات ہے۔آپ غور کریں آپ کا آج درست نہیں تو کل کیسے درست ہو گا؟
ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک ایسی صالح صحبت پیدا کی جائے جو لوگوں کی ان اصولوں پر تربیت کرے جن پر حضور نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے جماعت صحابہ تیار کی۔ جو صحبت ان اصولوں پر مبنی ہوگی اسی کے افراد آگے چل کر ایک صالح نظام کا قیام عمل میں لائیں گے جو انسانیت کی نہ صرف دنیا بلکہ آخرت میں بھی ترقی کا ضامن ہوگا۔اللّٰہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں صحبت صالح کا حصہ بننے کی توفیق عطا فرمائے آمین