شیرِ میسور سلطان ٹیپو اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی کارستانیاں (حصہ دوم)
برطانوی افواج کا ریاست میسور پر حملہ،لوٹ کھسوٹ،قیمتی نواردات اور ریاست میسور کی دولت سے انگلستان کی صعنتی ترقی۔۔۔۔۔۔
شیرِ میسور سلطان ٹیپو اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی کارستانیاں (حصہ دوم)
تحریر: یاسر علی سروبی (مردان)
یورپین اقوام ہندوستانی دولت کی لوٹ کھسوٹ کے لیے اس خطے میں وارد ہوئیں جس کے پہلے مرحلے میں یہ آپس میں دست و گریباں رہیں جب کہ بعد میں انگریز دوسری یورپین طاقتوں کو شکست دے کر ملکی معاملات میں دخیل ہوئے اور پھر مقامی گماشتوں کے ذریعے بنگال،
اڑیسہ،اودھ پر قبضہ کرکے میسور پر نظریں جمائیں اور اس کو مٹانے پر تل گئے۔ اسی سے میسور میں ان جنگوں کی بنیاد پڑی جس کو تاریخ میں میسور کی پہلی، دوسری، تیسری اور چوتھی جنگ کہا جاتا ہے۔ ان جنگوں میں سے دو سلطان حیدر علی اور دو سلطان ٹیپو کے عہد میں لڑی گئیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکا جو برطانوی سامراج کی کالونی تھا،اس نےجب انگریزوں سے آزادی حاصل کی اور وہاں کی دولت کے دروازے ان پر بند ہوگئے تو برطانوی سامراج کی ہندوستان پر قبضہ کرنے کی فکر شدت اختیار کر گئی۔ امریکا کو لارڈ کارنوالس نے ہی کھویا تھا، اس لیے برطانوی وزیراعظم مسٹر پٹ نے لارڈ ہیسٹنگز کے بعد لارڈ کارنوالس کا انتخاب کرکے ہندوستان کا گورنر جنرل بنایا تاکہ وہ اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرے۔ کارنوالس 1786ء میں گورنر جنرل مقرر ہوا۔ اس وقت صورت حال یہ تھی کہ انگریزی مائیں اپنے بچوں کو ٹیپو سلطان کے نام سے ڈرایا کرتی تھیں۔
کارنوالس نے نظام اور مرہٹوں کو اپنے ساتھ ملاکر سلطان کے دربار میں سازشوں کا جال بچھاکر جنگ کا آغاز کردیا۔میسور کی تیسری جنگ 1789ءتا 1792ء تک لڑی گئی جو انگریزوں کی جزوی کامیابی کے ساتھ فروری 1792ء میں "معاہدہ سرنگاپٹم" پر ختم ہوئی۔دغاباز انگریزوں نے صلح کے بعد بھی درپردہ ٹیپو کے خلاف تیاریاں جاری رکھیں۔ سلطان بھی انگریز کے ارادوں سےبے خبر نہیں تھا۔ سلطان نےصلح کے بعد امور سلطنت کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ فرانسں، سلطان ترکی، شاہ ایران اور" ہندوستان ہندوستانی کے لیے " کا نعرہ بلند کرکے مقامی راجاؤں اور نوابوں کو ساتھ ملا کر انگریزوں کےخلاف ایک محاذ قائم کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کر لی۔ لیکن سلطنت میں موجود غداروں
(میرصادق وغیرہ) کی وجہ سےخاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔ انگریز جانتے تھے کہ جب تک سلطان ٹیپو موجود ہے ہندوستان پرقبضہ نہیں کیا جاسکتا۔
1798ء میں "لارڈ کوئیس ویلزلی" گورنر جنرل منتخب ہوا۔ ویلزلی اپنے ساتھ مکرو فریب پر مبنی ایک نئی سکیم لایا اور وہ یہ تھی کہ ہندوستان میں دیسی حکمران اپنی فوج برطرف کرکے ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کو اپنی حفاظت کےلیے رکھیں۔ تاریخ میں اس طریقہ کو "سب سڈی ایری سسٹم" کہا جاتا ہے جو ہندوستانی حکمرانوں کی آزادی سلب کرنےکا ایک نیا آلہ تھا۔ اس سسٹم کو قبول کرنے والی ریاست کی مددکمپنی کی ذمہ داری تھی۔ اس لیے مرہٹوں کے خوف سے نظام نے اس کو قبول کرلیا اور اس کا شکار ہوکر کمپنی کے نرغے میں آگیا۔ انگریز نے مرہٹوں کو بھی محتلف حربوں سے اپنے ساتھ ملایا اور اسی کے ساتھ ایک ایسی جماعت بھی میسور بھیجی جو مذہبی تعصب اور حیلے بہانوں سے عوام کوسلطان ٹیپو ، جو ہندوستان کے دفاع کے لیے واحد چٹان کی طرح کھڑے تھے، کےخلاف بھڑکانے لگی۔ان اندرونی و بیرونی سازشوں کے تحت کمپنی نے 1799ء میں جنرل ہیرس، جنرل سٹوارٹ اور جنرل ویلزلی کی قیادتِ میں محتلف سمتوں سے" معاہدہ سرنگاپٹم" کی عہد شکنی کرتے ہوئے میسور پر حملہ کردیا اور 4 مئی 1799ء میں انگریزی افواج سرنگا پٹم کے قلعے میں داخل ہوئیں۔اس وقت سلطان نے قلعہ میں موجود غدار امرا اور وزرا پر نظر ڈالتے ہوئے کہا تھاکہ" اس غداری کا نتیجہ تمہیں اس وقت معلوم ہوگا جب تم اور تمہاری آئندہ نسلیں اس ملک میں محتاج اور ذلیل ہو کر ایک ایک دانہ چاول اور پیاز کی ایک ایک گھٹی کو ترسیں گی۔"یہ کہہ کر تلوار اور اپنی دو نالی بندوق اٹھائی اور دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گیا۔ ایک موقع پر ایک افسر نے سلطان سے کہا کہ حضرت آپ اپنے آپ کو انگریزوں کے حوالے کردیں جس پر سلطان کے منہ سےوہ تاریخی جملہ صادر ہوا " گیدڑکی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔" سلطان نے نہایت بے جگری سے لڑتے ہوئےایسے جام شہادت نوش فرمایا کہ رہتی دنیا تک سلطان ٹیپو کا نام جرأت و بہادری کا ایک استعارہ بن گیا۔
جنرل ہارس نے جب سلطان کی لاش دیکھی تو خوشی سے پکار اٹھا "آج ہندوستان ہماراہے۔" اس جنگ میں انگریزوں کو فتح ہوئی اور اس کی بنیادی وجہ انگریزوں کی مکاری اور سازشوں کے ساتھ ساتھ اپنوں کی عاقبت نااندیشی اور غداری تھی۔ اس کے بعد انگریز سپاہی خزانے پر ٹوٹ پڑے۔ بھوکے انگریز سپاہی خزانے کے ساتھ ساتھ رعایا کے مکانات میں بھی داخل ہوکر لوٹ کھسوٹ کررہے تھے۔ کرنل ولزلی نے گورنر جنرل کولکھا کہ باوجود قیمتی جواہرات اور سونے کی سلاخوں کے حصول کے ہمارے افسر اور سپاہی محل کے خزانے کو بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔کرنل ولزلی نے مزید یہ بھی لکھا کہ جتنا جلد ہوسکے مال غنیمت کو فوج میں تقسیم کیا جائے ورنہ حالات قابو سے باہر ہوتے جا رہےہیں۔
انگریز جیسی حریص اور لالچی قوم کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ لوٹا ہوا مال تقسیم کرنے والی کمیٹی نے محل کے دروازے، سلطان کے لباس اور کپڑوں کو بھی فروخت کیا۔ خواتین تک کی تلاشی لی گئی کہ کہیں کوئی چیز رہ نہ گئی ہو۔ انگریز افسروں اور سپاہیوں نے اسلحہ خانے اور سلطان کے ذاتی خزانےکو بری طرح لوٹا جس کی مالیت تقریباً 25 لاکھ پاؤنڈ تھی۔ اور یہ ان کی توقعات سے بھی اس قدر بڑھ کرتھی کہ میجر پرائیس نے اسے"طلسمی دولت" کہااور اسے وہ مختلف ذرائع سے کئی سالوں تک انگلستان پہنچاتا رہا۔ عوامی لوٹ مار سے قطع نظر دیگر اشیا کی فہرست جوکہ سرکاری طور پر لندن بھیجی گئی تھی، سات ضخیم جلدوں پر مشتمل تھی، جب کہ مزید دو جلدیں مختلف نقشوں پر مشتمل تھیں۔
اسی طرح سلطان کے لکھے ہوئے ان چار ہزار خطوط کا ایک بستہ بھی تھا جو آپ نے اپنے عمال اور غیر ملکی حکمرانوں کے نام لکھے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ سلطان کے تخت کے خالص سونے سے بنے ہوئے دو شیر اور انتہائی قیمتی نوادرات بھی شامل تھیں جو بعد میں انگلستان کے عجائب گھروں، شاہی محلوں، امرا کے دیوان خانوں اور فوجی کلبوں وغیرہ میں سجائی گئیں۔انگریز افسروں نے سلطان ٹیپو کے تخت کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کرکے فروخت کردیے۔
جنگ پلاسی میں لوٹ مار سے حاصل شدہ دولت کے بعد ریاست میسور کی دولت کی لوٹ کھسوٹ نے برطانوی صنعت کی رفتارکو دوگنا کردیا تھا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہندوستان کے ریاستی، معاشی اور صنعتی انہدام ہی سے برطانیہ کا صنعتی انقلاب آیا۔ یورپ نے تیرہویں اور چودہویں صدی عیسوی میں مسلم عہد کی جامعات اور علمی مراکز سے سے رہنمائی لے کر مشین ایج کےجس سفر کا آغاز کیا تھا، ہندوستان سے ملنے والے ان خزانوں نے اس کی رفتار کو نہایت تیز کردیا۔ مجموعی طور پر 44 ٹریلین ڈالر ہندوستان سے انگلستان منتقل ہوئے جس کی وجہ سے ایک نہایت خوش حال ملک جو انگریز کی آمد سے قبل دنیا کی سب سے بڑی معیشت مانا جاتا تھا، غربت، افلاس اور قحط زدگی کا شکار ہوگیا۔
سلطان ٹیپو کی شہادت کے بعد سے ہی جو تاریک رات اس خطے پر مسلط ہوئی، بدقسمتی سے آج تک جاری ہے۔فرق صرف یہ ہےکہ برطانیہ کی جگہ امریکا نے لے لی، ایسٹ انڈیا کمپنی کی جگہ بڑے بڑے عالمی مالیاتی ادارے اور دیوہیکل کمپنیاں وجود میں آگئیں جنھوں نے ہمارے جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں موجود "میرصادقوں اور میر جعفروں" کے ذریعے آج بھی دنیا کی دولت کی لوٹ کھسوٹ کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔ قوموں کے ان "غدار عناصر " کی اکثریت آج بھی برطانوی یا امریکی شہریت رکھتی ہےاور یہی طبقہ اور ان کی اولادیں ملکی اداروں اور ایوانوں میں بیٹھ کر اپنے آباؤاجداد کی اس" مکروہ میراث" کو سنبھالے ہوئے ہیں،جو کہ اُن بدیسی طاقتوں کے تلوے چاٹنے اور ان کے تسلط کو برقرار رکھ کر انگریز کی نمک حلالی اور قوم سے غداری کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔
آج ضرورت اس بات کی ہے ان غداروں اور ان کے غیر ملکی آقاؤں کے مسلط کردہ نظام سرمایہ داری کے خلاف "شیرِمیسور" جیسا حریت اور آزادی کا نظریہ اختیار کیا جائےاور عدم تشدد کی اساس پر مزاحمتی عمل اختیار کرکے قومی غیرت اور آزادی کے حصول کے لیے بھرپور جدوجہد کی جائے۔
حوالہ جاتی کتب۔
1.تاریخ سلطنت خداد (میسور) محمودخان بنگلوری
2.فتح نامہ ٹیپو سلطان مرتبہ معین الدین عقیل
3.کمپنی کی حکومت (باری)
4 .Al-Jazeera Jason Hickel 19/12/2018