شیر میسور سلطان ٹیپو اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی کارستانیاں (حصہ اول)
سلطان ٹیپو کی ریاست میسور کی جمہوری طرز پر تشکیل ،عدل و انصاف اور سلطان ٹیپو کا انگریزوں پر رعب و دبدبہ
شیر میسور سلطان ٹیپو اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی کارستانیاں (حصہ اول)
تحریر: یاسر علی سروبی،مردان
ہندوستان میں اٹھارویں صدی ایک ہنگامہ خیز صدی تھی جس میں ایک طرف شہنشاہیت کا آفتاب غروب ہورہا تھا، تو دوسری طرف یورپین اقوام ہندوستان کی لوٹ کھسوٹ کی تدابیر کرنےمیں مشغول تھیں اور رہی سہی کسر سلطان اورنگزیب عالمگیر کی وفات(1707ء) نے پوری کر دی جس کے بعد مغل سلطنت کے زوال کے آگے بند نہیں باندھا جا سکا۔صرف پچاس سال کے عرصے میں تخت دہلی پر دس تاجدار بٹھائےگئے اور اتار لیے گئے۔ ہندوستان کی دولت وثروت کے افسانے پوری دنیا میں مشہور تھے۔ یہی وجہ تھی کہ یورپین سرمایہ دار طاقتیں فرانسیسی، پرتگیزی، ولندیزی، اور انگریز ہندوستان کی دولت لوٹنے کے لیے میدان میں اتر پڑیں۔ جس میں انگریز فتح یاب ہوئے لیکن زوال کےدور میں بھی ہندوستان کی مٹی میں حریت و آزادی کا جذبہ موجود تھا جس میں ریاست میسور کے شیر سلطان فتح علی ٹیپو کا شمار بھی ہے جس نے نہ صرف اسی ہزار مربع میل پر پھیلی سلطنت خداد میسورکی بھاگ دوڑ سنبھال کر اس کی بنیادیں جمہوری طرز پر قائم کیں بلکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی راہ میں مضبوط چٹان ثابت ہوئے سلطان ٹیپو 1752ء کو دلیر حیدر علی کے ہاں پیدا ہوئے جب سلطان پانچ سال کے ہوئےتو ان کے والد نے سلطان کی تعلیم و تربیت کےلیے اعلٰی پیمانے پر انتظام کیا سلطان کو فاضل بننے کا شوق تھا، ایک دن سلطان مطالعہ میں مصروف تھے کہ باپ نے کہا "بیٹا سلطنت کےلیے اس وقت قلم سے زیادہ تلوار کی ضرورت ہے" کیونکہ باپ انگریزوں کے عزائم جانتا تھا۔ سلطان عربی، فارسی، فرانسیسی، اردو، کنڑی(مادری)اور انگریزی زبان جانتے تھے۔ اس کے ساتھ سلطان نے فنون سپہ گری اور گھڑسواری میں بھی لاثانی مہارت حاصل کی تھی صرف سولہ سال کی عمر میں انگریزوں کے خلاف جنگ کرکے سلطان سپہ سالار کی حیثیت سے فتح مند ہوئے۔ ٹیپو سلطان اپنے باپ کی وفات کے بعد 1782ء میں ریاست میسور کے تخت نشین ہوئے۔ جنگ پلاسی کے بعد انگریزوں کی راہ میں ہندوستان میں ریاست میسور ہی سب سے بڑی رکاوٹ تھی جو کہ انگریزوں کی لوٹ کھسوٹ کو برداشت نہیں کر سکتی تھی اس جزبہ حریت و آزادی کی ایک بڑی وجہ میسور کے سلطان حیدر علی اور شیر میسور سلطان ٹیپو کا حضرتِ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رح کے انقلابی افکار و نظریات اور ان کی جماعت سے خصوصی تعلق اور وابستگی تھی اس کا ذکر کرتے ہوئے مولانا سید محمد میاں رح علماء ہند کی شاندار ماضی حصہ دوم صفحہ نمبر 433 میں لکھتے ہیں
"جنوبی ہند میں ایک طاقت نشونما پارہی تھی جس کا سلسلہ شاہ ابو سعید صاحب رح اور شاہ ابواللیث صاحب رح کے ذریعے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رح سے منسلک ہوتا تھا۔ یہ حیدر علی کی حکومت تھی جو میسور میں روزافزون ترقی کرہی تھی۔ یہی حیدر علی ہیں جن کا بہادر فرزند سلطان ٹیپو کے نام سے مشہور ہوا، جن کے نام سے یورپین بچوں کو عرصہ دراز تک ڈرایا جاتا رہااور ہندوستان کا بچہ بچہ ان کو جنگ حریت کے شہسوار کی حیثیت سے پہچانتا ہے"
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رح نے ہندوستان کو زوال سے نکالنے کے لیے فک کل نظام کے لیے جو انقلابی حکمت عملی اختیار کی تھی اس کے لیے مختلف مراکز کا انتخاب کیا گیا۔ انھی میں ایک مرکز اودھ میں "شاہ علم اللہ" کی خانقاہ تکیہ شاہ علم اللہ تھا۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے حضرت شاہ ابو سعید صاحب رح کو ان کا انچارج بنایا۔ جس کے روحانی فیوض نے میسور اور سرنگا پٹم تک پہنچ کر حیدر علی اور سلطان ٹیپو کے دل ودماغ کو متأثر کیا۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رح کے انقلابی افکارو نظریات (دور کے نئے تقاضوں کو بھانپتے ہوئے شخصی حکومت کے مقابلے میں "جمہوری طرز حکومت"، تعاون باہمی پر مبنی اقتصادی اصول معاشی مساوات اور بدیسی قوت سے آزادی کا جذبہ) کی جھلک ریاست میسور میں موجود تھی۔ چناں چہ جب حیدر علی کی وفات ہوئی اور سلطان ٹیپو تحت نشین ہوئے تو انہوں نے ریاست میسور میں جو سلطنت قائم کی (جس کو" سلطنت خداد" کہا جاتا ہے) اس کا سیاسی نظام جمہوری طرز پر قائم کیا۔
سلطنت کے انتظام کےلیے سب سے بڑا محکمہ "صدرالصدرو" تھا, جس کا صدر دیوان اور اس کے بعد دوسرے وزارء تھے جن کے تحت مختلف محکمےتھے ان میں بڑے محکمے اٹھارہ تھےاور کل ننانوے تھے اور ہر ایک محکمے کا الگ الگ افسر مقرر تھا جو وزارء کو اپنے محکمہ کی رپورٹ پیش کرتے تھے یہ محکمے دراصل میں باب حکومت تھے جن کو آج کل سیکرٹریٹ کہا جاتا ہے۔ ان محکموں سے جو احکام جاری کیے جاتےتھے ان پر صدر محکمہ، وزارء اور سب سے آخر میں سلطان کے دستخط ہوتے تھے۔ سلطنت کے انتظام میں عوام کو حصہ دینے کےلیے سلطان نے پارلیمنٹ یا مجلس وطنی قائم کی اس مجلس کا نام" زمرہ غم نباشد" تھا۔اس سے سلطان کی مراد یہ تھی کہ شحصی اقتدار کا خاتمہ کرکے زمام اقتدار عوام کے ہاتھ میں دے دی جائے۔ اور بادشاہ ایک "ائینی حکمران" رہے۔
گویا یہ دنیا کی پہلی سلطنت تھی جس کی بنیاد جمہوریت پر قائم ہوئی۔ اس سلسلے میں کرنل لکس اپنی کتاب تاریخ میسور میں لکھتا ہے"جمہوریت جس کی اس وقت فرانس(انقلاب فرانس 1789ء) میں دھوم تھی، وہ یہاں ٹیپو کے پاس کوئی نئی یا تعجب خیز بات نہیں تھی۔ اس نے ہر شخص کو مساوات دے رکھی تھی"
اسی طرح سلطان ٹیپو کی سلطنت میں ہندؤوں کے ساتھ سرکاری سطح پر تفریق نہیں تھی۔ سلطنت کا وزیرِ خزانہ ہندو برہمن ”پورنیا“ تھا۔ یہی ”پورنیا“ سلطان کا نائب دوم بھی تھا۔ سلطان کا ذاتی منشی اور معتمد ِخاص ”لالہ مہتاب رائے سبقت“ نامی ایک ہندو برہمن تھا، جومیدانِ جنگ میں بھی شاہی کیمپ میں رہتا تھا اور آخر تک سلطان کا وفادار رہا۔ میسور کی فوج کا افسرِ اعلیٰ ہری سنگھ تھا جو ایک ہندو تھا۔ کورگ کی فوج کا افسرِ اعلٰی ایک برہمن تھا۔ علاوہ ازیں تین ہزار کی ایک فوج سردار سیواجی کی کمان میں رہتی تھی۔ ٹیپو نے آئین سلطانی کے ذریعے سے غلاموں اور لڑکیوں کی خرید و فروخت بند کی، زمینداروں کا خاتمہ کر کے کسانوں کو زمین کا مالک قرار دیا۔ کوآپریٹو سوسائٹیز قائم کیں، نیا کلینڈر بھی بنایا، مفت تعلیم کا نفاذ کیا، میسور سمندر کے قریب ہونے کی بنا پر حفاظت کے لیے بحری بیڑا بنوایا۔ میجر اسٹورٹ کے مطابق سلطان کے ذاتی کتب خانے میں 2000 کتابوں کا ذخیرہ تھا جس میں تصوف، علم الاخلاق، انشا، علوم و فنون، علم حساب، علم نجوم، طب اور فلسفہ کی کتابیں شامل تھیں۔ زراعت کے لیے بھی سلطان نے قابل قدر اقدامات کیے۔ سب سے بڑا کارنامہ دریائے کاویری کا وہ بند ہے جس کو خشک زمینوں کی آب پاشی کے لیے سلطان نے تعمیر کرنا شروع کیا تھا۔ اس بند کی جگہ کا انتخاب بھی سلطان نے خود کیا تھا۔ لیکن سلطنت کے سقوط کی وجہ سے مکمل نہ ہوسکا۔ جس کے متعلق میسور گورنمنٹ کی کتاب ٹوریسٹ گائیڈ ٹو میسور میں مضمون ہے۔ اس کتاب کے مطابق میسور گورنمنٹ نے 1911ءمیں اس بند کو "کرشنا راج ساگرا" نام دے کر دوبارہ شروع کیا اوراس کے لیے جرمنی، برطانیہ اور امریکہ سے انجینیئر طلب کیےجنہوں نے سالہا سال دریائے کاویری کا سروے کیا اور جس جگہ کا انتخاب کیا وہ وہی جگہ تھی جس کا انتخاب سلطان کر چکا تھا۔ کھدائی کے دوران اس جگہ سے ایک تحریر کنندہ تحتی ملی جس میں سلطان کی فارسی میں لکھی تحریر موجود تھی جس میں اس جگہ کا انتخاب کیا گیا تھا اور ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ" اس پر سلطنت نے لاکھوں خرچ کیے ہیں اور جو کسان اس سے نئی زمین پر کھیتی باڑی کرے گا جب تک کھیتی باڑی کرے گا زمین اس کی ہوگی کوئی بھی اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گا لگان بھی کم دے گا" اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سلطان اور اس وقت کے لوگ فن انجینئری میں کس قدر ماہر تھے اس کے علاوہ سلطنت کو کسانوں کا کس قدر خیال تھا۔
صنعت و حرفت کے میدان میں سرنگا پٹم میں ریشمی کپڑا اور بہترین قسم کا ململ اور شیشہ سازی کے کارخانے موجود تھے۔ اس کے علاوہ اسلحہ سازی کے کارخانے بھی موجود تھے جن میں توپ، تلوار، گولیاں، اور بندوقیں بنائی جاتی ہیں۔ میجرکسیپٹن ٹل لکھتے کہ "توپوں اور بندوقوں میں سراخ ڈالنے کے لیے ایک مشین تھی جو پانی کے ذریعے چلتی تھی" ٹیپو نےراکٹ بھی بنایا تھا جس کو 1796 اور 1797ء میں انگریزوں کے خلاف جنگ میں خوب استعمال کیا تھا۔ اسی تجربے سے متأثر ہو کر انگریز جنرل" سر ولیم کانگرلو" نے خودبھی راکٹ تیار کیےاور اس کو "نیپولین بوناپارٹ" کے خلاف جنگوں میں استعمال کیا ٹیپو کی اس کثرت استعمال کی وجہ سے راکٹ سازی کی صنعت کو یورپ میں حیات تازہ ملی۔ سلطنت خداد عدل وانصاف پر مبنی سلطنت تھی جس کی رعایا خوش حال تھی برطانوی سیاح ایڈورڈ مور لکھتا ہے "میسور کی ریاست بہترین زراعت، کاشت کاری، عوام کی ہنر مندی ودستکاری، نو تعمیر شدہ شہروں اور ان کی روزافزوں تجارتی ترقی کی وجہ سے حد درجہ خوشحال ہوچکی تھی"
ایسٹ انڈیا کمپنی نے جنگ پلاسی کے بعد ریاست میسور پر پنجے گاڑنے کےلیے منصوبے شروع کیے لیکن شیر میسور کی طرف سے اس قدر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا کہ جب سلطان کی وفات کی خبر انگلستان پہنچی تو خوشی کی حدیں پار ہوگئی جنرل ہارس جو غریب پادری کا بیٹا تھا ان کو "لارڈ ہارس آف سرنگا پٹم" کا خطاب ملا سپاہیوں کو تمغے دیے گئے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کی سلطان کے خلاف کارستانیاں اور سلطنت کی تسخیر کے بعد ریاست میسور کی دولت پر بھوکے کتوں کی طرح جس طرح حملہ کرکے ان پر ہاتھ صاف کیا گیا جس سے انگلستان کی صعنتی ترقی کی رفتار تیز ہوگئی۔ اس پر روشنی مضمون کے دوسرے حصے میں ڈالیں گے۔۔(جاری ہے)