پاکستانی عوام کا شعور اور نظم و ضبط بمقابل چینی عوام
کسی بھی قوم اور ملک کی ترقی کا دارومدار اس قوم کے لوگوں کے شعور اور اجتماعی نظم و ضبط پر ھوتا ھے اور قوم میں یہ شعور اور نظم و ضبط ملک کے اجتماعی نظ
پاکستانی عوام کا شعور اور نظم و ضبط بمقابل چینی عوام
انجینئر ظہور احمد۔ شنگھائی ۔چین
کسی بھی قوم اور ملک کی ترقی کا دارومدار اس قوم کے لوگوں کے *انسان دوست فکر* و شعور اور اجتماعی نظم و ضبط پر ہوتا ہے اور قوم میں یہ شعور اور نظم و ضبط ملک کے اجتماعی نظام سے پیدا ہوتا ہے۔
کسی قوم کے اجتماعی طور پر باشعور اور نظم و ضبط کی پابند ہونے کو سمجھنے کا ایک آسان اور بہتر طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ دیکھ لیا جائے کہ کوئی قوم یا ملک سماجی و اخلاقی حوالے سے کتنا ترقی یافتہ ہے۔ کوئی قوم جتنی زیادہ ترقی یافتہ ہوگی تو یقیناً اس کے لوگ اتنے ہی زیادہ باشعور اور نظم و ضبط کے پابند ہوں گے۔ لیکن کبھی کبھار کوئی مصیبت، آفت اور مشکل وقت بھی کسی قوم کے اخلاق، شعور اور نظم و ضبط کو جانچنے کا بہترین وقت ہوتا ہے۔ ایسا ہی ایک مشکل وقت موجودہ کرونا وائرس کی وبا کا پھیلنا ھے۔ اس وبا نے حقیقی طور پر قوموں کی اخلاقی حالت ، شعور اور نظم و ضبط کی حقیقی صورت حال کو واضح کر دیا ہے۔ نظم و ضبط پیدا کرنے کے لیے ملک کے اجتماعی نظام کا مضبوط ہونا بہت ضروری ہے.
نظام اور لوگوں کے اندر شعور اور نظم و ضبط کے درمیان موجود تعلق کو مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جب چین میں کرونا وائرس آیا تو اس وبا کے پھیلاؤ کے میکانزم پر روشنی ڈالی گئی کہ یہ وائرس ایک انسان سے دوسرے انسان میں سانس کے ذریعے پھیلتا ہے.اس دوران ادویات اور ماسک وغیرہ بہت ہی اہم پیرامیٹرز ہیں. اس حوالے سے چائینہ گورنمنٹ کی طرف سے یہ دوراندیشی دیکھنے میں آئی کہ ماسک کو کمیونٹی ڈیسک کےذریعے کنٹرول کیا گیا ۔کوئی بھی بندہ اس کے علاوہ کسی فارمیسی ، میڈیکل سٹور، شاپنگ سنٹرز یا کسی بھی دوکان سےماسک نہیں خرید سکتا تھا. اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ماسک کی بلیک میلنگ، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری بھی رک گئی. اور معاشرے میں جو ذخیرہ اندوز پائے جاتے ہیں ان کو بالکل کوئی موقع نہیں ملا کہ وہ ناجائز منافع کماسکیں۔
اب لوگوں کو قرنطینہ کرنے کے لیے جیسے ہی چین کی حکومت نے اعلان کیا، چین کے لوگ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ گئے. وقتاً فوقتاً جیسے ہی حکومت کی طرف سے کوئی پالیسی آتی تو لوگ فوراً اس پر عمل کرتے تھے۔ مشاہدہ کیا گیا کہ اس معاشرے میں پولیس نے کسی پر تشدد کیا، کسی کی بے عزتی کی اور نہ ہی کسی کے ساتھ برے طریقے سے پیش آئی. یہ سب اس لیے ہوا کہ وہاں پر نظام نے نظم و ضبط پیدا کیا ہوا ہے.
ایک اور مثال دیکھیں.
آج سے ایک سال پہلے چین نے کوڑا کرکٹ کے متعلق اپنی پالیسی کا اعلان کیا. یہ مشاہدہ شنگھائی کا ہے۔ حکومت نے اعلان کیا کہ ہر کوڑا پھینکنے والا شخص اپنے کوڑے کے چار حصے کرے گا؛ آئرن والی چیزیں علاحدہ، پلاسٹک والی علاحدہ، ری سائیکل ایبل(قابل استعمال چیزیں جیساکہ گتا، کاغذ) اور ویسٹیج جس میں ٹشو پیپر وغیرہ شامل ہیں علاحدہ۔
پہلے کچھ عرصے کے لیے کمیونٹی کو اس کی مشق کروائی گئی اور جب انہوں نے اعلان کیا کہ اس تاریخ کے بعد اگر کوئی اس پالیسی کی خلاف ورزی کرے گا، جرم کا ارتکاب کرے گا تو جرمانہ بھی ہوگا.
اس اعلان کے فوراً بعد لوگوں نے اس پر عمل کرنا شروع کر دیا ۔ کوڑے کو ایک ترتیب میں صبح و شام مقرر کردہ اوقات کے مطابق لوگ کوڑے دان میں ڈال رہے ہیں. یہ ہے ایک بہترین نظم و ضبط کی مثال۔ اسی طرح ٹریفک اشاروں کے لیے کیمرے لگے ہوئے ہیں، لوگ اشاروں کی پابندی کرتے ہیں اور بہت کم خلاف ورزی کرتے ہیں. یہ چند مثالیں ہیں جس سے اس قوم کے نظم و ضبط کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
یہ نظم و ضبط ان کے اندر کیسے پیدا کیا گیا ہے یہ سوچنے کی بات ہے.
ان کے اتنے اچھے نظم و نسق کی وجہ ان کا نظام ہے. بنیادی طور پر چین کا نظام ایک پارٹی چلا رہی ہے جوکہ کمیونسٹ پارٹی ہے۔اس نظام نے نظم و ضبط اور اخلاقی اقدار کے حوالے سے لوگوں کی تربیت کی۔
اس کے برعکس ہمارا نظام کھوکھلا ہوچکا ہے۔ اس کے ادارے مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ اپنا وقار کھو چکے ہیں۔ ان اداروں میں کوئی قابلیت و صلاحیت ہے اور نہ کوئی تربیت کا عمل ۔ یہ تمام ادارے فرسودہ ہو چکے ہیں. ان اداروں کا مقصد ایک مخصوص طبقے کے مفادات کا تحفط ہے. عوام کے حقوق ادا کرنے کے بجائے انہیں جبری طور پر قابو میں کیا جاتا ہے. جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہمارے ہاں سب کچھ مختلف کیوں ہے؟ اس کی اصل وجہ کیا ہے؟. ہمارے رویے میں برائی کی وجہ کیا ہے؟پھر یقیناً ہمیں سمجھ آجائے گی کہ ایک نظم و ضبط والے معاشرے کو بنانے کے لیے پہلے نظم و ضبط پر قائم نظام کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر ایسا نظام موجود نہیں تو ایک اعلیٰ نظریہ پر جماعت کی تشکیل کے ذریعے ایسا نظام قائم کرنا قوم کے اعلیٰ اخلاق، شعور اور نظم و ضبط کے لیے بہت ہی ضروری ہے۔